Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, December 28, 2018

رومانی شاعر نیاز فتح پوری کے یوم ولادت، 28 دسمبر کے موقع پر

نیاز فتح پوری ۔۔ولادت- 28 / دسمبر / 1884*

*ممتاز رومانی طرزِ شاعر ،افسانہ نگار، اردو کے نامور ادیب، نقاد صحافی، ماہرِ لسّانیات اور اپنے انتقادی خیالات کے لیے مشہور” نیازؔ فتح پوری صاحب “ کا یومِ ولادت۔۔۔*
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
*نیازؔ فتح پوری* بیسوی صدی کے ان بزرگ ادیبوں میں سے ہیں جنہوں نے ادبیات کے علاوہ تاریخ ، تہذیب، مذہب، فلسفہ اور صحافتی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ رومانی طرز کے پرگو شاعر بھی تھے اور افسانہ نگار بھی۔اس کے علاوہ انہوں نے *” نِگار “* کے نام سے ایک ادبی رسالہ جاری کیا جسے برِصغیر کے اہم ترین ادبی رسالوںمیں شمار کیا گیا۔ *نیازؔ* کو ان کی مجموعی خدمات کے لیے ہندوستان میں  *پدم بھوشن* اور پاکستان میں *’نشانِ سپاس‘* جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔
*نیاز فتح پوری 28 دسمبر ۱۸۸۴ء* کو یوپی کے *ضلع بارہ بنکی* میں پیدا ہوئےتھے۔ ان کی والدہ نے انہیں *نیاز محمد خاں* نام دیا اور والد نے *لیاقت علی خاں*۔ *مدرسہ اسلامیہ فتح پور اور دارالعلوم ندوۃ العلما* میں تعلیم حاصل کی۔ نیاز کے والد *محمد امیر خاں* پولیس انسپکڑ تھے۔والد کے تبادلوں کے سبب نیاز کو مختلف شہروںمیں رہنے اور وہاں کے اہلِ علم حضرات سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔۱۹۰۰ میں نیاز نے بھی بطور سب انسپکٹر مرادآباد  میں پولیس ٹریننگ لی۔ ۱۹۰۲ میں اس نوکری سے  مستعفی  ہوگئے۔ ۱۹۰۳ سے ۱۹۰۵ تک مدرسہ اسلامیہ میں ہیڈ ماسٹر رہے۔ اس کے بعد معاش کے کئی اور ذرائع اختیار کیے۔ *۱۹۲۲* میں  مشہور افسانہ نگار *آل احمد* کی تحریک پر آگرہ سے ادبی ماہنامہ *’نگار ‘* جاری کیا۔ جو بعد میں بھوپال ، لکھنؤ اور کراچی سے شائع ہوتا رہا۔۱۹۶۲ میں نیاز ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے   اور پھر باقی عمر کے چار سال کراچی میں گزارے۔ ۱۹۶۶ کے آغاز میں معلوم ہوا کہ نیاز سرطان کے مرض میں مبتلا ہیں
*۲۴ مئی ۱۹۶۶ء* کو وہ اسی مرض میں دنیا سے چل بسے۔
نیاز نے ادب مذہب، تاریخ ،نفسیات اور دیگر بہت سے موضوعات پر پچا س سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ان کی مشہور کتابوں میں ’ایک شاعر کا *انجام‘ ’نگارستان‘ جمالستان‘ ’شہاب کی سرگزشت‘ ’انتقادیات‘ ’مالہ و ما علیہ‘ ’مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ‘ ’ترغیباتِ جنس‘* وغیرہ شامل ہیں۔

💧 *نیاز فتح پوری صاحب کے یومِ ولادت پر چند منتخب کلام  ملاحظہ فرماٸیں ۔۔۔* 💧

جب قفس میں مجھ کو یاد آشیاں آ جائے ہے
سامنے آنکھوں کے اک بجلی سی لہرا جائے ہے

دل مرا وہ خانۂ ویراں ہے جل بجھنے پہ بھی
راکھ سے جس کی دھواں تا دیر اٹھتا جائے ہے

تم تو ٹھکرا کر گزر جاؤ تمہیں ٹوکے گا کون
میں پڑا ہوں راہ میں تو کیا تمہارا جائے ہے

چشمِ تر ہے اس طرف اور اس طرف ابرِ بہار
دیکھنا ہے آج کس سے کتنا رویا جائے ہے

میں تو بس یہ جانتا ہوں اس کو ہونا ہے خراب
کیا خبر اس کی مجھے دل آئے ہے یا جائے ہے

میرا پندار خدائی اس گھڑی دیکھے کوئی
جب مجھے بندہ ترا کہہ کر پکارا جائے ہے

*اب وہ کیا آئیں گے تم بھی آنکھ جھپکا لو نیازؔ*
*صبح کا تارہ بھی اب تو جھلملاتا جائے ہے*
* ─━━━════●■●════

*صرف اک لرزش ہے نوکِ خار پر شبنم کی بوند*
*پھر بھی اس فرصت پر اس کی مجھ کو رشک آ جائے ہے*

میری تنہائی نہ پوچھو جیسے کوئی نقشِ پا
دور صحرا کے کسی گوشہ میں پایا جائے ہے

سنگ کیا ہے بس سراپا انتظارِ بت تراش
زندگی کا خواب لوگو یوں بھی دیکھا جائے ہے

شب کا وہ پچھلا پہر اور پھیکی پھیکی چاندنی
رات بس کر جیسے کوئی ہار کمھلا جائے ہے

رات کی تنہائیاں اور ان کی آمد کا خیال
چاند جیسے روح کے اندر سے گزرا جائے ہے

اس سہی قد کا خرام ناز وہ فتنہ ہے جو
ہر قدم پر اک نئے سانچے میں ڈھلتا جائے ہے

اب یہ حالِ دل ہے جیسے رکھ کے کانٹوں پر نیازؔ
ریشمی چادر کو بے دردی سے کھینچا جائے ہے

✧◉➻═════صدائے وقت۔. . . . . . .