15 نومبر، گاندھی کا قاتل گوڈسے کی پھانسی کا دن ہے ۔اسی مناسبت سے پیش ہے یہ مضمون۔
. . . . . . . . صدائے وقت۔. . . . . . . . .
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز؍گروپ ایڈیٹر بصیرت آن لائن)
مہاتما گاندھی کا قتل ایک تاریخی حقیقت ہے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ناتھو رام ونائک گوڈسے نے انتہائی قریب سے مہاتما گاندھی پر گولیاں برسائی تھیں۔ قتل کی اس انتہائی المناک واردات کے تعلق سے ایک تاریخی حقیقت قتل کی سازش میں شامل وہ افراد اور تنظیمیں ہیں جو زعفرانی، یرقانی یا بھگوا کہلاتی ہیں۔ ۳۰ جنوری ۱۹۴۸ کو گاندھی جی قتل ہوئے، آر ایس ایس پر پابندی عائد ہوئی اور گوڈسے اور نارائن آپٹے کو ۱۵ نومبر ۱۹۴۹ کے روز انبالہ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ مگر وہ دن ہے اور آج کا دن سارا سنگھ پریوار کوشاں ہے کہ کسی طرح اس کے سرپر سے گاندھی جی کے قتل کا داغ دھل جائے۔ یہ ایک سچ ہے کہ کٹر ہندو تو وادی ونائک دامودر ساورکر کا نام گاندھی جی کے قتل کے سازشیوں میں شامل تھا مگر وہ انصاف کی گرفت سے بچ نکلا۔ دنیا جانتی ہے کہ ساورکر نے اپنے ہی ساتھیوں سے، جنہوں نے گاندھی جی کے قتل میں کلیدی کردار نبھایا تھا، غداری کی تھی۔
ایک تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ آج گاندھی جی کے قتل کے ملزمان کو 'قوم پرست' ثابت کرنے کے لیے سارے سنگھ پریوار نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔ ساورکر کی تو ایک تصویر پارلیمنٹ کے اندر آویزاں کردی گئی ہے او رانہیں 'ویر' کا خطاب دے دیا گیا ہے!
'ویر' کا خطاب اس لیے کہ 'یرقانی ٹولہ' انہیں جنگ آزادی کا بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا 'مجاہد' گردانتا ہے۔ حالانکہ ساورکر اور انگریزوں کے درمیان 'ساز باز' کے سارے حقائق مع دستاویزات عام ہیں۔
سنگھ پریوار نے جس 'قوم پرستی' کا نعرہ بلند کررکھا ہے وہ گوڈسے ، آپٹے اور ساورکر ہی کی 'قوم پرستی' ہے؛ اس 'قوم پرستی' کا مطلب صرف اور صرف ہندوئوں کو ہی بھارت کا اصلی باشندہ سمجھنا ہے۔ اور ہندو بھی عام ہندو نہیں بلکہ وہ ہندو جو سنگھ پریوار اور زعفرانی ٹولے کے معیار پر کھرے اترتے ہوں۔ باالفاظ دیگر جن کے دلوں میں نفرت کی شدید آگ جل رہی ہو اور وہ اس آگ سے انہیں جلا کر راکھ کردینے کا حوصلہ رکھتے ہوں جو ان کی نظروں میں 'پرائے' ہیں۔ 'قوم پرستوں' نے اب گاندھی جی کے قتل کے الزام کو اپنے کندھوں سے جھٹکنے کے لیے ایک 'نیا ہتھکنڈہ' استعمال کیا ہے۔ یہ ہے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا۔
سپریم کورٹ میں 'ابھینو بھارت' نامی ایک ایسی تنظیم نے جس پر دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں؛ جس کا نام کئی بم دھماکوں کے ملزمین مثلاً کرنل پروہت، سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور سوامی اسیمانند وغیرہ کے سا تھ جڑا ہے، اب سپریم کورٹ پہنچی ہے۔ 'ابھینو بھارت'کے ٹرسٹی ڈاکٹر پنکج نے اپنی عرضداشت میں یہ گزارش کی ہے کہ گاندھی جی کے قتل کی از سر نو تحقیقات کروائی جائے۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ قتل کے حقائق چھپائے گئے ہیں اور سچائیوں پر پردہ ڈالا گیا ہے۔ انہوں نے یہ گزارش کی ہے کہ چھان بین کی جائے کہ آیا ناتھو رام گوڈسے سے کے علاوہ گاندھی جی کا قاتل کوئی دوسرا بھی تھا؟ او رکیا گاندھی جی کو چوتھی گولی ماری گئی تھی؟ حالانکہ عدالت عظمیٰ نے شنوائی کے دوران یہ کہا ہے کہ ''جس معاملے پر برسوں پہلے فیصلہ ہوچکا ہے اس پر قانوناً کچھ بھی نہیں کیاجاسکتا''۔ مگر عدالت نے اس معاملے میں ایک سینئر وکیل امریندر شرن کو Amicus curiaeیعنی رفیق عدالت مقرر کردیا ہے۔ وہ اس معاملے کی شنوائی کے دوران عدالت کی رہنمائی کریں گے۔
آج کے حالات میں سپریم کورٹ میںگاندھی جی کے قتل کی دوبارہ چھان بین کی درخواست کا کیا جانا اپنے آپ میں ایک تشویش ناک عمل ہے۔ تشویشناک اس لیے کہ ان دنوں یکے بعد دیگرے وہ یرقانی انتہا پسند یا تو ضمانت پر سلاخوں سے باہر آرہے ہیں یا 'کلین چٹ' پاکر، جن پر ملک کے کئی مقامات میں بم دھماکے کرنے او ربے قصوروں کی جانیں لینے کے الزامات ہیں۔ اب اگر کوئی اس اندیشے کا اظہار کرتا ہے تو وہ حق بجانب ہے کہ یہ کہیں عدالت کو درمیان میں ڈال کر گاندھی جی کے قاتلوں کو بے قصور ثابت کرانے کی سعی تو نہیں ہے! آج جبکہ سارے ملک میں ہندو تووادی عناصر حقائق کو مسخ کرنے پر کمربستہ ہیں، تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کامیابی سے کوشش کی جارہی ہے، تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ گاندھی جی کے قاتلوں کی بجائے قتل کا الزام ان پر منڈھ دیاجائے جو گاندھی جی کے دست راست او ر رفقاء تھے؟ ان دنوں کچھ بھی ممکن ہے۔