Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 15, 2018

محمود مدنی نے اویسی کے تعلق سے کہے گئے متنازعہ الفاظ پرمعافی مانگی۔


ممبئی۔ ۱۵؍نومبر: (صداۓوقت) ۔
. . . . . . . .  . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی تھی، یہ ویڈیو ORF آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کی مذاکراتی میز سے تھی، اس مذاکرات میں مولانا محمودمدنی خصوصی مدعو تھے۔ اس حوالے سے جمعیۃ علماءہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کے ایک جملے پر بحث کا بازار گرم تھا۔ اس ویڈیو میں مولانا محمود مدنی  نے ایم آئی ایم  کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی تعلق سے کہاتھاکہ انہیں حیدرآباد، تلنگانہ اور آندھراپردیش میں رہناچاہئے،  ملکی سطح پر پیر پسارنا ان کے لیے اور قوم کے حق میں نقصان دہ ہوگا اور ہم اسے کامیاب نہیں ہونے دینگے، اُن کے اس جملے پر سوشل میڈیا پر گرماگرم بحث جاری تھی ۔ سرجیکل اسٹرائیک میں اس کا خلاصہ کرتے ہوئے مولانا محمود مدنی نے کہا کہ وہ اویسی کے ذاتی طورپر مخالف نہیں ہیں، انہوں نے بتایاکہ اویسی سے ہمارے برادرانہ مراسم ہے، البته کچھ آراء میں ہمارا ان سے اختلاف ہے، وہ بہترین پارلیمنٹرین ہیں، بہترین جواب دینے والے ہیں، اس کا ہمیں اعتراف ہے، لیکن مسلم یا مسلمانوں کے نام پر کوئی سیاست کرے تو اس سے متفق نہیں، وہ ایسی جگہوں سے انتخابات لڑیں جہاں سے جیتنے کی امید بھی نہ ہو ہم اس سے بھی اتفاق نہیں رکھتے، مولانا مدنی نے کہاکہ، گذشتہ دنوں اس بات کو ادا کرنے کے درمیان ان سے غلطی ہوئی ہے اور انہوں نے جو جملہ استعمال کیا وہ غلط تھا کہ ہم انہیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے، مجھے اس جملے کو نہیں کہنا چاہیے تھا، میں اس کے لیے معذرت کرتاہوں، چنانچہ مولانا مدنی کو قومی مفاد اسی میں نظر آتاہے کہ ضلعی اور علاقائی پارٹیاں اپنے آپ کو وہیں مضبوط کرتے رہيں اور اپنی پکڑ ان ریاستوں میں کمزور نا ہونے دیں، اس بات کو مزید واضح کرتے ہوئے مولانا محمود مدنی نے کہاکہ یہی مشورہ انہوں نے مولانا بدرالدین اجمل صاحب کو بھی دیاہے ہم نے ان  سے ہاتھ جوڑ کر کہاہے کہ وہ کسی ایسی جگہ سے الیکشن نا لڑیں جہاں اچھی طرح پتہ ہو کہ جیت نہیں سکیں گے۔گویا جہاں مسلم پارٹیاں مضبوط پوزیشن میں ہیں وہاں سے الیکشن لڑنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔اسی طرح سرجیکل اسٹرائک کے اینکر ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی نے مولانا مدنی کے ایک اور جملے " اصلی ہندوتوا اگر آتاہے تو بہرحال اسلامی اسٹیٹ سے بھی بہتر ہوگا " پر  اعتراض کیا، جس کے جواب میں مولانا مدنی نے کہاکہ ہوسکتا ہے میں یہ بات کہہ گیا ہوں لیکنؤ اگر کہا ہے تو یہ غلط ہے میں کسی بھی ہندوتوا ریاست کو حقیقی اسلامی ریاست پر فوقیت نہیں دے سکتا، اگر میں نے ایسا کہا ہے تو اس سے رجوع کرتاہوں اور جہاں کہا ہے اس پروگرام کے آرگنائزر سے بھی کہوں گاکہ وہ اسے ریکارڈ سے نکال دیں۔اسی طرح Nation First والی اصطلاح پر جواب دیتے ہوئے مولانا نے کہاکہ، میں جہاں کہیں نیشن فرسٹ کی بات کرتاہوں وہاں موازنہ ممالک سے ہوتاہے ناکہ مذہب سے، جیسے کہ ہندوستانی چینلز پر جب یہ پوچھا جاتاہے کہ ہندوستان یا پاکستان تو میں کہتاہوں میرا ملک، نیشن فرسٹ، اسے کسی اور تناظر میں نا دیکھا جائے ۔ایسے کئی ایک اعتراضات اور سوالات پر مولانا محمود مدنی نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا، تلخیوں سے معذرت بھی کی، جسے اہل علم و نظر پسند کررہےہیں، سرجیکل اسٹرائک کے اس شو کے ذریعے ملی قائدین میں سے کسی کا پہلی مرتبہ ایسا شائستہ، ستھرا اور واضح موقف سامنے آیاہے، اس بہترین بدلاؤ پر مثبت تبصرے دیکھنے کو مل رہےہیں۔واضح ہوکہ شوکےمیزبان مفتی یاسر ندیم الواجدی ہیں، یہ شو ہر اتوارکو فیسبک پر لائیو نشر ہوتاہے۔اینکر نے مولانامحمودمدنی کا شکریہ اداکرتے ہوئے اپنے ناظرین کو یہ پیغام دیاکہ نظریات کا اختلاف ہونا صحت مند معاشرہ کی علامت ہے۔اور یہ کوئی بیماری نہیں ہےکہ جس سے ایک دوسرے کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے جائیں۔ پروگرام کے میزبان نے یہ بھی کہا کہ مولانا محمودمدنی کی ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ قطعاً نامناسب اور غیر اسلامی ہے۔