Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, December 26, 2018

ملک میں طلباء یونین کی اہمیت و افادیت۔

ہمارے ملک ہندوستان میں طلبہ یونین کی افادیت واہمیت۔
از قلم /: وقار احمد قاسمی غالب پوری۔صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
طلبہ یونین کا آغاز یورپ میں طلبہ کی مجالس مباحثہ Debating Societies کے طور پر ہواتھا ۔ مقصد یہ تھا کہ طلبہ دور طالب علمی ہی سے ملک، سماج اور انسانیت کے اہم مسائل پرغور وفکر کے عادی بن جائیں ، ان میں صحت مند مباحثوں کی عادت پیدا ہو اور جمہوری مزاج پروان چڑھے۔ بیسویں صدی عالمی استعمار کے خلاف جدوجہد اور سیاسی نظریات کی صدی تھی ۔ چنانچہ اکثر ملکوں میں طلبہ یونینیں اپنے اپنے معاشروں کے سیاسی رجحانات سے بھی متاثر ہوئی اورہمارے ملک سمیت کئی ملکوں میں طلبہ یونینوں نے آزادی کی جدوجہد میں قومی قائدین کے شانہ بشانہ سرگرم حصہ لیا۔

● طلبہ یونین کا اصل کردار یہ ہے کہ وہ مستقبل کی عملی ذمہ داریوں کے لئے طلبہ کو تیار کرتی ہے ۔ طلبہ، کلاس روم میں اپنے مخصوص شعبہ علم کی معلومات اور مہارت حاصل کرتے ہیں اور یونین کے پلیٹ فارم پر وہ اپنی صلاحیتوں کو معاشرہ کے لئے عملاً استعمال کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔ یونین کا پلیٹ فارم طلباء کو سوسائٹی اور اس کے گوناگوں مسائل کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔ یہاں ان کی قائدانہ صلاحتیں پروان چڑھتی ہیں۔ کمیونکیشن، پیش قدمی، مشاورت ، بحث و مباحثہ، فیصلہ سازی، نفاذ ، مسائل و مشکلات کے حل، مزاحمت ، وغیرہ کے آداب اور سلیقہ بھی ان میں پیدا ہوتا ہے ۔ یونین طلبہ کا کیرکٹر بھی بناتی ہے اور ان میں حوصلہ مندی، جرأت، حق گوئی و بے باکی، ظلم کے مقابلہ، مشکلات کا سامنا اور اس جیسے دیگر مسائل میں اخلاقی اوصاف کی نشوونما بھی کرتی ہے ، جو ایک تعلیم یافتہ میں ضروری ہے اور ہر سطح کے قائدین کے لئے ناگزیر ہے ۔

● اس وقت ہمارے ملک کی فضا کچھ ایسی بنی ہوئی ہے کہ تعمیری مباحث ، تنقید اور سوالات کھڑے کرنے ، نیز افکار و خیالات کے تنوع کی ہمت شکنی ہورہی ہے ۔ سرمایہ داروں، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کا گٹھ جوڑ، کسی بھی ایسے خیال کی اشاعت کا روادار نہیں ہے، جو اس گٹھ جوڑ کے مفاد کے خلاف ہے ۔ میڈیا خیالات کی چند مخصوص دھاراؤں تک پورے ملک کو محدود کرنے کے درپے ہے ۔ یہ صورت حال ہمارے ملک کی جمہوریت کے لئے سخت مہلک ہے ۔ طلبہ یونینیں اس صورت حال کو ختم کرسکتی ہیں ۔ ملک کے مسائل پر گفتگو ، مختلف خیالات کو سننے اور ان پرغور کرنے کی آزاد فضا خود طلبہ کی شخصیتوں کے آزاد ماحول میں ارتقا کے لئے ضروری ہے ، اس فضا سے وہ ملک کی مجموعی فضا کو بھی متأثر کرسکتے ہیں ۔

● ہر تعلیمی ادارہ کا اپنا کلچر ہوتا ہے، اسے تشکیل دینے اور محفوظ رکھنے میں بھی طلبہ یونینوں کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ ہمارے ملک میں بعض تعلیمی ادارے اپنے اعلی تعلیمی معیار، علمی و تحقیقی سرگرمیوں اور تخلیقیت کے لئے معروف ہیں ۔ بعض تعلیمی اداروں کا ماحول جہد کاری و فعال سماجی سرگرمی سے عبارت ہے ،اس کے بالمقابل کئی تعلیمی ادارے ریگنگ کے لئے بدنام ہیں ۔ بعض تعلیمی اداروں میں مستقل طلبہ اور انتظامیہ کے درمیان کشمکش کا ماحول رہتا ہے اور اس کشکمش میں وہ سال کا بیشتر حصہ ایسے ہی صرف گزار دیتے ہیں ۔ بعض اداروں کی فضا ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ وہاں لوگوں کو سیکھنے سکھانے سے دلچسپی کم ہوتی ہے اور لوگ وقت گزاری ، تفریح یا عیاشی کے لئے داخلہ لیتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کی ان ساری شناختوں میں طلبہ کی اجتماعی سرگرمیوں اور یونینوں کا انتہائی اہم رول ہوتا ہے ، اگر طلبہ یونین چاہے تو ، تبدیلی کرسکتی ہے۔

● طلبہ یونین کی ایک اہم حیثیت یہ بھی ہے کہ وہ طلبہ کی خدمت اور ان کے مسائل کے حل کا ادارہ بھی ہے ۔ مغربی ملکوں میں طلبہ یونینیں یہ کردار بہت ہی سرگرمی کے ساتھ ادا کررہی ہیں، جس کے نتیجہ میں دور دراز کے ممالک سے آنے والے طلبہ بھی آسانی سے ایڈجسٹ ہوجاتے ہیں ۔ مثلاً طلبہ کی مشاورتی سروس اکثر مغربی ملکوں کے یونینوں کا مستقل فیچر ہے ۔ یہ سروس مقامی اور بیرونی طلبہ کو ہر قسم کی رہنمائی اور مدد فراہم کرتی ہے ۔ بعض طلبہ یونینیں بعض گروپوں (مثلاً معذور یا اپاہج طلبہ وغیرہ) کے لئے مخصوص خدمات بھی فراہم کرتی ہیں ۔ بعض یونینیں داخلہ کے بعد طالب علم کے آنے سے پہلے اس کی رہائش کا انتظام کردیتی ہیں ۔طلبہ یونینیں تمام طلبہ کے مابین مناسب تال میل اور ربط پیدا کرکے ان کے بہت سے مسائل حل کرتی ہیں ۔ طلبہ کا ایک بہت ہی اہم اور پیچیدہ مسئلہ معاشی ضروریات کا ہوتا ہے۔ ملک میں بعض طلبہ یونینیں اسکالرشپ کی رہنمائی اور مدد کو آپریٹیو اسٹورز کے قیام وانتظام وغیرہ کے علاوہ اہل خیر تنظیموں اور افراد اور طلبہ کے درمیان ربط کا کام بھی بڑی خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہیں۔

● ان کاموں کا جہاں یہ فائدہ ہے کہ ان سے طلبہ کے مسائل حل ہوتے ہیں اور طلبہ یونین صحیح معنوں میں دیگر تمام طلبہ کے قائد بن جاتے ہیں، وہیں اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتاہے کہ طلبہ اور ان کی قیادتوں میں انسان دوستی، غریب پروری اور خدمت خلق کا مزاج بھی پروان چڑھتا ہے۔ آج ہمارے ملک کے تعلیمی ادارے زیادہ تر ایسے خود غرض اور مفاد پرست تعلیم یافتہ افراد تیار کررہے ہیں ، جن کی واحد دلچسپی اپنی ذاتی آسودگی اور مالی منفعت ہوتی ہے ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ سیاست سے لے کر تعلیم تک اور بیوروکریسی سے لے کر میڈیا تک ، ہر جگہ صرف مادی مفاد کی دوڑ ہے اور معاشرہ کی فلاح و بہبود سے کسی کو بھی دلچسپی نہیں ۔ طلبہ یونینیں یہ صورت حال ضرور بدل سکتی ہیں ۔

● طلبہ کی نمائندگی اور احتجاجی سیاست اب ہمارے ملک میں ایک بہت ہی حساس موضوع بن چکا ہے ۔ ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اور ان کے افراد اپنے سیاسی مفادات کے لیے احتجاج کے نام پر طلبہ کا استحصال کررہی ہیں ۔ اس کے بالمقابل دوسری طرف بعض مقامات بالخصوص مدارس اسلامیہ میں وہ مزاج ابھی بھی موجود ہیں ، جو طلبہ کوخاموش تماشائی بنائے رکھنا چاہتے ہیں ، وہ سوسائٹی سے اختلاف و احتجاج کی تمام صورتیں ختم کردینا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ طلبا صرف اپنی ضرورتوں اور تعیشات سے غرض رکھیں ، اجتماعی معاملات میں ان کی معلومات، بیداری، اور دلچسپی کم سے کم ہو۔ غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان کی واحد دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند میں بھی طلبہ یونین نہیں ہے ، حالاں کہ یہاں تو ضرور ہونی چاہیے۔

● ہماری یونینوں کو دیگر معاملات کی طرح اس معاملہ میں بھی متوازن رویہ اختیار کرنا چاہیے : نہ طلبہ کا ہر مطالبہ لازماً جائز و منصفانہ ہوتا ہے ، نہ ہر جائز و منصفانہ مطالبہ پر احتجاج اور مہماتی کام ضروری ہوتا ہے اور نہ ہی یہ بات ملک و سماج کے وسیع تر مفاد میں ہے کہ طلبہ اپنے حقوق اور جائز مطالبات و امنگوں سے دستبردار ہوکر انتظامیہ کے بے زبان خادمین بن کر رہیں ۔ طلبہ یونینوں کو دانشمندی کے ساتھ اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے ۔ ہر چھوٹے بڑے مسئلہ میں الجھ کر بے شک طلبہ کے وقت اور تعلیم کے ضیاع کا سبب نہیں بننا چاہیے ؛ لیکن جن مسائل کا تعلق ان کی تعلیم، ان کے مستقبل اور ان کی بنیادی جائز ضرورتوں سے ہے، ان سے غافل بھی نہیں رہنا چاہیے۔
● یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہر مسئلہ احتجاج سے ہی حل نہیں ہوتا ۔ بے شک نعرے، جلسے، جلوس اور ہنگامے نوجوان قائدین کو اپنی قیادتیں چمکانے کا موقع فراہم کرتی ہیں ؛ لیکن اگر یونین اور اس کے قائدین کو اپنی قیادت چمکانے سے زیادہ طلبہ کے مسائل کے حل میں دلچسپی ہے ، تو انہیں قیادتوں کو چمکانے کے لیے کوئی متبادل طریقہ ڈھونڈنے کی فکر کرنی چاہیے اور طلبہ کے مسائل کو بغیر شور شرابہ کے، ذمہ داروں سے بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعہ حل کرنا چاہیئے ۔ بعض مسائل سماج کے بزرگ رہنماؤں کی مداخلت سے آسانی سے حل ہوسکتے ہیں اور بعض مسائل عدالتوں کے ذریعہ حل کرائے جاسکتے ہیں۔

● قیادت کا اہم ترین کام یہ ہے کہ وہ کردار بناتی ہے۔ مدرسہ اور کالج ویونیورسیٹی کے ماحول میں ایک طالب علم اپنی زندگی کا وہ قیمتی دور گزارتا ہے ، جو اس کی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اس کی شخصیت کی تعمیر میں جہاں تعلیمی نظام کے دیگر اجزاء یعنی تعلیم، اساتذہ اور کتابوں کا رول ہوتا ہے ، وہیں بڑا اہم کردار اس کے ہم جولیوں کا ہوتا ہے اوراس کی نمائندگی یونین کرتی ہے ۔ایک مؤثر یونین طلبہ کی محفلوں پر، اس میں ہونے والی گفتگو اور مباحث پر، طلبہ کے باہمی تعلقات پرہر جگہ اثر انداز ہوتی ہے ۔ ہماری یونینوں کو اپنے اس اثر ورسوخ کا طلبہ کی کردار سازی کے لئے استعمال کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔
● کردار سازی سے ہماری مراد یہ ہے کہ یونین کے عہدہ دار اپنے ذاتی کردار کے ذریعہ ، یونین کی سرگرمیوں کے ذریعہ اور اس کے مباحث کے ذریعہ ایسا ماحول بنائیں کہ اس ماحول میں خوف خدا ، ایمانداری ،سچائی، انسانیت، قانون کا احترام، انصاف پسندی، سچائی کے لئے جدوجہد کا داعیہ ، ایثار و قربانی، کمزوروں اور محروموں کے تئیں سچی ہمدردی، عورتوں کا احترام، بزرگوں اور اساتذہ کا احترام اور اس جیسی اعلی قدریں اور بلند فکریں پروان چڑھ سکیں ۔ یونین کے ذمہ داران کی تقریریں، ان کے پروگرامز اور ان کے عنوانات، مسائل حل کرنے کا ان کا انداز، ان کی تہذیب اور رکھ رکھاؤ ؛ یہ سب امور طلبہ کے کردار پر اثر ڈال سکتے ہیں ۔ ان تمام معاملات میں اگر طلبہ قائدین رول ماڈل بننے کی فکر کریں ، تو وہ اپنی قیادت کو اور یونین کو ایک کردارساز ادارہ میں بھی بدل سکتے ہیں ۔

● طلبہ یونینوں کو اپنے ادارہ میں صالح روایات کو فروغ دینے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے ۔ ریگنگ، اساتذہ سے بدتمیزی، ہنگامے اور تشدد وغیرہ جیسی روایتوں کو ختم کرنا چاہیے ۔ بالخصوص ایسی روایتوں کو فروغ دینا چاہیے، جن سے طلبہ کی تعلیمی میدان میں دلچسپی بڑھے ، مطالعہ اور تحقیق و جستجو کا شوق پروان چڑھے ، تخلیقی سرگرمیاں فروغ پائیں ، تفریقات اور تعصبات باقی نہ رہیں ۔ اساتذہ ، انتظامیہ اور طلبہ میں تال میل اور ہم آہنگی پیدا ہو ۔ بالآخر ایسا کلچر پروان چڑھے، جو مثبت رخ پر طلبہ کے ہمہ جہت ڈیولپمنٹ میں معاون ہو ۔ اگرمدرسوں، یونیورسٹیوں اور کالجوں میں صالح کلچر پروان چڑھے گا ، تو یہ کلچر إن شاء الله پورے معاشرہ کا بہترین اور قابل تعریف کلچر بنے گا ۔