Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, October 30, 2018

یوروپی یونین کی عدالت قابل تحسین فیصلہ۔


تحریر/شکیل رشید..صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
’آزادی اظہار کے نام پر پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین ناقابل قبول ہے‘۔
یوروپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق کے مذکورہ فیصلے کی جس قدر بھی پذیرائی کی جائے کم ہے، کیوں کہ فیصلہ اگر کسی مسلم ملک یا مسلم عدالت کی طرف سے کیاجاتا تو اس کی وہ اہمیت نہ ہوتی جو یوروپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق کے فیصلے کی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مسلمان اور مسلم ممالک آزدی اظہار رائے کے نام پر پیغمبر ﷺ کی توہین کو کسی بھی صورت میں جائز اور قانونی قرار نہیں دے سکتے تھے لیکن یوروپی یونین کی عدالت سے اس کا احتمال تھا۔ یوروپ کو بشمول امریکہ آزادی اظہار رائے کا ’مرکز‘ ماناجاتا ہے۔ وہاں آزادی اظہار رائے کے نام پر لوگ ایک دوسرے کے لتّے لے لیتے ہیں، آزادی اظہار رائے کے نام پر ایک دوسرے کی عزت سے کھیل جاتے ہیں۔ یوروپ اور امریکہ میں آزادی اظہار رائے کی کچھ ایسی چھوٹ ہے کہ اگر کچھ لوگ کسی مذہب، مذہبی رہنما اور مذہبی اعمال کے خلاف بات کریں تو حکومتیں ان پر قدغن نہیں لگاپاتیں کیوں کہ اس طرح کی باتوں یا بالفاظ دیگر نکتہ چینیوں کو لوگ اپنا ’بنیادی حق‘ تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یوروپ اور امریکہ میں جب ’حجاب‘ اور ’پردہ‘ کے خلاف آواز اُٹھتی ہے، لوگ تحریک چلاتے یا قانونی کارروائیاں کرتے ہیں تو اس پر کوئی روک ٹوک اس لیے نہیں لگائی جاتی کہ اس عمل کو آزادی اظہار رائے ماناجاتا ہے۔ اور اختلاف کرنا ’بنیادی حق‘ سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ کی تاریخ اُٹھا کر دیکھیں ایک پادری نے نعوذباللہ قرآن پاک کو نذرآتش کرنے کا اعلان کیا اورامریکی سرکار یہ کہہ کر اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے باز رہی کہ کسی مذہب کو یا مذہبی صحیفے کو پسند یا ناپسند کرنا لوگوںکا بنیادی حق ہے۔ او ریہ آزادی اظہار رائے کے ز مرہ میں آتا ہے۔ یوروپ اور امریکہ میں مذاہب کی توہین کی ایک تاریخ رہی ہے۔
حالانکہ آزادی اظہار رائے کے نام پر غیر عیسائی مذاہب پر کی جانے والی نکتہ چینیوں کا بھرم بار بار کھلتا رہا ہے کیو ںکہ اکثریوروپی  ممالک میں حضرت عیسیؑ پر نکتہ چینی کرنا’جرم‘ ہے۔ مطلب یہ کہ یوروپ اور امریکہ کے لوگ اگر دوسرے مذاہب کے رہنمائوں پر نکتہ چینی کریں تو آزادی اظہار رائے اور اگر کوئی حضرت عیسیؑ پر نکتہ چینی کرے (مسلمان تو خیر اس کا بھی تصور نہیں کرسکتا) تو غیر قانونی او رجرم!
یہ وہ دوہرا رویہ یا دوغلاپن ہے جس سے مسلمانوں کے علمائے کرام اور دانشوران عرصے سے دوچار ہوتے چلے آئے ہیں۔ مستشرقین کی ایک لمبی فہرست ہے جو پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف نازیبا کلمات بکتی رہی اوربے معنی اعتراضات کرتی رہی ہے، سب کو اکابر نے مدلل جواب دیا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود پیغمبر اسلامﷺ کی نعوذباللہ توہین کا سلسلہ تھما نہیں ہے۔۔۔اب اسی یوروپ سے جہاں کے لوگ اس بے ہودہ عمل میں پیش پیش رہے ہیں یہ فیصلہ آیا ہے کہ پیغمبر اسلامﷺ کی توہین ناقابل قبول ہے تو ہمیں عدالت کا شکریہ ادا کرناچاہئے او ریہ یقین رکھناچاہئے کہ وہاں کے لوگ عدالت کےفیصلے کو کھلے دل سے قبول کریں گے اور ساری کائنات کی شریف ترین او ر عظیم ترین ہستی حضرت محمد ﷺ کی سیرت کامطالعہ کرکے اس سچ تک پہنچیں گے کہ ایک ایسی بابرکت ذات کی طرف کیچڑ اچھالنا واقعی بد ترین عمل ہے جو ہمیشہ انسانیت کی فلاح کے لیے سرگرم عمل رہی ہے او رجس نے دنیا کو ’خطبہ حجۃ الوداع‘ کی صورت میں ’انسانی حقوق‘ کا ایک ایسا چارٹردیا کہ اس پر عمل سے ساری انسانیت فلاح پائے اور دنیا سے ظلم وستم اور ناانصافی کا خاتمہ ہوجائے۔