Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, December 28, 2018

طلاق ثلاثہ مخالف بل ، ڈکٹیٹر شپ کی انتہا۔


از تحریر/ محمد سالم سریانوی۔صدائے وقت / عاصم عامر اصلاحی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اس وقت ہندوستانی مسلمان جن حالات ومسائل سے دوچار ہیں ان میں ایک بڑا مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا ہے، موجودہ حکومت نے جس انداز سے اس میں رخنہ اندازی کی کوشش کی ہے وہ بالکل عیاں ہے، حکومت نے اس سلسلہ میں جس طرح سے پہل اور ڈکٹیٹر شپی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی نظیر میری معلومات کے مطابق ہندوستان میں پہلے کبھی نہیں رہی ہے، اس حوالے سے ’’تین طلاق‘‘ کو ایسے انداز سے ہوا دی گئی ہے کہ لگتا ہے ہندوستانی مسلم خواتین کے تمام مسائل صرف اسی سے جڑے ہوئے ہیں اور اسی کے حل کرنے سے حل ہوجائیں گے، اسی بنیاد پر ’’تین طلاق بل‘‘ کو ’’مسلم خواتین تحفظ بل2017ء‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جب کہ اہل بصیرت جانتے ہیںیہ سب اپنے مفادات کی خاطر کیا جارہا ہے، عنوان صرف ایک بہانہ ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کل گزشتہ ایوان زیریں کے اندر جس انداز سے اس پر بحث ہوئی، مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے کھلم کھلا مخالفت جتائی اور اپوزیشن نے بھی ہنگامہ کیا اور اس کے لیے واک آؤٹ بھی کیا، لیکن ان سب کے باوجود ’’کثرت رائے‘‘ کی بنیاد پر اس بل کو ایوان زیریں میں پاس کرلیا گیا، یہ ’’ڈکٹیٹر شپی‘‘ کی انتہاء نہیں تو اور کیا ہے؟ مختلف ممبروں کی طرف سے ’’ترمیمی تجاویز‘‘بھی پیش کی گئیں، لیکن حکومت نے سب کو یکسر مسترد کردیا اور سیشن کے ختم تک بل کو منظوری دی، اس کا صاف مطلب ہے کہ حکومت کو آئین وقوانین سے کوئی مطلب نہیں ہے، اسے صرف اپنی بات منوانی ہے، چاہے اس کے لیے اسے کچھ بھی کرنا پڑے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ سال گزشتہ حکومت نے ایوان زیریں میں بل کو پیش کیا تھا، جس پر اکثریت نے اتفاق رائے ظاہر کیا تھا، اسی کی بنیاد پر آئندہ کے لیے بل کی تیاری کی گئی اور ایسا لگتا تھا کہ بہت جلد حکومت اس کو ایوان بالا سے بھی منظور کرالے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا؛ کیوں کہ اس میں حکومت اکثریت میں نہیں تھی، راجیہ سبھا میں اپوزیشن نے بل کی مخالفت کی اور اسے سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کی مانگ کی، جس کے سامنے حکومت مجبور ہوگئی، اور حکومت کو لگا کہ شاید اب اس بل کو پاس کرانے کے راستے محدود ہوگئے ہیں، اس لیے جتنی جلدی ہوسکے اس کو پاس کرایا جائے، اسی لیے اس بل کو قانونی شکل دینے کے لیے ’’آرڈیننس‘‘ لانے کا فیصلہ کیا اور اس کو منظور بھی کرالیا، حالاں کہ ماہرین جانتے ہیں کہ اگر کوئی بل ایوان میں زیر بحث ہو تو اس کا آرڈنینس لانے کا کوئی جواز نہیں ہوتا ہے، لیکن حکومت کو تو جلدی تھی، بہر حال اس سے بھی پوری بات نہیں بنی تو اب حالیہ سرمائی اجلاس میں اس بل کو پیش کیا گیا اور تمام مخالفتوں اور ترمیمی تجاویز کی پیشی کے بعد بھی کثرت رائے کی بنیاد پر پاس کرلیا گیا، اس کا صاف مطلب ہے کہ حکومت کی نیت واضح نہیں ہے، بل کہ اس میں کھوٹ ہے۔
اہل نظر جانتے ہیں کہ ’’طلاق ثلاثہ بل‘‘ میں خامیاں ہی خامیاں ہیں، اس میں کوئی ایسی صورت نہیں ہے، جس کی بنیاد پر اسے اچھا کہا جا سکے، جب کہ وہ آئین ہند کی مختلف دفعات کے مخالف بھی ہے، اس بل میں جس تحفظ خواتین کی بات کی گئی ہے اس کا کوئی حصہ نہیں ہے، جہاں ایک طرف یہ کہا گیا ہے کہ طلاق ثلاثہ جرم ہے، وہیں پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی تین طلاق دیتا ہے تو وہ کالعدم ہوگی، اور ایسا شخص قانون کی نگاہ میں فوجداری قانون کے اعتبار سے مجرم ہوگا، سوا ل یہ ہے کہ جب طلاق ثلاثہ کا وقوع ہی نہیں ہوگا اور وہ کالعدم ہوگی تو جرم کس بات کا؟ اسی طرح اگر اس کو جرم مان بھی لیا جائے تو تین سال کی سزا کیوں؟ اس لیے کہ طلاق ’’سول کوڈ‘‘ ہے، جب کہ سزا کریمنل کوڈ کی دی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں کسی بھی مذہب میں طلاق جرم نہیں ہے، تو مسلم کمیونٹی کے لیے جرم کیوں؟ ایسے ہی جب شوہر جیل کی سلاخوں میں ہوگا تو بیوی اور بچوں کا نان نفقہ وغیرہ کون اٹھائے گا؟ ایسے ہی جیل سے واپسی کے بعد وہ شوہر جس کو بیوی کی وجہ سے تین سال جیل کی سزا ہوئی وہ اس کو بیوی کے طور رکھے گا؟ ہر گز نہیں، بل کہ اس کی وجہ سے سوائے نفرت وعداوت میں اضافہ کے محبت والفت میں اضافہ کا کوئی سوال ہی نہیں ہے، اس کے علاوہ کئی ایسے سوال ہیں جو صرف خامیوں ہی شمار کرتے ہیں۔
تفصیلی طور پر بل میں غور کریں تو اس میں تحفظ نہیں بل کہ تشدد ہے، یہ مسلم خاندانوں کو جوڑنے کا نہیں بل کہ ان کو توڑنے کا راستہ ہے، اسی طرح یہ مسلم کمیونٹی کے افراد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کا آسان ذریعہ بھی ہے، اس لیے اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس بل کو مسلم خواتین کے حق میں تشدد سمجھتے ہیں اور اسی کے ساتھ مسلم پرسنل لاء میں کھلی مداخلت بھی مانتے ہیں، اس لیے حکومت سے اپیل ہے کہ وہ اس پر نظرثانی کرے، ماہرین سے مشورہ کرے اور ضروری ترمیم کے بعد بل کو پاس کرائے، جس سے واقعی طور پر مسلم خواتین کا تحفظ ہو، یقینا ہم بھی طلاق ثلاثہ کے وقوع کے خلاف ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا قانون بنایا جس سے سارا نظام ہی ادھم کا شکار ہوجائے اور مسلم خاندانوں میں دراڑ پڑ جائے، اس موقع سے خود اپنے بھائیوں سے درخواست ہے کہ وہ طلاق کے معاملے میں سنجیدگی برتیں، اسلامی شریعت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو اختیار کریں، ایسے مواقع پر علماء اور دانشوروں سے مشورہ کرنے کے بعد ہی کوئی اقدام کریں اور یہ طے کریں کہ ہم بہر صورت شریعت اسلامیہ کے مطابق ہی زندگی بسر کریں گے اور ہمیں شریعت میں ادنی مداخلت بھی برداشت نہیں ہے۔ اللہ ہمارا حامی اور مددگار ہو۔ (آمین)
(تحریر: 20/ربیع الثانی1440 ھ مطابق28 /دسمبر2018 ۔