Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, November 25, 2018

مولانا سلمان ندوی اور ان کا طرز بیان۔

سلمان ندوی جب بھی منہ کھولتے ہیں تو ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی غالب کا ایک شعر یاد آنے لگتا ہے-

گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی
تحریر/ رشید ودود۔(صدائے وقت)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
مولانا سلمان صاحب خاندانی عالم ہیں، مرحوم علی میاں کے نواسے ہیں، ندوہ کے استاذ ہیں، ذی علم ہیں لیکن جب گفتگو کرتے ہیں ہیں تو غیر منطقی کرتے ہیں، جذباتی اتنے ہیں کہ ہمیشہ ان کا بی پی ہائی رہتا ہے، بولتے ہیں تو آگ اگلتے ہیں، ندوہ اور ندویوں کا طرہء امتیاز اعتدال ہے لیکن سلمان ندوی صاحب کی انتہا پسندی ندوہ کے وقار کو بٹہ لگا رہی ہے، ندوہ والوں کی صلح کلیاں بہت مشہور ہے لیکن یہ مخلوق بھی اب بس تاریخ ہی میں دیکھنے کو ملتی ہے، اب تو افراط ہے، تفریط ہے، خوش عقیدگی ہے، جذباتیت ہے اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ ہے-

یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے، پہلا رخ یہ ہے کہ ندوہ ندوہ ہے، وہ کبھی بانجھ نہیں ہوگا ان شاءاللہ! سلمان صاحب نے ترکی میں صحابہ کے تعلق سے جو گل افشانئ گفتار کی، اس کا جواب ندوہ ہی کے ایک استاذ نے دے دیا ہے، خود ہماری فرینڈ شپ لسٹ میں کئی ایسے ندوی ہیں، جو کھلے ذہن کے ہیں، سوچتے ہیں، ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی ندوی، شمیم ندوی، ذاکر اعظمی ندوی اور عمران صدیقی ندوی ایسے ہی ندوی ہیں، جن پر ندوہ کو فخر کرنا چاہیے لیکن مشکل یہ ہے کہ سلمان صاحب کے شر کی وجہ سے کھل کر کے کوئی بولتا نہیں لیکن بند کمروں میں گفتگو جاری ہے-

سلمان صاحب نے پھر منہ کھولا ہے لیکن ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ غلط وقت پر صحیح بات کھ رہے ہیں، کل یہی بات جب وحیدالدین خاں نے کہی تھی تو ان کے نانا علی میاں ندوی مرحوم ہی نے ناک بھوں چڑھایا تھا، ملت کا غدار اور ہندوؤں کا وفادار تک کھ دیا تھا، آج اسی فارمولے کو آپ بیان کر کے واہ واہی بٹور رہے ہیں، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مساجد کی منتقلی ہوئی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ کنڈیشن آپ نہیں سمجھ رہے، مسجد کی منتقلی جہاں ہوئی ہے، وہاں کوئی زور زبردستی یا غنڈہ گردی سے نہیں ہوئی ہے، پھر جہاں منتقلی ہوئی ہے، وہاں مسجد کی جگہ پر کوئی رام للا نہیں بنا ہے، یہاں تو زور زبردستی ہے، قانون کا النگھن ہے، دادا گیری ہے-

میں خود ان لوگوں میں سے ہوں، جو ہندو مسلم اتحاد کے قائل ہیں لیکن یہ اتحاد برابری کی سطح پر ہو، کسی کا حق مار کر نہیں، رواداری صرف مجھے نہیں دکھانی ہے بلکہ ہندو بھائی بھی رواداری دکھایئں، اگر مسجد منتقل ہو سکتی ہے تو مندر کیوں نہیں؟ یا بنے تو دونوں نہ بنے لیکن یہ بے وقت کی راگنی الاپ کر آپ بلا وجہ شک و شبہے کی فضا قائم کر رہے ہیں، رام چندر جی کے وجود پر اقبال جیسے فرقہ پرست بھہ ناز کرتے ہیں لیکن معاف کیجئے گا! شری رام چندر جی کوئی تاریخی شخصیت نہیں ہیں، اجودھیا کی تعیین ہی کرتے ہوئے تاریخ دانوں کو پسینے چھوٹ جاتے ہیں تو بات سلیقے کی کیجئے، نہ کر پائیں تو خاموش رہیں، قانون، عدلیہ اور پارلیمنٹ آپ سے رائے نہیں مانگ رہے-
بشکریہ۔
رشید ودود