Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, October 19, 2018

ترقی پسند شاعر اسرارالحق " مجاز" کا یوم ولادت۔


معروف ترقی پسند اورانقلابی نظموں کے لیے مشہورشاعر” اسرار الحق مجازؔ “ کا یومِ ولادت..
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اسرار الحق مجاز ۱۹؍اکتوبر ۱۹۱۱ء کو ردولی، ضلع بارہ بنکی  میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جج کے عہدے پر فائز تھے ، اس لیے ان کا قیام زیادہ تر لکھنؤ میں رہا۔ ۱۹۳۶ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے پاس کرنے کے بعد کچھ دنوں آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں اور کچھ عرصے بمبئی کے محکمۂ اطلاعات میں ملازم رہے۔ ہارڈنگ لائبریری، دہلی سے بھی کچھ عرصہ منسلک رہے۔ ابتدا میں فانی بدایونی نے ان کی چند غزلوں پر اصلاح دی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے ذوق کو خود رہبر بنایا۔ وہ دور حاضر کے محبوب شاعر تھے۔ *مجازؔ* شراب کے بے حد عادی تھے۔ کثرتِ شراب نوشی سے *۵؍ دسمبر ۱۹۵۵ء* کو انتقال کرگئے۔ کسی نے *مجاز کو شیلے کہا اور کسی نے ان کو کیٹس، کسی نے ان کو بلبل رنگیں نوا* کہا۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام *’’ آہنگ‘‘* کے نام سے ۱۹۳۸ء میں طبع ہوا۔ اس میں کچھ نظموں کا اضافہ کرکے ۱۹۴۵ء میں *’’ شبِ تاب‘‘ اور پھر مزید اضافے کے بعد۱۹۴۹ء میں *’’ سازِ نو ‘کے نام سے شائع ہوا۔

  ━━━━━✦━━━
اسرار الحق
مجازؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعارملاحظہ فرماٸیں۔

بس اس تقصیر پر اپنے مقدر میں ہے مر جانا
تبسّم کو تبسّم کیوں نظر کو کیوں نظر جانا
---
رخصت اے ہم سفرو شہرِ نگار آ ہی گیا
خلد بھی جس پہ ہو قرباں وہ دیار آ ہی گیا
---
*سازگار ہے ہم دم ان دنوں جہاں اپنا*
*عشقِ شادماں اپنا شوقِ کامراں اپنا*
---
شوق کے ہاتھوں اے دلِ مضطر کیا ہونا ہے کیا ہوگا
عشق  تو رسوا ہو ہی چکا ہے  حسن بھی کیا رسوا ہوگا
---
پھر کسی کے سامنے چشمِ تمنا جھک گئی
شوق کی شوخی میں رنگِ احترام آ ہی گیا
---
جلوے تھے حلقۂ سرِ دامِ نظر سے باہر
میں نے ہر جلوے کو پابندِ نظر جانا تھا
---
یہ آنا کوئی آنا ہے کہ بس رسماً چلے آئے*
یہ ملنا خاک ملنا ہے کہ دل سے دل نہیں ملتا
---
یہ کس کے حسن کے رنگینئ جلوے چھائے جاتے ہیں
شفق کی سرخیاں بن کر تجلی کی سحر ہو کر
---
ہر نرگسِ جمیل نے مخمور کر دیا
پی کر اٹھے شراب ہر اک بوستاں سے ہم
---
ماہ و انجم بھی ہوں شرمندۂ تنویرِ مجازؔ
دشتِ ظلمات میں اک ایسا چراغاں کر دیں
---
یوں تجھ کو اختیار ہے تاثیر دے نہ دے
دست دعا ہم آج اٹھائے ہوئے تو ہیں
---
بتانے والے وہیں پر بتاتے ہیں منزل
ہزار بار جہاں سے گزر چکا ہوں میں
---
لاکھ چھپتے ہو مگر چھپ کے بھی مستور نہیں
تم عجب چیز ہو نزدیک نہیں دور نہیں
---
ہم عرضِ وفا بھی کر نہ سکے کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے
---
بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجازؔ
ڈرتے نہیں سیاست اہلِ جہاں سے ہم
---
یہ اپنی وفا کا عالم ہے اب ان کی جفا کو کیا کہئے
اک نشتر زہر آگیں رکھ کر نزدیک رگِ جاں بھول گئے
---
غیر کی بستی ہے  کب تک در بدر مارا پھروں
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
---
اس محفلِ کیف و مستی میں اس انجمنِ عرفانی میں*
سب جامِ بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے۔
صدائے وقت۔ (ماخوذ۔)