۔۔۔حضرت مولانا علی میاں رح اور تصوف و سلوک۔۔
تحریر / عبد المالک بلند شہری۔(صدائے وقت)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
بیسویں صدی کے غیر منقسم ہندوستان میں جو شخصیتیں اپنے علمی کمالات اور دینی خدمات کی بناء پر شہرت و بلندی کے بام عروج تک پہونچی ان میں ایک اہم شخصیت مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رح(1914.1999) کے نام سے عرب و عجم میں متعارف ہوئی جو اپنے زمانہ کے ممتاز اسلامی قائد ، صاحب اسلوب ادیب ، دور اندیش و بیدار مغز عالم دین ، متعدد ملی اداروں و دینی مدارس کے سرپرست ، تحریک پیام انسانیت کے روح رواں ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے عالی وقار صدر اور ستودہ صفات و گوناگوں خصوصیات و کمالات کے حامل عبقری شخص تھے ۔۔۔مبدأ فیاض نے ان کی ذات میں متعدد عمدہ صفات ودیعت فرمائی تھیں ۔۔اپنے ورع و تقوی ، استغناء و خودداری، تحمل و بردباری، اخلاص و للہیت، بلند ہمتی و اولوالعزمی، اسلامی غیرت و دینی حمیت ، تواضع و انکساری، عاجزی و فروتنی جیسی پاکیزہ صفات میں اپنے ہمعصروں سے ممتاز و نمایاں تھے ۔۔ان تمام صفات کے علاوہ آپ کی خصوصی صفت صفت احسان سے اتصاف، اخلاقی بلندی، تزکیہ نفس اور صفائے باطن تھا ۔۔آپ صالح و نیک نہاد ہونے کے ساتھ ساتھ مصلح کامل اور مرشد طریقت بھی تھے ۔۔نا صرف مروجہ سلسلہ ہائے تصوف سے منسلک تھے بلکہ اس کے مایہ ناز شیخ اور بافیض مرشد بھی تھے ۔۔اس سلسلہ میں آپ نے اپنے زمانہ کے متعدد مشائخ طریقت سے فیض پایا تھا ۔۔چونکہ آپ کا خانوادہ شروع سے شریعت و طریقت کا جامع رہا ہے اسی لئے عنفوان شباب ہی سے آپ کی توجہ تزکیہ نفس کی طرف مبذول رہی ۔۔آپ کے شہید بالا کوٹ حضرت سید احمد شہید رح (1786.1831)سے خاندانی مراسم تھے جو اپنے زمانہ کے کامل شیخ و مصلح اور شاہ عبدالعزیز دھلوی رح کے ممتاز خلیفہ تھے ۔۔اسی طرح مولانا علی میاں کے دادا مولانا فخر الدین خیالی اردو ، فارسی کے بڑے عالم ہونے کے علاوہ روحانی بزرگ بھی تھے ۔ اسی طرح مولانا علی میاں کے والد ماجد اور عظیم مؤرخ و بلند پایہ عالم مولانا عبدالحئی حسنی رح تصوف و سلوک میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رح و شاہ ضیاء النبی رح کے مجاز تھے ۔۔ان کے علاوہ خود مولانا علی میاں رح کے بڑے بھائی طبیب حاذق ، ولی مرتاض ڈاکٹر عبدالعلی حسنی رح ایک عصری تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بڑے درجہ کے متبع سنت اور صاحب ورع بزرگ تھے ۔ان کی زندگی میں سنتوں کا بڑا اہتمام تھا ۔۔بیعت و ارشاد کا تعلق شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رح سے تھا البتہ اجازت و خلافت اپنے والد ماجد مولانا عبدالحئی حسنی رح سے حاصل تھی ۔مولانا علی میاں رح نے بھی اپنے پیش روؤں کے طریقہ پر چلتے ہوئے اصلاح باطن اور تزکیہ نفس کے لئے اولا مولانا شاہ غلام محمد دینپوری رح سے بیعت کا تعلق قائم کیا جو اپنے زمانہ کے بڑے ذاکر و شاغل اور صاحب جمال بزرگ تھے۔۔ان کے انتقال کے بعد آپ نے تکمیل سلوک کے لئے اپنے استاذ اور فن تفسیر کے ماہر عالم ، حضرت مولانا احمد علی لاہوری رح سے رجوع کیا اور ان کی زیر سرپرستی منازل سلوک کی تکمیل کی ۔حضرت لاہوری رح کو آپ پر حد درجہ اعتماد تھا ۔وہ آپ کی شرافت طبعی، اخلاقی بلندی اور نیک نہادی سے کافی متاثر تھے۔۔آپ پر خصوصی توجہ رکھتے بلکہ بعض وجوہ کی بناء پر آپ کی ترقی و رفعت سے اپنی اولاد کی ترقی سے زیادہ خوش ہوتے اور اعتماد ظاہر کرتے اسی اعتماد کے سلسلہ میں آپ کو اپنی جانب سے اجازت بیعت و خلافت سے نوازا تھا ادھر جب ملک آزاد ہوا اور راستوں کی مخدوشی کی وجہ سے مرید صادق کے لئے بالمشافہ استفادہ میں رکاوٹ ہونے لگی تو آپ نے اپنی مرشد ہی کی ایماء سے رائےپور کے عالی نسبت بزرگ حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائےپوری رح جو اس زمانہ میں مرجع خلائق بنے ہوئے تھے اور خانقاہ رحیمیہ رائےپور میں مقیم ہو کر طالبین و سالکین کی روحانی و اخلاقی تربیت فرما رہے تھے اصلاحی و روحانی تعلق قائم کیا اور اپنے اخلاص و للہیت کی بناء پر بہت جلد ان کا بھی اعتماد حاصل کیا ۔۔حضرت رائےپوری رح کو بھی آپ سے بڑا تعلق خاطر تھا ان کی دور بین نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ عنقریب اس آفتاب کی ضیاء پاشی سے سارا عالم اسلام منور ہونے والا ہے ۔غرض حضرت رح نے بھی آپ کی استعداد روحانی اور کمال صلاح کو دیکھتے ہوئے بخوشی اپنے تمام سلاسل میں خلافت سے نواز کر آپ کو بیعت کی اجازت مرحمت فرمائی ۔۔ان اجازتوں کے باوصف حضرت ندوی رح کبھی اپنی اصلاح اور بزرگان دین سے استفادہ کے معاملہ میں غفلت کا شکار نہیں ہوئے اور تادم حیات مشائخ کرام سے گہرا علمی و روحانی ربط رکھا۔۔حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رح سے بھی آپ کو نیاز حاصل ہوا، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رح سے تو آپ کا شاگردی کا تعلق تھا۔۔بھوپال کے مشہور بزرگ حضرت شاہ یعقوب مجددی رح کی مجالس میں بھی آپ بارہا شریک ہوئے بلکہ نفع عام کے خاطر ان کے ملفوظات کو صحبت با اہل دل کے نام سے کتابی شکل میں بڑے اہتمام سے شائع بھی کیا ۔۔ان کے علاوہ مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہ رح کا بھی آپ نے اعتماد حاصل کیا اور شاہ صاحب آپ کی بے نفسی اور قلبی صفائی سے بڑے متاثر ہوئے اور اپنی محفلوں میں بھی علی میاں رح کے تعلق سے بلند کلمات ارشاد فرمائے ۔۔بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس کاندھلوی رح کے تو گویا آپ معتمد خاص اور رفیق کار تھے دعوت و تبلیغ کے سلسلہ میں ان کے شانہ بشانہ کافی محنتیں کیں اور مولانا الیاس رح کی تحریک و مقصد کو اپنا نصب العین بنا لیا اس سلسلہ میں مولانا الیاس اور ان کی دینی دعوت نامی بڑی اہم کتاب لکھی جو مولانا الیاس رح کے مزاج و طریقہ کار کو سمجھنے کا بڑا اہم ذریعہ ہے۔ ان کے علاوہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی رح سے بھی آپ کے دیرینہ تعلقات رہے اور ان سے خاطر خواہ استفادہ کیا ۔۔آخری دور میں یہ تعلق بڑا مضبوط ہوگیا تھا ۔۔۔مولانا علی میاں جب حضرت شیخ کے ہاں جاتے تو وہ آپ کے آنے سے بہت خوش ہوتے اور بڑا اکرام فرماتے۔۔حضرت ندوی رح نے شیخ کے انتقال کے بعد ان کی سوانح حیات بھی لکھی ۔۔ شام کے بڑے بزرگ شیخ حارون احمد العسل رح بھی حضرت ندوی رح سے بڑے متاثر اور ان کی صلاحیتوں کے حد درجہ قدرداں و معترف تھے ۔۔آخری دور میں مولانا شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادی رح کے سلسلہ کے خلیفہ مولانا احمد پرتابگڑھی رح سے بھی حضرت ندوی رح کا بڑا تعلق قائم ہوگیا تھا حضرت ندوی رح نے ان سے بڑا فیض اٹھایا بارہا ان کے دولت کدہ پر تشریف لے گئے اور ان کی مجالس سے مستفید ہوئے۔حضرت پرتابگڑھی رح کی بھی بکثرت ندوہ العلماء لکھنو تشریف آوری ہوتی تھی جب بھی آتے مولانا علی میاں سے ضرور ملاقات کرتے ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ مولانا علی میاں مذکورہ تمام مشائخ کے فیوض و انوارات کے جامع بن گئے تھے آپ نے بھی اکابرین سے ملی ہوئی دولت کو باصلاحات اور بلند استعداد لوگوں تک پہنچایا ۔۔رمضان کے مبارک مہینہ میں آپ تکیہ رائے بریلی میں اپنے مریدین و متعلقین کے ساتھ اعتکاف فرماتے اور تشنہ کامان معرفت کو شراب طہور سے شادکام فرما کر ان کی روحانی تربیت فرماتے اور تزکیہ نفس و اصلاح باطن کا مہتم بالشأن فریضہ انجام دیتے ۔اس درمیان آپ سے ہزارہا ہزار لوگوں نے فیض پایا ۔۔آپ سلاسل اربعہ نقشبندیہ ، قادریہ، چشتیہ اور سہروردیہ میں بیعت لیا کرتے تھے۔آپ اس سلسلہ میں بڑے محتاط واقع ہوئے ۔طالب کے بڑے اصرار ہی کے بعد بیعت لیا کرتے تھے یہی وجہ ہے ہزارہا ہزار مریدین مریدین و منتسبین کی تربیت فرمانے کے باوصف چند ہی لوگوں کو اجازت و خلافت سے نوازا تھا ۔۔۔محض 39 باکمال ہی آپ کی جانب سے یہ شرف حاصل کر پائے جن میں مرحومین میں مولانا عبدالرشید نعمانی رح، مولانا مفتی عبدالعزیز رائےپوری رح،مولانا عبدالکریم پاریکھ رح، مولانا قاری قاسم بھوپالی رح، مولانا زبیر الحسن کاندھلوی رح ، مولانا سید عبداللہ حسنی ندوی رح مولانا مفتی عبدالقیوم رائےپوری رح وغیرہ ہیں جب کہ موجود خلفاء میں مولانا عبداللہ مغیثی مدظلہ مہتمم جامعہ حسینیہ اجراڑہ میرٹھ (پ1936)، داعی اسلام مولانا کلیم صدیقی مدظلہ (1957)، مولانا ظریف احمد قاسمی ندوی قطر مدظلہ، مولانا سعد کاندھلوی مدظلہ ، مولانا احمد لاٹ ندوی مدظلہ(1954)، مولانا سلیمان ساوتھ افریقہ، مولانا ولی آدم مدظلہ ، مولانا یونس پالنپوری مدظلہ(1954) ، مولانا الیاس مفتاحی مدظلہ(1964 ) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔۔۔حضرت مولانا علی میاں رح صرف اسی طریقت کے قائل تھے جو شریعت کے دائرہ میں ہو۔۔آپ کے نزدیک تصوف وصول الی اللہ کا ایک مجرب اور وہ اہم ذریعہ تھا جوکیفیت احسان کے حصول میں ممد و معاونت تزکیہ نفس کے لئے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اس سلسلہ میں در آئی تمام غیر شرعی رسومات و بدعات کو نکارتے تھے ۔تصوف کو بدعات و خرافات سے پاک کرانے میں آپ کا اہم کردار رہا ہے ۔۔آپ صرف شریعت کو قابل اتباع اور اتباع سنت کو باعث نجات سمجھتے تھے اس لئے تاحیات سفینہ سنت پر خود بھی سوار رہے اور اپنے مریدین و منتسبین کو بھی اسی کی تلقین کرتے رہے ۔آپ کے نزدیک ہر وہ عمل جو جادہ سنت سے ہٹا ہوا ہو قابل ترک تھا احیاء حق و ازہاق باطل کے سلسلہ میں آپ کسی قسم کی مداہنت کے روادار نہ تھے ۔۔آپ ساری زندگی عشق و محبت کی صدا لگانے اور قوم و ملت کی چارہ سازی کا فریضہ انجام دینے کے بعد 31 دسمبر 1999 کو دار آخرت کی جانب منتقل ہوگئے ۔۔انتقال کے بعد بھی آپ کا فیض جاری و ساری ہے ۔۔آپ کی تالیفات تصنیفات ، تلامذہ و مریدین آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہیں ۔رائےبریلی میں خانقاہی نظام بھی بدستور آپ کے خواہر زادہ و خلیفہ وجانشین ، ناظم ندوہ العلماء حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم (1929) کے ذریعہ جاری و ساری ہے۔۔۔رمضان المبارک میں آج بھی پہلے جیسی گہما گہمی رہتی ہیں۔واردین و صادرین کی بھی پہلے کی طرح آمد و رفت جاری ہے۔اصلاح و ارشاد کا کام اسی پیمانہ پر ہورہا ہے۔۔طالبین و سالکین پہلے کی طرح روحانی تربیت و اصلاح نفس کے لئے وہاں آتے ہیں اور حضرت مدظلہ کی صحبت و معیت میں رہ کر اپنے دل کی دنیا کو آباد کرکے اللہ کی محبت حاصل کر رہے ہین ۔اللہ پاک سے دعاء ہے کہ یہ خانقاہ یونہی آباد رہے اور اس کے ذریعہ اصلاح و ارشاد، ترویج سنت اور تزکیہ نفس کا کام علی پیمانہ پر انجام پائے۔۔آمین ۔۔۔۔
بشکریہ۔
عبدالمالک بلندشہری
دارالعلوم ندوہ العلماء لکھنو
متفرق
Monday, November 19, 2018
مولانا علی میاں ندوی، تصوف و سلوک۔
Author Details
www.sadaewaqt.com