Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 31, 2018

یوم وفات 31 دسمبر۔مولانا سید ابو الحسن ندوی

یوم وفات 31 دسمبر ،
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی
صدائے وقت۔/ مولانا سراج ہاشمی
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آپ عالم اسلام کے ایک جلیل القدر عالم دین ، مصنف و مفکر اسلام ، بلند پایہ ادیب و خطیب ، دارالعلوم ندوہ العلماء لکھنو کے ناظم و سرپرست ، رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ یونیورسٹی کے رکن ، دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے ممبر ، حضرت مولانا حکیم سید عبد الحئی رائے بریلوی ، صاحب نزہتہ الخواطر کے صاحبزادے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر تھے ۔
ولادت :

آپ کی ولادت 5 دسمبر 1914ء مطابق 1333ھ کو رائے بریلی بیرون شھر دائرہ حضرت شاہ علم اللہ رح میں ہوئی ، آپ کا نام علی ، کنیت ابوالحسن ھے ۔ آپ کے والد ماجد کا نام سید عبد الحئی تھا ، جو اپنے وقت کے زبردست عالم دین تھے ۔ آپ کا نسبی تعلق رائے بریلی تکیہ کے مشھور خاندان سید احمد شھید رح سے ھے ۔
*تعلیم و تربیت :

آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کے گھر پر ہی ہوئی ، نو برس کی عمر تھی کہ والد صاحب کا انتقال ہوگیا ، انتقال کے بعد آپ نے ساری تعلیم و تربیت اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر عبد الحئی صاحبؒ ( فاضل دیوبند ) سے پائی ۔ دس برس کی عمر میں عربی اور انگریزی شروع کی ، عربی کی تعلیم شیخ خلیل بن محمد یمانی رح سے حاصل کی ۔ بعد میں عربی ادب شیخ تقی الدین ہلالی مراکشی رح سے حاصل کی ، جو اس زمانہ میں دارالعلوم ندوہ العلماء لکھنو کےعربی ادب کے استاذ تھے ۔ پھر آپ نے ندوہ العلماء میں داخلہ لیا ، وہاں حضرت مولانا حیدر حسن خاںؒ سے حدیث کی تعلیم مکمل کی ، کچھ ماہ آپ کا قیام دارالعلوم دیوبند میں بھی رہا ، جہاں آپ نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ،سے حدیث شریف کی تعلیم حاصل کی ، آپ نے تفسیر پر عبور حاصل کرنے کی غرض سے لاہور پاکستان کا بھی سفر کیا ، جہاں آپ نے شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے تفسیر پڑھی ۔

تدریس ، تنظیم اور اعزازات :

حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندویؒ،عالم اسلام کی وہ عظیم علمی و ادبی شخصیت ہیں جن کی علمی و ادبی تحقیقی اور تصنیفی خدمات اور عظمت کا لوہا عرب و عجم میں مانا گیا ، آپ کی ذات والا صفات ہمہ جہت و ہشت پہلو ھے ۔ آپ کی شخصیت کا ہر پہلو اپنے اندر بڑی دل کشی اور رعنائی سموئے ہوئے ھے ۔ آپ کی مذھبی ، علمی ، سماجی اور لسانی خدمات اپنی جگہ بڑی زبردست اہمیت اور وسعت رکھتی ہیں ۔ آپ نے تقریبا ایک صدی تک اپنی سحر انگیز شخصیت سے بالخصوص بر صغیر پاک و ھند اور بالعموم سارے عالم کو متاثر کیا ، اور یہ کہنا بالکل درست ھے کہ پورے عالم اسلام میں انہیں جو مقبولیت حاصل تھی اور ان کے تیئں جو احترام پایا جاتا تھا وہ بہت کم لوگوں کے حصہ میں آیا ۔ آپ کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں آپ کو بڑے بڑے اعزازات اور ایوارڈوں سے نوازا گیا ۔ بے شمار ممالک کے آپ نے دورے کئے ۔ آپ جس ملک میں بھی جاتے وہاں کی علمی و ادبی شخصیات کے علاوہ سربراہان مملکت بھی آپ سے ملاقات کو اپنے لئے باعث فخر و سعادت سمجھتے ہیں ۔ رابطہ عالم اسلامی سمیت درجنوں عالمی تنظیموں اور مشھور اداروں کے ممبر و سرپرست تھے ۔

1934ء میں دارالعلوم ندوہ العلماء میں تفسیر و ادب کے استاذ مقرر ہوئے ، 1935ء میں ڈاکٹر امبیڈکر کو اسلام کی دعوت دے کر اپنے دعوتی مشن کا آغاز کیا ، 1948ء میں اپنی ادارت میں ” تعمیر ” نامی رسالہ جو اب ” تعمیر حیات ” کے نام سے نکل رہا ھے ، جاری کیا ، اسی سال ندوہ کی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے ۔ 1949ء میں حضرت علامہ سید سلیمان ندوی کی تحریک پر نائب معتمدتعلیم بنائے گئے ۔ پھر 1950ء میں باقاعدہ ندوہ العلماء کے معتمد تعلیم بنائے گئے ۔ 1959ء میں لکھنو میں مجلس تحقیقات و نشریات اسلام کے نام سے ایک ادارہ کی داغ بیل ڈالی ۔ 1961ء میں آپ کے بڑے بھائی کا وصال ہوا ، ان کی وفات کے بعد 1961ء ہی میں آپ ندوہ العلماء کے ناظم منتخب ہوئے ۔

1962ء میں جب مدینہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو آپ اس کے مشاورتی بورڈ کے بنیادی رکن منتخب ہوئے اور اسی سال دارالعلوم دیوبند کے رکن شوری بنائے گئے ۔ 1974ء میں تحریک پیام انسانیت کا آغاز کیا ۔ 1980ء میں شاہ فیصل ایوارڈ ملا اور اس ایوارڈ کی پوری رقم آپ نے افغان پناہ گزیں جماعت تحفیظ القرآن اور مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے لئے مختص فرمادی ۔ 1981ء میں کشمیر یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دی ۔ 1982ء میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر منتخب ہوئے ۔ 1996ء میں کلید کعبہ پیش کی گئی اور در کعبہ کھولنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔

راہ سلوک :
آپ نے سلوک کے منازل حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائیپوریؒ کے پاس رہ کر طے کئے اور اجازت و خلافت سے مشرف فرمائے گئے ۔
آپ کے کارنامے :

آپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ھے کہ آپ نے ندوہ العلماء لکھنو کو اپنی جد و جہد سے ایک شہرت یافتہ اور عالمی یونیورسٹی بنادیا ۔ جہاں سے ہزار ہا ہزار طلبہ دینی و دنیوی دونوں لائن سے سیراب ہورھے ہیں ۔ دوسرا یہ ھے کہ آپ نے پر موضوع پر قلم اٹھایا ، خواہ علمی ہو یا ادبی ، سیاسی ہو یا سماجی ، دینی ہو یا ثقافتی ۔ آپ کی تصانیف کی تعداد عربی اردو میں درجنوں سے اوپر ھے ، آپ کی مشھور تصانیف یہ ہیں :

المسلمون فی الھند ، رسالہ التوحید ، الطریق الی المدینہ المنورہ ، العرب والاسلام ، القراہ الراشدہ ( تین حصے ) قصص النبیین ( پانچ حصے ) مختارات ( دو حصے ) سیرت سید احمد شھید رح ، پرانے چراغ ، النبی الخاتم صلی اللہ علیہ وسلم ، روائع اقبال ، حضرت مولانا الیاس رح اور ان کی دینی دعوت ، تاریخ دعوت و عزیمت ، سوانح حضرت شاہ عبد القادر رائیپوری رح ، تذکرہ حضرت شاہ فضل رحمٰن گنج مرادآبادیؒ ، اسلامی تہذیب ، شرق اوسط کی ڈائری ، جب ایمان کی باد بہار چلی ، ارکان اربعہ ، پاجا سراغ زندگی ، اسلامیت و مغربیت کی کشمش ، دستور حیات اور مسلمانوں کےعروج و زوال کا اثر جیسی شاندار کتابیں آج بھی زندہ و تابندہ ہیں اور قیامت تک ان کا نفع امت و انسانیت کو ان شاءاللہ تعالی پہنچتا رہیگا ۔*
وفات :

31 دسمبر 1999ء مطابق 23 رمضان المبارک 1420ھ بروز جمعہ کو تکیہ شاہ علم اللہ رائے بریلی میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے مالک حقیقی سے جاملے ۔

اللہ تعالی آپ کی قبروں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے آمین ۔۔۔

بحوالہ۔
( ھندوستان میں عربی علوم و فنون کے ممتاز علماء : ص 189 ، تذکرہ اکابر : ص 238 ، دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ زندگی : ص 107 ، مشاھیر علماء دیوبند : 19 ۔ 31 ، دارالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ : 673 )