Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, October 19, 2018

عورتوں کے مسجد میں جانے کی حمایت میں ایک تحریر۔

تحریر/ مولانا عبد الحق فلاحی۔ (صدائے وقت)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
مردوں کو دینی احکام و مسائل سیکھنے کے بہت سے مواقع حاصل ہوتے ہیں جبکہ عورتیں اس سے محروم رہتی ہیں۔

  مساجد تعلیم و تربیت کا موثر ذریعہ ہیں اور عام جگہوں کی بنسبت زیادہ محفوظ بھی ہیں۔
ایسی صورت میں اگر وہ مسجد جاکر نماز باجماعت ادا کر لیں تو اس میں کیا  مضائقہ ہے؟جبکہ دور نبوی میں عشاء اور فجر کی نمازیں خواتین مسجد  میں پابندی سے باجماعت ادا کرتی  تھیں۔

میں قارئین کو حضرت عمر اور ان کی بیگم کے درمیان نماز کے سلسلے میں ہوئ گفتگو یاد دلانا چاہتا ہوں جو گرما گرم بحث (Hot Discussion  ) کے زمرے میں آتی ہے ۔حضرت عمر کہہ رہے ہیں: اگر آپ مسجد نہ جاتیں تو اچھا تھا۔وہ جواب میں کہتی ہیں کہ آپ مجھے حکما روکئے تو میں رکوں گی ورنہ مسجد ہی میں جاکر نماز ادا کروں گی۔
حضرت عمر اپنی اہلیہ کی اس بات پر سپر ڈال یتے ہیں۔

بات در اصل یہ ہے کہ مدتوں کا زنگ خوردہ تقلید جامد کے سانچے میں ڈھلا ہمارا دینی معاشرہ عورتوں کو دھوم دھڑاکے سے شاپنگ کرنے اور بازاروں کی رونق بڑھانے پر تو خاموش ہے مگر اللہ کے گھروں میں اللہ کی عبادت کرنے میں اسے سخت اعتراض ہے اور یہ اعتراض"مکروہ تحریمی" کے درجے میں ہے۔
ان کے لئے ائمہ کی آراء صحیح احادیث سے بھی زیادہ قابل اعتنا اور قابل استناد ہیں۔

مصلح قوم مولانا حالی نے اپنی " مسدس" میں اسی صورت حال پر نہایت کرب اور رنج سے کہا تھا کہ:
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں۔

  آج صورت حال یہ ہے کہ ہماری بیٹیاں ہندووں کے ساتھ شادی رچا رہی ہیں،بھنگیوں کے ساتھ بھاگ رہی ہیں۔آخر ہمارے ان جامد العقل و الفکر علماء کرام نے ان لڑکیوں اور دینی تعلیم و تربیت سے محروم عورتوں کے لئے کیا سوچا ہے اور کیا انتظام کیا ہے!

آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ مسلمان خواتین کے لئے مسجدوں کے دروازے کھول دئے جائیں اور عشاء و فجر میں ان کے لئے مناسب تذکیر،تعلیم اور ذہنی و فکری تربیت اور عقیدے کی پختگی کا معقول بند و بست کیا جائے۔

  اسی کے ساتھ اس کی بھی ضرورت ہے کہ پرانے طرز کی مساجد میں خواتین کی نماز اور اجتماعات کے لئے مناسب جگہ مختص کی جائے اور ایک سے زیادہ دروازہ ہونے کی صورت میں ان کے لئے کوئ ایک دروازہ مخصوص کر دیا جائے۔

  نئ مساجد کی تعمیر میں خواتین کی نماز کے لئے علیحدہ جگہ ڈیزائن کی جائے جس سے وہ یکسوئ کے ساتھ نماز ادا کر سکیں اور الگ دروازے سے ان کی آمد و رفت ہوا کرے۔بصورت مجبوری یہ طریقہ مقرر کیا جائے کہ خواتین مسجد سے  پہلے نکلیں اور مرد بعد میں۔

  اللہ کا شکر ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ خود ہندوستان میں مساجد میں خواتین کے لئے جگہیں مخصوص کی جا رہی ہیں اوف نئے طرز کی مساجد وجود میں آ رہی ہیں۔ اہل حدیث حضرات نئ مساجد میں اس کا بھرپور اور موثر اہتمام کر رہے ہیں۔ نئ دہلی (اوکھلا، ابالفضل انکلیو) میں مرکز جماعت اسلامی ہند کے کیمپس میں زیر تعمیر/توسیع مسجد اشاعت اسلام میں خواتین کی نماز باجماعت میں شرکت کے لئے بہت وافر مقدار میں جگہ مختص کی گئ ہے جو بہت سے مسلمان بھائیوں کے لئے ایک مثال اور نمونے کا کام دےگی۔انشاء اللہ!

یہاں میں بطور خاص یہ تذکرہ کروںگا کہ مسجد اشاعت اسلام کی ابتدائ تعمیر کے بعد سے یہاں الحمد للہ ،خواتیں کی نماز کے لئے عیدین میں خصوصی اہتمام کیا جانے لگا۔اور ادھر کافی عرصے سے جمعے کی نماز میں خواتین کی ایک معقول  تعداد شریک رہتی ہے اور وہ خطبہء جمعہ سے فاءدہ اٹھاتی ہیں۔رمضان المبارک میں تو اس مسجد میں نوع بہ نوع دینی پروگراموں کی بہارآئ رہتی ہے جس میں وہ بھی حصہ لیتی ہیں بالخصوص نماز تراویح میں تو کثیر تعداد میں ان کی شرکت ہوتی ہے۔اہل حدیث حضرات پرانی دلی میں موری گیٹ،اور نئ دلی میں شاہیں باغ میں عیدین میں خواتین کے لئے بڑے پیمانے پر نماز باجماعت کا اہتمام کرتے ہیں۔فالحمد للہ۔
بشکریہ۔
عبد الحق فلاحی۔19/اکتوبر۔

نوٹ۔۔ادارہ صدائے وقت کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔