Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 22, 2018

12 ربیع الاول پر نکلنے والے کچھ جلوسوں کا پس منظر۔

۱۲ ربیع الاول کے موقع پر نکلنے والے کچھ جلوسوں کا پس منظر۔     ــــــــــــــ
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
از محمود دریا بادی۔(صدائے وقت)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
    ممبئی میں خلافت ہاؤس سے نکلنے والا جلوس تقریبا ۹۹ سال قبل مولانا محمد علی جوہر کی آل انڈیا خلافت کمیٹی نے نکالا تھا ـ دراصل انگریزوں نے اس زمانے میں ہر قسم کے سیاسی جلسے وجلوسوں پر پابندی لگادی تھی، اس لئے مذہبی سرگرمی کے نام پر اس وقت دو جلوس نکالے گئے تھے، ایک ہندؤوں کاجلوس " گنپتی " تہوار کے موقع پر بال گنگادھر تلک نے نکالا تھا اور دوسرا خلافت کمیٹی کے اکابرین نے ۱۲ ربیع الاول کو مسلمانوں کا جلوس نکالا،  دونوں جلوسوں کا مقصد مذہبی سے ذیادہ سیاسی تھا، انگریز حکومت پر عوامی دباو بنانا دونوں کا مقصد تھا، چنانچہ آغاز اور ختتام کے پر جو مذہبی تقریرں ہوتی تھیں ان میں حالات حاضرہ کے عنوان پر عوام میں جذبہ حریت کی بیداری اور غلامی کی لعنت سے خلاصی کی اسپڑٹ بیدار کی جاتی  تھی ـ ......... اب بھی دونوں جلوس نکلتے ہیں ـ
    احقر کا خیال یہ ہے کہ  ہندوستان کے موجودہ حالات میں ایک صدی پرانی اس روایت کو بالکل ترک کردینا بھی مناسب نہیں ہے، ........ دور جدید میں اس طرح کے عوامی اجتماعات بھی ملک میں مسلمانوں کی شوکت کے اظہار کا سبب بنتے ہیں اور غیروں پر اس کا رعب بھی پڑتا ہے ـ مسلم پرسنل لاء، بابری مسجد وغیرہ کے سلسلے میں ایسے جلسے جلوس بہت سے کئے بھی گئے ہیں ـ
   ہاں !  اس سلسلے میں احقر کا کہنا یہ بھی ہے کہ اب چونکہ یہ جلوس خالص عوامی ہاتھوں میں ہوگیا ہے نیز بہت سی غیر مناسب چیزیں بھی اس میں شامل ہوگئی ہیں اس لئے وہ علماء کرام جو ملک میں دینی مقتدا کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی شرکت مناسب نہیں معلوم ہوتی، انھیں اجتناب کرنا چاہئیے ـ
  
    لکھنو سے جو جلوس نکلتا ہے اس کا پس منظر دوسرا ہے، دراصل لکھنو میں اہل تشیع کا عاشورے کے موقع پر جلوس نکلتا تھا، اس جلوس میں دیگر خرافات کے ساتھ صحابہ پر تبرا کی بھی روایت تھی، اس جلوس کو ہمیشہ حکومت کی سرپرستی حاصل رہی ہے ـ (انگریز اور آزاد ہندوستان دونوں حکومتیں ) امام اہل سنت حضرت مولانا عبدالشکور صاحب کی قیادت میں اہل سنت عوام نے اس کے خلاف سخت جدوجہد کی، حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس دل آزار جلوس پر پابندی لگائی جائے، مگر حکومت نے اس پر پابندی نہیں لگائی تو امام اہل سنت نے محرم کے موقع پر ہی جلسہ شہدائے اسلام اور جلوس مدح صحابہ کا سلسلہ شروع کیا، اہل تشیع اس پر بہت برہم ہوگئے، سرکار دربار تک معاملہ پہونچا، مگر اہل سنت مدح صحابہ پر ڈٹے رہے، کئی فسادات بھی ہوئے، بالاخر حکومت نے دونوں جلوسوں پر پابندی لگادی، بہت عرصے تک دونوں جلوسوں پر پابندی رہی پھر اہل تشیع نے حکومت سے سانٹھ گانٹھ کرکے اپنا جلوس جاری کروالیا جس کے نتیجے میں ایک بار پھر وہاں فساد ہوگیا اور اس جلوس پر دوبارہ پابندی لگ گئی، کچھ عرصے بعد شیعوں کی پہل پر حکومت کو درمیان میں ڈال کر سمجھوتے کا راستہ نکالا گیا اور  کچھ شرطوں کے ساتھ دونوں جلوس جاری ہوگئے اور اب بھی جاری ہیں ـ........... اس تفصیل کوسامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہئیے کہ جب فریق ثانی کا جلوس پوری آب وتاب کےساتھ نکل رہا ہو تو ایسے میں کیا اہل سنن کو اپنا جلوس بند کرکے اُنھیں مکلمل آزادی دیدینی چاہئیے ؟
                بشکریہ۔مولانا اکرم قاسمی۔