Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, November 14, 2018

بربادیُ امت کے مجرم عوام بھی اور خواص بھی۔


میم ضاد فضلی کی قلم سے (صدائے وقت)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
بات 27 مارچ 2018 کی ہے،مغربی بنگال کے رانی گنج میںبرپا ہونے والے ہندو مسلم فسادات نے دھیرے دھیرے سموچی ریاست کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیاتھا۔ریاست میں نفرت کے پجاری اس قدر پاگل ہوچکے تھے کہ ان کی شرارتوں اور مذہبی دہشت گردی سے ملک کے اولین وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم بھی محفوظ نہیں رہ سکے تھے ۔ اسی فرقہ ورانہ فسادات کے دوران مغربی بنگال کے شمالی24 پرگنہ کے کانکی نارا علاقہ میں بھی تشددکی واردات انجام دی گئی ، مذہب کے نام پر نہتے اور کمزوروانسانوںکا لہوبہانے کو عین ثواب سمجھنے والے بلوائیوں نے جہاں اقلیتوں کی جانوں اور املاک کو شدید نقصان پہنچایا ،وہیں ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے مجسمہ کی بے حرمتی کی اوراسے توڑ پھوڑدیا ۔اس شرمناک دہشت گردی کو دیکھ کر محسوس ہورہاتھا کہ کوئی اور نہیں تو کم از کم کانگریس پارٹی ضرور اس کا نوٹس لے گی اور وہ اپنے سابق صدر اور محبوب رہنما کے مجسمےکی بے حرمتی پر برہمی کا ظہارکرتے ہوئے متاثرین کو انصاف دلانے کیلئے میدان میں اترے گی ،صدائے احتجاج بلند کرے گی اور ریاستی ومرکزی سرکار سے وضاحت طلب کرے گی۔مگر ہوا یہ کہ اس واقعہ کے بعد کانگریس پارٹی کو سانپ سونگھ گیا ،اور اس کے نام نہاد مسلم لیڈروں کی زبان بھی مفلوج ہوگئی اور ان کا خون سفیدپڑگیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسے حالات کیسے پیدا ہوگئے کہ مسلم لیڈروں کی جرأتِ مردانہ جواب دے گئی اور ان کے اندر کا بھلا مانس زندہ درگور ہوگیا۔سوال مسلم عوام پر بھی اٹھتے ہیں کہ انہوں نے اتنی بڑی شرانگیزی کیخلاف بے چینی اظہار کیوں نہیں کیا؟ اور اپنے احتجاج اور مظاہروں سے ممتا بنرجی کے ایوانوں کی چولیں ہلادینے کی ہمت کیوں نہیں کی؟ سوال کانگریس پارٹی سے بھی ہونا چاہئے کہ اس نے اپنے ایک سینئر رہنما کی اہانت کو اتنی آسانی سے ہضم کیسے کرلیا؟ کس خوف یالالچ نے مغربی بنگال پردیش کانگریس کمیٹی اوراے آئی سی سی کو مجرمانہ خموشی اختیار کرنے پرمجبور کردیا؟ ان تمام سوالات کے جواب موجود ہیں۔ مگر ان میں پوشیدہ سچائیاں اس قدر تلخ ہیں کہ شاید ہمارے مسلم عوام کو برداشت بھی نہ ہو اور وہ جنونی کیفیت میں مبتلا ہوکر تبصرہ نگار کو ہی لعنت و ملامت اور صلواتیں سنانے میں ساری توانا ئی صرف کردیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ جادۂ حق کی کوہ پیمائی  میں اتنی ٹھوکریں پہلے ہی لگ چکی ہیں کہ اب کوئی بھی چوٹ ،درد ،زخم یا گالیاں ہمارے لئےسد راہ بننے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔ایسا بھی نہیں ہے کہ حقائق پر مبنی ان تلخیوں کوحوالۂ قرطاس کرنے کی قیمت نہیں چکانی پڑتی۔ درجنوں بار اسی لکھنے کی وجہ سے مشکلات سے ہم آغوش ہونا پڑا ہے ،اسی مستی صدق نوائی کی وجہ سے بسااوقات  لگی لگائی روزی روٹی سے بھی ہاتھ  ہونا پڑاہے۔ تازہ مثال 2016 کے اواخر کی ہے،جب اپنی ایک تحریر میں مولا نا ارشد مدنی صاحب کی تنقید کرنے کے نتیجے میں مجھےنوکری سے نکال دیا گیا، ممکن ہے ادارہ کے مالک نے یہ فیصلہ مولانا کے حکم کی تعمیل میں لیا ہو، جس کا مجھے یقین بھی ہے، مگر میرے پاس شواہد نہیں ہیں ،اس لئے اس پر کچھ بولنا غیر مناسب ہے۔
بہرحال انجام کچھ بھی ہو جب بات چل نکلی ہے تو حقائق سامنے لائے جائیں گے اور ان خامیوں کو دور کرنا ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہونی چاہئےجس نے ہمیں پستی کی اتھاہ کھائی میں اٹھا پھینکاہے۔ایسا نہیں ہے کہ ہندومسلم فسادات اس سے پہلے نہیں ہوئے اور ریاست مغربی بنگال مسلمانوں کی لہو ارزا نی سے محفوظ رہی ہے۔ ہم میں ابھی بھی کچھ بوڑھی آنکھیں موجود ہوں گی ،جنہوں نے براہ راست 1963کے مغربی بنگال فرقہ وارانہ فسادات کی ستم آرائیوں کو برداشت کیا ہوگا اور ان فسادت کے ذریعہ بخشے گئے زخموں کی ٹیسیں آج بھی انہیں تڑپا اور کراہ رہی ہوں گی۔مگر ان فسادات کے دوران بھی ہمیں ایسی خبریں پڑھنے کواور واقعات دیکھنے کو نہیں ملے جب ہندو شدت پسندوں نے کسی بڑے ملی رہنما کی اس قدر توہین کی ہو۔ البتہ تاریخ کے سینے میں ایسے زخم ضرور محفوظ ہیں جس کا ارتکاب ہم نے کیا تھا ،یعنی اپنے نمائندوں اور رہنماؤں کی تنقیص و تذلیل کے مجرم ہندوؤں سے زیادہ ہم مسلمان خود ہیں۔غور کیجئے !بھلااس دردناک اور شرمناک واردات کو زمانے کی آ نکھوں نے کیسے برداشت کیا ہوگا ،جب  1942 میں اہلیہ مولانا آزادؒزلیخا بیگم کا جنازہ زکریا اسٹریٹ کے بازار سے گزر رہا ہے اور کچھ ازلی بد بخت اس پاکیزہ مائی کے جنازے پر سنگ باری کررہے ہیں۔اس عفیفہ ہند کی پاکدامنی کی انتہا یہ ہے کہ بے پردہ تو دور کبھی کسی نے پردے میں بھی اس مائی کو نہیں دیکھا ہوگا۔ظالموں نے عفیفہ ٔ ہند کی لاش پر پتھر برسائے اور ڈنڈے مارے اوریہ سب صرف اس لئے ہوا کہ زلیخا بیگم قائد جنگ آزادی مولانا آزاد کی حرم تھیں ۔حالاں کہ مولا نااس وقت خود انگریزی جبرو استبداد کا نشانہ ہوکر قلعۂ احمد نگر میں قید و بند کی زندگی گزار رہے تھے۔دوسری جانب اسی نیک طینت اور علم کے بحر ناپیدا کنار کی رفیقہ ٔ حیات  کی لاش بے سروسامانی کے عالم میں اپنوںہی کے ذریعہ رسواکی جارہی ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک پاکباز خاتون کی لاش کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک کرنے والےرذیل و خسیس اور نصیب کے کوڑھی کوئی اور نہیں خود کو سب سے بڑا مسلمان اور ملت اسلامیہ کا سچا ہمدر متصور کرانے والا مسلمانوں کا لیگی خیمہ تھا،کیا جماعتی اختلافات اورفکری تصادم کسی کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ اپنی بھڑاس نکالنے اور گروہی عصبیت کی آگ سرد کرنے کیلئے کسی خاتون کی لاش پر پتھر برسائیں۔ مگر ہم مسلمان ہیں ،ہمارے لئے ہر حرام کو جائز ٹھہرانے کیلئے تاویلوں اور بہانوں کا سمندر موجود ہے ۔  اپنوں کی ستم آرائیوں کا شکار مولانا آزاد ؒ اور آپ کی پاک طینت اہلیہ ہی نہیں ہوئیں ، بلکہ امام حریت مولانا حسین احمد مدنیؒ کی داڑھی پکڑ کر کھینچی گئی ،آپ کوٹرین سے اتار کر بے عزت کیا گیا ۔شیخ الاسلام حضرت ِمدنی رحمہ اللہ پنجاب کے ایک ریلوے اسٹیشن پر اترے، وہاں کچھ لوگ ایسے جمع هوگئے تھے جو حضرتِ مدنی کے  سیاسی مخالف تھے،انہوں نے حضرتِ مدنیؒ پر پتھر برسائے، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہ اللہ بھی ساتھ تھے، انہوں نے شیخ الاسلامؒ کو اپنی آڑ میں لے لیا  اورسارےپتھر اپنے جسم پر لے لئے، اس سنگباری کے سلسلہ کا ایک واقعہ شاه عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ اکثر بیان فرمایا کرتے تھے۔ اکابر علماء ،مجاہدین آزادی اورقائدین جنگ آزادی کی تحریک کو ’’غدر‘‘ یا غداری یعنی  بغاوت کہنے والے کوئی اور نہیں اسی ملت کے صاحبان جبہ ودستار تھے۔کیا آپ جانتے ہیں مسلمانوں میں غداری کے سرٹیفکیٹ سب سے پہلے کس نے بانٹے ؟ سرسید احمد خان نے بانٹے۔ یہ کوئی اخباری خبر یا بیان نہیں کہ’’سیاق و سباق‘‘ سے ہٹ کر پیش کرنے کا الزام لگا دیا جائے۔ بلکہ سرسید کی اپنی کتب ان خرافات سے بھری پڑی ہیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی کو’’غدر‘‘ سرسید نے ہی کہا تھا اور انہوں نےفخریہلکھاہے کہ بجنور میں اس معاملے میں میں نے اپنے آقاؤں کی بھرپور مدد کی جسے میرے آقاؤں نے سراہتے ہوئے میرے وظیفے میں اضافہ فرمایا۔ کبھی آپ نے سرسید کی تصاویر میں ان کے سینے سےلگے تمغے دیکھے ہیں ؟ ذرا تحقیق کر لیجئے کہ یہ تمغے کن خدمات کا صلہ تھے۔  یہ سارے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ آج تک  ہندوستان میں کوئی بھی مسلم قیادت سامنے نہیں آسکی۔یعنی قیادتوں سے بدظن کرنے والی طاغوتی قوتیں ملت اسلامیہ میں زمانۂ دراز سے ہی سرگرم عمل ہیں اور اس نے امت کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے۔
یا یہ کہہ لیجئے کہ ہم اپنی کوتاہ عقلی کی وجہ سے کسی کو بھی قائد تسلیم نہیں کرسکے ۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے سامنے ابھی تک وہ قیادت ہی نہیں آسکی ہے جو سب کیلئے قابل قبول ہو۔یہاں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہعلم سیاسیات  (Political Science)کی اصطلاح میں قیادت یا لیڈر شپ کی تعریف یہ ہے کہ قائد کے اندر اپنے ووٹروں کو متاثر کرنے کی پوری قوت وصلاحیت موجود ہو۔مثال میں یہاں مایا وتی کو رکھا جاسکتا ہے ، اس خاتون میں ہزاروں خامیوں کے باوجوداپنی  برادری میں اس کومکمل اعتماد حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مایا وتی اپنی برادری کیلئے آسمان سے اتاری گئی کوئی دیوی ہے، بلکہ اس کے سماج کے لوگوں نے تمام تر کمیوں اور خامیوں کے باوجود اسے اپنا لیڈر تسلیم کیاہے۔ اے کاش ہم مسلمان بھی اپنی عقل سلیم استعمال کرتے ہوئے کبھی یہ سوچتے کہ ساری کمیوں کے باوصف قائدانہ صلاحیت جس مسلم لیڈر میں موجود ہو اس کی تائید کی جائے۔ کمیوں سے خالی تو کوئی بشر ہے ہی نہیں ، اب وقت کامطالبہ تو اپنی لیڈر شپ کو کمیوں کے ساتھ قبول کرنے کا ہے۔کتب تاریخ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کا ایک فراست انگیز واقعہ موجود ہے۔ ایک شخص آپ سے استفسار کرتا ہے کہ اے علیؓ آپ کے زمانے میں بڑے فتنے جنم لے رہے ہیں ،حالاں کہ آپ سے قبل خلفائے راشدین کے دور میں اس قدر فتنے نہیں ہوا کرتے تھے ۔حضرت علیؓکا تاریخی جواب ملاحظہ فرمائیے۔آپ نے فرمایا کہ ان فتنوں کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے خلفائے راشدین کو مشورے دینے والے ہم جیسے لوگ تھے، جبکہ مجھے مشور ے دینے والے تم جیسے لوگ ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ خود ہمارے اندر بے انتہا غلاظتیں بھری پڑی ہیں ،ہمارا کھانا مشکوک ، ہمارا اوڑھنا بچھونا مشکوک، ہماری کمائی اور معیشت مشکوک ، ہمارے اعمال ناقابل قبول اور خواب یہ ہے کہ ہماری امامت براہ راست امام الانبیاء آکر فرمائیں ،یا کم ازکم ہمارا امام سیدنا صدیق اکبر تو ہوناہی چاہئے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم عبداللہ ابن عمر، ابوہریرہ،عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہم جیسے مقتدی نہ ہوں ، بلکہ ان کی خاک پا بھی نہ ہوں پھربھی ہما را امام صدیق اکبر ہی ہو۔