طنزومزاح کےشہنشاہ
اکبر الہ آبادی
_____کا ________
یوم ولادت16 نومبر
فیچر صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
نام:سید اکبر حسین رضوی
اکبر تخلص ۔۱۶؍نومبر۱۸۴۶ء کو قصبہ بارہ، ضلع الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدارس اور سرکاری اسکولوں میں پائی۔ ۱۸۶۶ء میں مختاری کا امتحان پاس کرکے نائب تحصیل دار مقرر ہوئے۔ ۱۸۷۲ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا۔ ۱۸۸۰ء تک وکالت کی، پھر منصب کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ترقی کرکے سب آرڈینیٹ جج اور بعد میں جج مقرر ہوئے۔’’خان بہادر‘‘ کا خطاب گورنمنٹ سے ملا۔ شعروشاعری کا شوق بچپن سے تھا۔
وحیدا لہ آبادی کے شاگرد تھے۔ مزاحیہ اور سنجیدہ دونوں طرح کی شاعری کی۔ طنزومزاح کے اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ ۹؍ستمبر۱۹۲۱ء کو الہ آباد میں انتقال کرگئے۔ اکبر الہ آبادی کو ’’لسان العصر‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ’’کلیات اکبر‘‘ چار حصوں میں چھپ گئی ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:218
آج موصوف کے یوم ولادت پر ان کے کچھ منتخب طنز ومزاح و تغزل سے بھرپور اشعار احباب کی خدمت میں.
تشبیہ ترےچہرےکوکیادوں گل ترسے
ہوتاہےشگفتہ مگراتنانہیں ہوتا
اثریہ تیرےانفاس مسیحائی کا ہےاکبرؔ
الہ آبادسے لنگڑاچلالاہورتک پہنچا
بتاؤں آپ کومرنےکےبعدکیاہوگا
پلاؤکھائیں گےاحباب فاتحہ ہوگا
انہیں بھی جوش الفت ہوتو لطف اٹھےمحبت کا
ہمیں دن رات اگر تڑپےتوپھر اس میں مزا کیاہے
دختررز نےاٹھارکھی ہےآفت سر پر
خیریت گزری کہ انگورکےبیٹانہ ہوا
اس قدرتھاکھٹملوں کاچارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سےمرےارمان رخصت ہو گیا
تعلق عاشق و معشوق کاتو لطف رکھتاتھا
مزےاب وہ کہاں باقی رہےبیوی میاں ہوکر
اس گلستاں میں بہت کلیاں مجھےتڑپاگئیں
کیوں لگی تھیں شاخ میں کیوں بے کھلےمرجھا گئیں
جوکہا میں نےکہ پیارآتا ہے,مجھ کوتم پر
ہنس کےکہنے لگا اورآپ کوآتا کیا ہے
رہ و رسم محبت ان حسینوں سے میں کیا رکھوں
جہاں تک دیکھتا ہوں نفع ان کا ہےضرراپنا
*بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضموں لکھا*
*ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا*
وصل ہو یا فراق ہو اکبرؔ
جاگنا رات بھر مصیبت ہے
*پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا*
*لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے*
*حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا*
*حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا*
اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے
*طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی*
*دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی*
میں بھی گریجویٹ ہوں تم بھی گریجویٹ
علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آ کے لیٹ
*کچھ الہ آباد میں ساماں نہیں بہبود کے*
*یاں دھرا کیا ہے بجز اکبر کے اور امردو کے*
جس طرف اٹھ گئی ہیں آہیں ہیں
چشم بد دور کیا نگاہیں ہیں
*تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے*
*بلا کے پیچ میں آیا ہوا ہے*
لپٹ بھی جا نہ رک اکبرؔ غضب کی بیوٹی ہے
نہیں نہیں پہ نہ جا یہ حیا کی ڈیوٹی ہے
ضروری چیز ہےاک تجربہ بھی زندگانی میں
تجھےیہ ڈگریاں بوڑھوںکاہم سن کرنہیں سکتیں
جو وقت ختنہ میں چیخاتو نائی نےکہاہنس کر
مسلمانی میں طاقت خون کے بہنےسےآتی ہے
الٰہی کیسی کیسی صورتیں تو نےبنائی ہیں
کہ ہر صورت کلیجے سےلگا لینے کے قابل ہے
۔____________________
بشکریہ: سراج ہاشمی