Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, October 28, 2018

دیوبند۔مولانا عبد الرشید بستوی کے انتقال پر تعزیتی جلسہ۔

مولانا عبد الرشید بستوی ؒ اپنے آپ میں ایک مثالی شخصیت تھے!
جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند میں منعقد تعزیتی اجلاس میں مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی کا خطاب
_____________________
دیوبند/ 28؍اکتوبر2018/صداۓوقت

جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند کے صدر المدرسین مولانا عبدالرشید بستوی کے اچانک انتقال پر جامعہ میں تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیاگیا ۔جس میں کثیر تعداد میں علماء وطلباء نے شرکت کی۔
اجلاس کی صدارت رئیس الجامعہ مولانا سید احمد خضر شاہ کشمیری نے کی جبکہ نظامت نائب ناظم تعلیمات مولانا فضیل احمد ناصری نے کی۔ اس موقع پر مولانا احمد خضر شاہ مسعودی نے کہا کہ مولانا عبدالرشید مرحوم کی اچانک رحلت سے میں بہت مغموم ہوں، میں نے اپنا ایک اہم ساتھی کھو دیا ہے۔ مرحوم بستوی امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری کے عاشقِ زار اور ان کے علوم کے شیدائی تھے۔ انہیں علومِ انوری سے خصوصی مناسبت تھی۔ انہوں مزید کہا کہ مولانا بستوی اپنے علمی مزاج و مذاق کے علاوہ معاشرتی زندگی میں بھی نمونے کے انسان تھے۔ کبھی کسی بات کا برا نہیں مانتے اور مخاطب کی بات کا خندہ پیشانی سے جواب دیتے تھے۔
مولانا کے عروج کا دور اب شروع ہی ہوا تھا کہ موت نے انہیں اپنا شکار کر لیا۔ جامعہ کے استاد حدیث مفتی نثار خالد دیناجپوری نے کہا مولانا عبد الرشید بستوی مرحوم اپنے آپ میں ایک مثالی شخصیت تھے، انہوں نے جامعہ کو نئی جہت بخشی، مولانا مرحوم اپنے اصولوں سے جینے کے عادی تھے اور اپنے نظریات کسی پر تھوپنا ان کا کا مزاج نہیں تھا۔ مولانا شیث احمد مظاہری نے کہا کہ مولانا مرحوم کے اچانک حادثہ وفات سے میں بہت زیادہ متاثر ہوں، انکی علمی خصوصیات و امتیازات بہت ہیں، انہیں بیان کرنے کے لئے تفصیلی وقت چاہیے۔
مولانا مفتی وصی احمد قاسمی بستوی نے اپنی تقریر میں کہا کہ مولانا مرحوم میں تواضع اور اپنے شاگردوں سے محبت بے پناہ تھی، وہ اپنے تلامذہ سے بہت گھل مل کر ملتے تھے۔ تحقیق و تالیف اور تدریس و تقریر، اسی طرح تمام علمی میدانوں میں اپنی انفرادیت رکھتے تھے۔ ان میں تدریس کا بہت زبردست ملکہ تھا۔ عربی زبان و ادب میں ان جیسے لوگ ملک میں برائے نام ہی ہیں۔
مولانا کا یوں چلا جانا جہاں جامعہ کا عظیم خسارہ ہے وہیں دنیائے علم و تحقیق کا ناقابل تلافی نقصان بھی ہے۔استاد حدیث مولانا صغیر احمد پرتاب گڑھی نے کہا مولانا مرحوم کے ساتھ ہماری قدیم رفاقت رہی، کم و بیش بیس سال ان کے ساتھ گزرے۔ مرحوم اگرچہ میرے ضابطہ کے استاذ نہیں تھے، مگر ان سے موقع بہ موقع استفادے کا سلسلہ قائم تھا، اسی لیے میں ان کو اپنا استاد مانتا ہوں۔

وہ میرے لیے نہایت قابل احترام شخصیت تھے۔ آج ان کی جدائی پر دل ماتم کناں ہے۔ مفتی انوار بستوی صدر اسلامک ریسرچ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ دیوبند نے اپنی تقریر میں کہا مولانا مرحوم خالص علمی آدمی تھے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی مطالعہ تحقیق، تصنیف و تالیف اور تعلیق و حواشی میں گزاردی۔ مولانا فضیل احمد ناصری صاحب نے کہا کہ مولانا مرحوم کا جانا بڑا اندوہناک حادثہ ہے، جامعہ میں ان کی حیثیت استاذ الاساتذہ کی تھی، ان کا وجود ہمارے لیے نعمت عظمیٰ تھا۔ وہ علم و ادب کے باب میں تحریک کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی حیات کے نقوش تادیر تابندہ رہیں گے۔اجلاس سے قبل قرآن خوانی کرکے دعاء ایصال ثواب کا اہتمام کیاگیا، جس میں طلبہ و اساتذہ سمیت مرحوم کے رشتے داروں نے شرکت کی۔ اس موقع پر مولانا مرحوم کے والد گرامی، ان کے صاحبزادگان مولوی عبداللہ قاسمی، مولوی عبدالسلام، عزیزم عبدالصمد نیز وطن اصلی سے تشریف لائے ہوئے اعزہ و اقارب و دیگر متعلقین موجود تھے۔ دیگر اساتذ ہ میں مولانا ابو طلحہ اعظمی، مفتی نوید دیوبندی، قاری بلال چالاک پوری، مولانا بدرالاسلام قاسمی، مولانا عمر اعجاز قاسمی، مولانا عثمان دیوبندی، مولانا سعدان جامی، مولانا جمیل دیوبندی، مولانا سلیم عثمانی ، سید مرغوب اور ماسٹر زعیم عابدوغیرہ موجودرہے۔