Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, October 19, 2018

آر ایس ایس کئی سروں اور کئی منہ والا عفریت!


تحریر/شکیل رشید (صدائے وقت)۔
.  . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
آر ایس ایس کے کئی روپ ہیں! اور جتنےبھی روپ ہیں اتنے ہی منہ بھی ہیں۔ ہر منہ سے الگ الگ بات نکلتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ جب آر ایس ایس کے طرح طرح کےروپ اور ایک سے زائد منہ کا ذکر ہوتا ہے تو اس کا سیدھا مطلب اس کٹر ہندو تووادی تنظیم کے سر سنگھ چالک یعنی اس کے سربراہ کے افعال، اعمال اور بیانات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہ سرسنگھ چالک ہی ہیں جو وہ ’راہ‘ متعین کرتے ہیں جس پر سنگھ کو چلنا ہوتا ہے۔ موہن بھاگوت نے ابھی کچھ عرصے قبل ہی کہا تھا کہ ’ہندو راشٹرکا مطلب یہ نہیں کہ اس میں مسلمانوں کےلیے جگہ نہیں ہے، جس دن ایسا کہا جائے گا اس دن وہ ہندو تو نہیں رہ جائے گا، ہندو تو کی نظر میں پوری زمین ایک کنبہ ہے‘۔ انہوں نے ’ہندو راشٹر‘ کے تصور کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ’ہندو راشٹر مسلمانوں کے بغیر نہیں ہوسکتا‘ ۔ بھاگوت کے مذکورہ بیانات کے بعد یہ بحث چل پڑی تھی کہ آیا ’آر ایس ایس میںتبدیلی آرہی ہے؟‘ ایودھیا تنازعہ کے تعلق سے بھی بھاگوت کے ایک بیان سے یہ اشارہ ملا تھا کہ سنگھی ٹولہ اپنا رخ یا تو تبدیل کررہا ہے یا پھر اپنے رویے کو نرم کررہا ہے۔ بھاگوت پر سپریم کورٹ میں بابری مسجد ، رام مندر معاملے کی سماعت کے موقع پر صاف لفظوں میں یہ کہا تھا کہ ’آر ایس ایس سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرنے لج پابند ہے، ایودھیا تنازعے پر جو بھی فیصلہ آئے گا وہ قبول ہوگا‘۔ لیکن اب ان کا بالکل تازہ ترین بیان آیا ہے جو جہاں ایک طرف ان کے اس بیان کی نفی کرتا ہے کہ ’ہندو راشٹر کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں مسلمانوں کےلیے جگہ نہیں ہے‘ وہیں دوسری طرف ایودھیا تنازعے میں ان کی دوغلی سوچ کو بھی سامنے لاتا ہے۔
بھاگوت نے آر ایس ایس کے مرکز ناگپور میں وجے دشمی کے موقع پر ’مارچ‘ کے دوران سنگھی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’رام مندر اب بن جاناچاہئے لیکن سیاسی پارٹیاں اس معاملے پر سیاست کررہی ہیں‘۔ اگر ان کا بیان اس جملے تک ہی محدود رہتا تو بھی فکر اور تشویش کی کوئی بات نہیں تھی مگر انہوں نے ا نتہائی نفرت بھری زبان کا استعمال کرتے ہوئے بابر کو ایک بھیانک آندھی سے تشبیہ دی۔ انہوں نے یہ تو کہاکہ ’اس بھیانک آندھی (بابر) نے ملک کے ہندو اور مسلمانوں کو نہیں بخشا‘ لیکن یہ بھی کہاکہ ’رام صرف ہندوئوں کے نہیں ہیںبلکہ پورے ملک کے ہیں اور کسی بھی طرح سے مندر بنناچاہئے بلکہ حکومت کو رام مندر بنانے کےلیے قانون لاناچاہئے، لوگ کہتے ہیں کہ ان (بی جے پی) کا اقتدار ہے پھر مندر کیو ں نہیں بنا‘؟۔
گویا یہ کہ بھاگوت چند مہینوں کے اندر ہی یہ بھول گئے کہ ایودھیا تنازعے پر سپریم کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے اور انہوں نے یہ اعلان کررکھا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کیاجائےگا! سب بھول کربھاگوت نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کےلیے حکومت پر قانون سازی کےلیے زور ڈالنا شروع کردیا ہے۔ یہ عدالت عظمی پر اثر انداز ہونے کی بھی کوشش کی ہے او رمسلمانوں کو دھمکانے کی بھی، کہ اس ملک میں ہندو تو وادی جو چاہیں گے وہی ہوگا کسی عدالت کافیصلہ چلنے والا نہیں ہے! گویا یہ کہ وہ یہ بھی بھول گئے کہ ابھی کچھ عرصے قبل وہ اس ملک کے مسلمانوں کو یہ یقین دلارہے تھے کہ وہ ’غیر ‘ نہیں ہیں۔ ویسے لوگ یہ جان لیںکہ اصلی اور حقیقی آر ایس ایس یہی ہے ، کئی سروں اور کئی منہ والا ایک عفریت، ایک دیو جو جیسا موقع دیکھتا ہے ویسا بولتا ہے۔ اُن لوگوں کو جو یہ کہتے ہیں کہ آر ایس ایس میں تبدیلی آرہی ہے، حقیقی صورت حال کو دیکھنا، سمجھنا اور غور کرنا ہوگا۔ آر ایس ایس کا وجود نہ اس ملک کی جمہوریت کےلیے اچھی علامت ہے، نہ سیکولرازم کے لیے اور نہ ہی اس ملک میں فرقہ وارانہ بھائی چارہ کےلیے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ آر ایس ایس کو ایک کونے میں دبکنے پر مجبور کردیاجائے ۔ اور اس کا سب سے بہتر طریقہ بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنا ہے کیو ںکہ اقتدار ہی آر ایس ایس کی کی غذا اور زندگی ہے۔
بشکریہ۔شکیل رشید۔