Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, October 21, 2018

کوئی انقلاب کیسے آئے۔؟؟؟؟؟

تحریر/ عمر فراہی۔۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
عورت جو  اپنے جسم  کا کاروبار  کرتی ہے  ہم بہت ہی حقارت کے  ساتھ اس کے کردار کو نمایاں کرنے  کیلئے  فاحشہ اور طوائف  کا نام تو دے  دیتے ہیں لیکن مرد جو اس کے جسم سے لطف اندوز ہونے کیلئے اتنے ہی گناہگار ہوتے ہیں کیا انہیں  بھی  کوئی ایسا نام دیا جاتا ہے  ؟یہ عورتیں اپنے کاروباری اصول کی اتنی  پابند بھی  ہوتی ہیں کہ اپنے گراہکوں کو بےنقاب کرنے کیلئے می ٹو تحریک میں بھی شامل نہیں ہوسکتیں!
کتنی مظلوم ہیں یہ عورتیں کہ اپنی عزت کو تو  سربازار نیلام  کردیتی ہیں لیکن اپنے جسم  سے کھیلنے والے مرد کی  عزت پر  آنچ نہیں آنے دیتیں ۔ سماج  یہ کیوں نہیں  سوچتا  کہ دنیا میں  عورت  کو بھی عزت اور وقار کی زندگی پسند  ہے ۔کوئی باپ یا بھائی  جان بوجھ کر اپنی  بیٹی  اور بہن کو صرف  دولت  اور شہرت کیلئے اس دلدل میں  نہیں ڈھکیلتا۔مگر جب کوئی بے سہارا عورت کسی مجبوری اور بدحالی کی وجہ سے گندگی میں  گر جائے اور پھر اسے  باہر نکالنے والی کوئی سرکآری تنظیم اور ادارہ  بھی نہ ہو  تو ایسی عورتوں کیلئے یہ برائی  نسل درنسل خاندانی  پیشہ  بن جاتی ہے ۔  اس طرح جہاں یہ کاروبار ہوتا ہے اسے کوٹھا یا کہیں کہیں  مینا بازار اور  پیلا ہاؤس بھی کہتے ہیں ۔آج کے دور میں اب  یہ کاروبار بیئر بار, بیوٹی, پارلر اور فلم انڈسٹری کے ذریعے  تہذیب کے دائرے  میں فروغ پارہا ہے ۔ کبھی عزت بیچنا عورت کی مجبوری تھی ۔۔اس مجبوری  کا نام روٹی بھی کہا جاسکتا ہے  لیکن اب مختلف کاروبار جیسے کہ اشتہارات ,فلم صنعت  اور سیریلوں  کی آڑ میں جسموں کی تجارت بھی فیشن میں شمار ہونے لگا ہے ۔لیکن بہت ساری عورتوں کیلئے یہ مجبوری آج بھی قائم ہے ۔ہندوستان میں کوٹھے کا یہ کاروبار کب  سے شروع ہوا ,کیا ہندوستان میں مغلوں کے دور میں بھی یہ کاروبار تھا اس  عنوان پر کبھی بحث ہوگی لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ یورپ میں جدید جمہوری انقلاب کے بعد اس کاروبار کو  باقائدہ لائسنس دے دیا گیا ۔
میں جہاں رہتا ہوں یہاں قریب  میں  لوکھنڈوالا علاقے میں فلم  انڈسٹری کے لوگوں کا ایک بازار  ہے۔بھاڑے میں لباس سے  لیکر  کیمرہ اور میوزک کمپوز کرنے والے ٹکنیشین کہانیکار اور سیریلوں میں  کام  کرنے والی لڑکیاں بھی ملتی ہیں۔گھر  سے تھوڑی  دور پر فلم انڈسٹری  میں استعمال ہونے والی  عورتوں کی ایک سنستھا ہے جس کا نام" مہیلا آشرم "ہے  ۔زیادہ تر عورتیں  شادی شدہ اور مسلمان  گھرانوں سے ہیں جو مبئی کی جھگی جھوپڑیوں میں رہتی ہیں ۔ان کے مرد زیادہ تر چھوٹے کاروباری یا نوکری پیشہ ہوتے ہیں جو اپنی کمائی  کا بڑا حصہ  پینے  کھانے میں لٹا  دیتے ہیں ۔روزانہ کی بنیاد پر معاوضہ پانے والی ان  عورتوں کو ہفتوں اور    مہینوں  کام نہیں  ملے تو یہ  کیا کرتی ہیں؟
آشرم کی یہ عورتیں اکثر  رمضان کے  مہینے میں افتار کا انتظام کرنے کیلئے  ہمارے گھر برتن  وغیرہ مانگنے آتی ہیں ۔کچھ پندرہ سال پہلے  ایک  مسلم عورت  نے کہا کہ کام ٹھنڈا ہے کیا  آپ کے  یہاں کچھ دن  کیلئے جھاڑو  پوچھا اور برتن کا کام مل سکتاہے ۔اہلیہ نے کہا ٹھیک ہے کل سے آجاؤ ۔یہ عورت کچھہ دومہینے کام کرکے جانے لگی تو میں نے  پوچھا کہ آپ  لوگوں کو  فلموں میں کس  طرح کا کام ملتا ہے  ۔اس نے کہا کہیں کہیں کسی فلم میں عورتوں کے احتجاجی  مورچہ  اور ہیروئن کے ساتھ  ڈانس کرنے وغیرہ کیلئے بہت ساری عورتوں کی ضرورت ہوتی ہے اس کیلئے ہمیں پانچ  سو سے ہزار روپے مل جاتے ہیں ,اس  کے علاوہ سنستھا کا ممبر بننے سے  پہلے ہی سینیئر عورتیں یہ  بتا دیتی ہیں  کہ  یہاں فلم انڈسٹری میں کمائی  کے اور بھی راستے ہیں ۔ جتنی بھی عورتیں ہیں ان کی جوانی اور خوبصورتی کے لحاظ سے ان کی الگ الگ قیمت ہے ۔ سنستھا کی ہیڈ کے پاس ہی  گراہکوں کا فون آتا ہے  وہ اپنا  کمیشن رکھ کر عورتوں کو معاوضہ  بتا دیتی ہے جو  چاہے اسے قبول  کر لے کسی پر  کوئی  زور زبردستی نہیں ہے۔ اگر تم اس کیلئے راضی ہو تو ممبر شپ فارم پر دستخط کرو ۔ یوں تو کچھ باتیں مجھے پتہ تھیں لیکن کچھ تو اس عورت نے بتایا اور پھر ایک بار ایک دوسری مسلمان عورت نے جو کوئی سامان مانگنے آئی تھی اس نے اہلیہ سے کہا بھابھی کسی کو بچہ چاہیے تو بتانا۔اہلیہ نےکہا کس کا بچہ ہے اس نےکہا میرا ۔اس نےکہا میں اب تک تین بچے لوگوں کو ڈونیٹ کرچکی ہوں بس مجھے  ڈلیوری کے  خرچ کے بعد اوپر  سے دس ہزار اور چاہیے ۔پچھلی عورت نے تو ساری باتیں بتا ہی دی تھی اہلیہ کو سمجھنے میں دقت نہیں ہوئی ماجرا کیا ہے ۔
کچھ دوسال پہلے کی بات ہے میں اپنے علاقے کے بس اسٹاپ پر کھڑا تھا وہی عورت جو کبھی ہمارے یہاں کام کرچکی تھی وہ بھی آگئی ۔اس نے مجھے سلام کیا میں  نے بھی جواب دیکر رسماً پوچھ لیا خیریت!!
عورت تھوڑا نشےمیں تھی اس نے جو جواب دیا اس کے جواب سے میں سکتے  میں آگیا  لیکن مزاج  میں جو صحافت کا کیڑا گھسا ہوا ہے وہ کسی بھی حالات سے مقابلے کیلئے تیار رہتا ہے ۔اس نےکہا  کیا خیریت ہے!
آج تو میڈم نے ایک اٹھارہ سال کے نوجوان کے پاس بھیج دیا!
یہ عورت اب تقریباً ساٹھ سال کی ہوچکی تھی  ۔میں نے بہت ہی صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے کہا بہن آپ نے  شراب پی رکھی ہے اب اس عمر میں تو اللہ کی طرف رجوع ہوجاؤ ہوسکتا ہے اللہ معاف کردے۔اس کا جواب تھا کہ  میرا آدمی پی کے پڑا رہتا ہے گھر میں شادی کیلئے  دو دو جوان لڑکیاں ہیں۔اللہ  رسول کی باتیں سبھی کرتےہیں لیکن سب بیکار کی باتیں ہیں کس کے بھروسے پر گھر بیٹھ جاؤں ؟
کتنے دن کون ہمارے  اخراجات پورا کرےگا ؟
ہم اکثر  ایسی عورتوں کو فاحشہ قرار دیکر کنارہ کشی تو اختیار کرلیتے  ہیں  لیکن اس  کی جیسی ہزاروں عورتیں اس دلدل میں گرتی کیسے ہیں اس کا حل ہم  کبھی نہیں ڈھونڈتے !
  اس کے ذمدار یقیناً ہم اور ہمارا خوشحال بدعنوان معاشرہ بھی ہے جو صرف ایک دوسرے کو لوٹنے اور اپنی ھل من مزید کی آگ کو ہوا دینے میں مصروف  ہے ۔یہ تو صرف  ہمارے علاقے میں مہیلا آشرم کے نام سے  ایک سنستھا ہے جس  میں ڈھائی سے تین ہزار عورتیں بدکاری کے دلدل میں غرق ہیں ہندوستان میں ایسی لاکھوں مسلمان عورتیں فحاشی اور ارتداد کی زد میں ہیں کیا انہیں اس دلدل سے باہر نکالنے کیلئے پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک  بھی سنستھا ہے جو پسماندہ مسلم  خاندانوں کو  اس برائی سے باہر نکال سکے ؟؟؟
اگر مسجدوں مدرسوں اسلامی یونیورسٹیوں اور مسلکی جنگ سے فرصت ملے تو کبھی اس بارے میں بھی ضرور سوچنا!!
یوپی حکومت نے شیلٹر ہوم میں پلی ہوئی  لڑکیوں کی ایک اجتماعی شادی میں شامل چار ایسی مسلم لڑکیوں کی شادی غیر مسلم لڑکوں سے کروادی جو نام سے تو مسلمان گھرانے سے تھیں لیکن وہ اپنے مذہب سے ناآشنا تھیں  ۔مسلم تنظیمیں واویلا  مچارہی ہیں کہ یوگی سرکار کو ان لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں سے  شادی سے پہلے  مسلم  تنظیموں سے رابطہ کرنا  چاہیے تھا  ۔ان کا مطالبہ جائز ہوسکتاہے لیکن شور مچانے سے پہلے مسلمانوں کو یہ بھی  سوچنا ہوگا کہ ہندوستان  کے جس لادینی سیکولر معاشرے کو قبول کرنے کیلئے مرحوم  ابولکلام آزاد نے دلی کی شاہی مسجد  سے آواز دی تھی انہوں نے کہیں اس کا بھی تذکرہ ضرور  کیا ہوگا کہ اسلامی معاشرے کے مقابلے میں سیکولر معاشرے کے بھی کچھہ اصول ہیں! ایک سیکولر  سرمایہ دارانہ جمہوری سیاست میں حکومت  کے علاوہ غیرسرکاری تنظیموں اور سنستھاؤں کا بھی اہم کردار ہوتا  ہے۔
ایسی سنستھاؤں کے قیام میں اقامت الصلوۃ کے علمبردار کہاں کھڑے ہیں؟   طاغوت کے نمائندوں نے اسی لبرلزم کا فائدہ  اٹھاتے ہوئے فحاشی اور بدعنوانی کو  فروغ دینے کیلئے ہزاروں لاکھوں سنستھائیں اور ادارے قائم کیئے  ہیں ۔بتوں کی پوجا کرنے والوں نے بھی مندروں کے علاوہ فلاح وبہبود کے اداروں کی جو قطار لگا دی ہے ان کی دہلیز  پر نقاب  پوش عورتیں اور کرتا پائجامہ والے مرد بھی قطار  میں کھڑے نظر آتے  ہیں۔شایدابھی  ہمیں اس بحث سے بھی  باہر نکلنا ہے کہ دیوالی کی مٹھائی کھانا حلال ہے یا حرام !!
ابھی ہمیں یہ بھی طئے  کرناہے کہ فحاشی بڑا گناہ ہے یا بدعنوانی!
کچھ ایسے لوگوں سے بھی آشنائی ہے جو
شراب پیتے ہیں ۔ان سے کہا کہ کیوں پیتے  ہیں یہ اچھی چیز نہیں ہے تو جواب دیتے  ہیں تھوڑی  سی پی لیتے ہیں اور  کوئی بری عادت تو نہیں !
اقبال بھی خوب کہتے ہیں ۔
الفاظ و  معنی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

مگر ملا جی بھی  اپنی سوچ کو بدلنے سے  رہے !
کوئی انقلاب کیسے آئے ؟
بشکریہ۔
عمر فراہی