Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, October 31, 2018

کیا ہے ہاشم پورہ معاملہ۔پڑھیں پوری رپورٹ

_______"ہاشم پورہ 22مئی 1987"

_____________________
تحریر/شکیل رشید[ممبٸ]
. . . . . . . . . . . .  صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
ایک اعلیٰ پولیس افسر وبھوتی نارائن رائے کے ہاتھوں تحریر کی گئی یہ کتاب “Hashimpura 22 May”فرقہ وارانہ فسادات کی داستان ہی نہیں، ہندوستانی مسلمانوں کی مظلومیت، بے چارگی اور انصاف سے محرومی کا نوحہ بھی ہے۔ اس کتاب کو تحریر کرنے میں وبھوتی نارائن رائے کو، جو ہندی کے ایک اعلیٰ پائے کے ادیب بھی ہیں،29 سال لگے اور کتاب ہاشم پورہ قتل کی 30 ویں برسی پر شائع ہوئی۔ اب گزشتہ 22 مئی کو ہاشم پورہ کے قتل عام اور میرٹھ و ملیانہ کے فسادات نے 31 ویں سال میں قدم رکھ دیا ہے۔ تین دہائیوں کا عرصہ مختصر نہیں کہا جاسکتا۔ مگر اس لمبی مدت میں بھی نہ میرٹھ اور ملیانہ، اور نہ ہی ہاشم پورہ قتل عام کے متاثرین کو انصاف مل سکا ہے اور نہ ہی قصورواروںکو جنہیں میرٹھ کے مسلمان مجرم قرار دیتے ہیں، سزا دی جاسکیی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قصوروار یا مجرم کوئی اور نہیں پولیس والے ہی ہیں، یوپی کی بدنام زمانہ پی اے سی کے جوان۔ یہ کتاب اس لیے ایک خاص اہمیت اختیار کرلیتی ہے کہ پولیس والوں کی درندگی اور مسلمانوں کی مظلومیت کو ایک پولیس والے نے ہی اجاگر کیا ہے۔ فی الحقیقت تو ایسی کتاب وبھوتی نارائن رائے جیسا سچا ادیب، آئین اور سیکولر اقدار پر مکمل طور پر ایمان رکھنے والا ایک سچا پولیس افسر اور ایسا شخص ہی لکھ سکتا تھا جس کا بیرون اور اندرون دونوں ہی سیکولرازم کا عملی نمونہ ہوں۔ اسے رائے جیسا کوئی ایسا پولیس افسر ہی لکھ سکتا تھا جس پر پولیس، سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کے دہرے چہرے نہ صرف عیاں تھے بلکہ وہ یہ سوچ کر مضطرب بھی رہے کہ ملک کے سب سے بڑے حراستی قتل کی واردات پر کیسے آسانی کے ساتھ پردہ بھی ڈال دیا گیا اور قصورواروں کو بچا بھی لیا گیا۔ حتیٰ کہ انہوں نے یہ طے کرلیا کہ وہ قصورواروں کے چہروں کو بے نقاب بھی کریں گے اور ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تئیں عدم انصاف کے رویّے اور ان کی زبوں حالی کا نوحہ بھی لکھیں گے۔
کتاب نو ابواب پر مشتمل ہے۔ ابتدائیہ علیحدہ ہے۔ ہاشم پورہ کے قتل عام کی داستان انتہائی دل دہلانے والے انداز میں تحریر کی گئی ہے مگر حقائق سے نہ کہیں روگردانی کی گئی ہے اور نہ ہی زبان و بیان کو سجا اور سنوار کر پیش کیا گیا ہے۔ میرٹھ کے فسادات کا دور شدید قسم کی فرقہ پرستی کا دور تھا۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک زوروں پر تھی‘ راجیو گاندھی نے مسجد کا بند دروازہ کھلوا دیا تھا۔ مسلمانوں میں شدید ناراضی اور ماحول میں شدید کشیدگی تھی۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کا یہ عالم تھا کہ پی اے سی نے اپنے ہی ایک مسلم افسر کی تقریباً اُس وقت جان لے لی تھی جب اُس نے مسلمانوں کو ہراساں کیے جانے کے خلا ف آواز اٹھائی تھی۔ ان حالات میں 22 مئی 1987ء کو وہ واردات ہوئی جسے وبھوتی نارائن رائے نے ہندوستان میں حراستی قتل کی سب سے بڑی واردات قرار دیا ہے۔ اس رات جو کچھ ہوا، رائے نے پہلے باب میں اسے بڑی تفصیل کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ انہوں نے یہ پتا لگانے کی بھی کوشش کی ہے کہ ہاشم پورہ قتل عام کی وجہ کیا تھی؟
بات 21مئی 1987ء سے شروع ہوتی ہے جب ایک فوجی افسر میجر ستیش چندر کوشک کے بھائی پربھات کوشک کو، جو مکان کی چھت پر تھا، ایک گولی آکر لگی اور اس کی موت ہوگئی۔ بتادیں کہ ستیش اور پربھات کی خالہ شکنتلا شرما بی جے پی کی اُس وقت کی شعلہ بیان لیڈر تھیں۔ 21 مئی کو پربھات کی موت ہوئی اور 22 مئی کو پی اے سی کی 41 ویں بٹالین کمانڈر سریندر پال سنگھ کی قیادت میں ہاشم پورہ پہنچی۔ گواہ موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ پی اے سی کی ٹکڑی کے ساتھ میجر ستیش چندرکوشک بھی تھے۔ 42 مسلم نوجوانوں کو بندوقوں کی نوک پر گھروں سے نکال کر ٹرک میں بھرا گیا۔ ٹرک پہلے مراد نگر پہنچا، پھر مکن پور، جہاں اپرگنگا اور ہنڈن ندی کے کنارے پر مسلم نوجوانوں کو ٹرک سے اترنے کے لیے کہا گیا، وہ جیسے جیسے اترتے گئے ویسے ویسے پی اے سی والے انہیں گولی مار کر ندی میں پھینکتے گئے۔ ’’ہاشم پورہ 22 مئی‘‘ ان ہی مقتولین کی داستان ہے۔ دو ایسے افراد کی زبانی یہ ساری المناک داستان رائے نے جمع کی ہے جو فائرنگ سے شاید اس لیے بچ نکلے تھے کہ دنیا کے سامنے پی اے سی کی درندگی کو افشا کرسکیں۔
رائے نے اپنی یہ کتاب اس جملے سے شروع کی ہے ’’رات کے کوئی ساڑھے دس بجے ہوں گے، ہاپوڑ سے میں بس ابھی واپس لوٹا ہی تھا۔ ضلع مجسٹریٹ نسیم زیدی کو ان کی سرکاری رہائش گاہ پر چھوڑ کر میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے طور پر اپنے گھر کے قریب پہنچا تھا کہ میری کار کی ہیڈ لائٹس ڈرے سہمے وہاں کھڑے سب انسپکٹر وی بی سنگھ پر پڑی جو لنک روڈ پولیس اسٹیشن کے انچارج تھے۔ مجھے احساس سا ہوا کہ ان کے حلقے میں کوئی خوفناک بات ہوگئی ہے۔ میں نے ڈرائیور سے کار روکنے کو کہا اور باہر نکل آیا‘‘۔ اس کے بعد رائے نے سنگھ کی زبانی یہ خبر سننے کی تفصیل بیان کی ہے کہ پی اے سی نے چند مسلمانوں کو قتل کردیا ہے۔
رائے کے دماغ میں سوالات اٹھنے لگے: انہیں کیوں قتل کیا گیا ہے؟ کتنوں کو قتل کیا گیا ہے؟ انہیں کہاں سے اٹھایا گیا تھا؟ رائے نے سوالات پر غور ہی نہیں کیا بلکہ وہ مرادنگر کی سمت روانہ ہوئے۔ اپرگنگا اور ہنڈن ندی کے قریب ہونے والے قتل عام سے تین افراد بابو دین، ذوالفقار اور قمرالدین بچ نکلے تھے۔ بابو دین کو رائے نے ندی سے نکالا تھا، اس کے دو گولیاں لگی تھیں۔
آج 30 سال کے طویل عرصے کے بعد لوگوں کے ذہنوں سے ہاشم پورہ قتل عام کے نقوش محو ہوچکے ہیں جنہیں دوبارہ اجاگر کرنے کا کام رائے نے اس کتاب میں کیا ہے۔ رائے نے اسے آزاد ہندوستان میں حراستی قتل کی سب سے بڑی واردات کہا ہے۔ وہ اسے ریاست کی بہت بڑی ناکامی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایسی واردات ہے جس میں ریاست کے ایجنٹ قاتلوں کے ساتھی بنے ہوئے تھے اور یہ ناقابلِ معافی جرم ہے۔ جب ہاشم پورہ کی واردات ہوئی تھی تب رائے پڑوسی ضلع غازی آباد میں پولیس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے ہنڈن اور اپر گنگا میں جو کچھ دیکھا تھا وہ ان کے ذہن پر نقش ہوگیا تھا۔ انہوں نے ذکر کیا ہے کہ وہ پی اے سی کی چھائونی بھی گئے اور اس ٹرک کو بھی دیکھا جس میں مسلمانوں کو بھر کر لے جایا گیا تھا۔ ٹرک کو پانی سے دھویا جارہا تھا۔ رائے نے اعلیٰ پولیس افسران تک قتل عام کی خبر پہنچائی۔ قتلِ عام کا معاملہ درج کرانے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کی۔ انہوں نے تفتیشی ایجنسیوں کی چھان بین پر نگاہ رکھی۔ خطاکار پی اے سی والوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی۔ انہوں نے پایا کہ ریاست اور پولیس نے مل کر قتلِ عام کی ایک المناک واردات پر پردہ ڈال دیا ہے۔ رائے نے 22 مئی کے روز ہی پی اے سی کی چھائونی پر چھاپہ مارنے کی تجویز پیش کی تھی جو ٹھکرا دی گئی تھی۔ یہ تجویز انہوں نے صرف اعلیٰ پولیس افسران کو نہیں اُس وقت کے کانگریسی وزیراعلیٰ ویر بہادر سنگھ کے سامنے رکھی تھی۔ ویر بہادر میرٹھ پہنچے تھے اور سرکٹ ہائوس میں موجود تھے۔ وہاں رائے اور دیگر سرکاری افسران جمع تھے۔ اُس وقت رائے نے قتل عام کی واردات سے بھی انہیں باخبر کیا تھا اور یہ تجویز بھی سامنے رکھی تھی کہ پی اے سی کی چھائونی پر چھاپہ مارا جانا چاہیے تاکہ ثبوت اکٹھے کیے جاسکیں۔ مگر کانگریس نے ہمیشہ کی طرح میرٹھ فسادات اور ہاشم پورہ قتل عام کو بھی نہ صرف دبانے کی بلکہ ساری واردات کو من گھڑت قرار دینے کی کوشش کی، اور اس میں وہ اعلیٰ پولیس افسر بھی شریک تھے جنہیں یہ خبر رائے نے خود دی تھی کہ قتلِ عام ہوا ہے۔ رائے بڑی ہی تفصیل سے تحریر کرتے ہیں کہ ہاشم پورہ کے مقتولین اور متاثرین کیسے جمہوریت کے تینوں ستونوں کی طرف سے نظرانداز کیے گئے، بلکہ تینوں ہی ستونوں یعنی مقننہ، عاملہ اور عدلیہ نے ان سے ناانصافی کی۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ ہاشم پورہ قتل عام کی کہانی ہندوستانی ریاست اور اقلیتوں کے درمیان گھنائونے تعلقات کی، پولیس کے اخلاقی رویّے اور پریشان کن سست رفتار عدالتی نظام کی کہانی ہے۔ رائے کے مطابق ہاشم پورہ آج بھی بہیمانہ ریاستی جبر اور ایک بے ریڑھ والی ایسی حکومت کی علامت بنا ہوا ہے، جو اپنے ہی لوگوں کے قاتلوں کے آگے سرنگوں ہوگئی تھی۔
ایک پولیس اور انٹیلی جنس افسر کے طور پر اپنے تجربات کا استعمال کرتے ہوئے رائے نے تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ کیسے تفتیش کا رخ موڑا گیا۔ رائے کا قلم روانی کے ساتھ چلتا ہے، اس میں کرب اور غم بھی ہے اور غصہ بھی۔ وہ بہت سارے چہروں سے پردہ اٹھاتے ہیں اور بہت سارے کرداروں کے رویّے کو اجاگر کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کیسے اپر گنگا اور ہنڈن ندی کے قریب ہوئے قتلِ عام سے بچنے والے نوجوانوں کو وہ محفوظ ٹھکانے تک لے گئے۔ وہ مرحوم سید شہاب الدین سے ملاقات کا اور بابو دین کو ان کے سامنے پیش کرنے، ان کی ڈاکٹر صاحبزادی کی جانفشانی اور ان کے ذریعے ہاشم پورہ قتل عام کو اجاگر کرنے میں اہم کردار رہا ہے۔ راجیو گاندھی، بی چدم برم، ایل کے ایڈوانی وغیرہ کا ذکر بھی کتاب میں موجود ہے۔ پی چدم برم اُن دنوں وزیر داخلہ تھے۔ راجیو گاندھی نے پہلے دلچسپی دکھائی، پھر بے رخی۔ اُس زمانے کی میرٹھ کی رکن پارلیمنٹ محسنہ قدوائی کا بھی ذکر ہے جنہوں نے دوٹوک انداز میں رائے کی مدد سے انکار کردیا تھا۔
وبھوتی نارائن رائے نے جس کتاب کو تحریر کرنے کا آغاز1987ء میں کیا تھا اس کی تکمیل وہ ہاشم پورہ قتل عام کے مقدمے کے فیصلے کے بعد کرنا چاہتے تھے۔ فیصلہ 21 مارچ 2015ء کو آیا، اس سے قبل 21 جنوری 2015ء کو فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں تمام ملزم پولیس والوں کو بری کردیا۔ رائے اس فیصلے پر کہتے ہیں کہ فیصلہ افسوسناک ضرور ہے مگر امید کے برخلاف نہیں۔ رائے کا ماننا ہے کہ جانچ کو دانستہ غلط رخ دیا گیا۔ وہ اپنی تحریر میں مسلم قائدین پر بھی انگلیاں اٹھاتے ہیں، اُس وقت کی رکن پارلیمنٹ محسنہ قدوائی بھی ان کے قلم کی کاٹ سے نہیں بچ پائیں، اور نہ ہی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، سی آئی ڈی سید خالد رضوی اور اُس وقت کے ضلع مجسٹریٹ نسیم زیدی جو آج ای وی ایم پر اٹھنے والے اعتراضات کے دور میں الیکشن کمشنر ہیں۔ وبھوتی نارائن رائے کی یہ کتاب ہر اُس شخص کو پڑھنی چاہیے جو جمہوری ہندوستان کے غیرجمہوری چہرے کو دیکھنا چاہتا ہو۔ رائے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کتاب انگریزی میں پنگوئن نے شائع کی ہے۔ ہندی میں بھی ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ اردو زبان میں بھی آئے۔