Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, December 29, 2018

ہاں ! میں مولانا بدرالدین اجمل ہوں۔


نازش ہما قاسمی۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
جی ہاں میں ایک کامیاب تاجر، مشہور عطار، کم سخن، سنجیدہ اور خوش مزاج انسان، ممبر آف پارلیمنٹ، رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند و دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤ، رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، صدر جمعیۃ علماء ہند آسام، ٹرسٹی دارالعلوم امدادیہ ممبئی، بانی و سرپرست مرکزالمعارف، قائد آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ، خوشبوؤں کی دنیا کا بےتاج بادشاہ، اجمل گروپ کا ڈائریکٹر، اجمل سی،ایس،آر، کا سی، ای، او، دنیا کے پانچ سو با اثر مسلمانوں میں شامل بدرالدین اجمل ہوں۔
میری پیدائش ۱۲؍فروری ۱۹۵۰ کو ہوجائی،آسام میں حاجی اجمل علی اور مریم اجمل کے گھر ہوئی۔ میرے بھائیوں کا نام امیر الدین اجمل، فخر الدین اجمل، سراج الدین اجمل (ایم پی)، مرحوم نظرالحق اجمل ہیں ۔ میری شادی رضوانہ اجمل سے ہوئی جس سے میرے چھ بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ میرا سب سے بڑا بیٹا عبد الرحمن اجمل، سابق ایم ایل اےایک تاجر ہےاور دوسرا بیٹا عبدالرحیم اجمل، اس وقت آسام اسمبلی میں ایم ایل اے ہے۔میرے پانچ بیٹے الحمدللہ حافظ قرآن ہیں اور چار میری طرح دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہیں۔ میں نے ابتدائی تعلیم ناگدیوی اسٹریٹ میں موجود اپنی دکان پر مولانا شفیق قاسمی بستوی سے حاصل کی پھر عربی دوم سے لے کر عربی ششم تک کی تعلیم دارالعلوم امدادیہ ممبئی میں مولانا شفیق قاسمی سابق صدر مدرس دارالعلوم امدادیہ ممبئی کے زیرتربیت حاصل کی۔ وہاں سے اعلی تعلیم کے لیے اپنے استاذ محترم کے ہمراہ دارالعلوم دیوبند گیا، جہاں مولانا محترم نے امتحان کی تیاری کرائی جس کی بدولت مجھے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے لیے قبول کرلیاگیا جہاں اس وقت کے کبار اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ مولانا محترم میری رہنمائی بچپن سے پچپن تک کرتے رہے اخیر دم تک میرے خیر خواہ تھے۔
ہاں میں وہی بدرالدین اجمل ہوں جس نے حصول علم کے بعد تزکیۂ نفس کیلئے شیخ الاسلام حضرت حسین احمد مدنی کے اجل خلیفہ اور آسام کے مشہور ترین صاحب تصوف شیخ احمد علی بانسکندی اور پھر وقت کے عظیم شیخ فدائے ملت حضرت مولانا سیداسعد مدنی کے دامن سے وابستہ ہوا، اور سلوک و تصوف کی منزلیں طے کرتے ہوئے اپنے شیخ سے خلعتِ خلافت بھی نصیب ہوئی۔
ہاں میں وہی بدرالدین اجمل ہوں جس نے اپنے شیخ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ذاتی مفاد کے بجائے قومی مفاد کیلئے جینا سیکھا، دوسروں کے دکھ درد کو اپنانا سیکھا، کبھی جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے، کبھی مرکز المعارف کے پلیٹ فارم سے ملک کے طول و عرض میں پھیلے مصیبت زدوں کی داد رسی کی، جس طرح والد محترم نے ریاست آسام سے ہجرت کرکے ممبئی میں عظیم تجارت کی بنیاد ڈالی؛ تاکہ میری قوم کی غربت دور ہوسکے ٹھیک اسی طرح میں ان کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی قوم کی سیاس، تعلیمی اور سماجی دادرسی میں منہمک ہوں۔ ممبئی میں عالیشان گھر ہونے کے باوجود میں ریاست آسام میں مستقل خیمہ زن رہتا ہوں۔ وہاں کے لاچار، بے کس، پریشان حال، مسلمانوں سمیت غیر مسلموں کے لیے بھی کچھ کرنے کا جذبہ رکھتا ہوں اور بہت حد تک ان کی کسمپرسی دور کرنے کا سبب بنا ہوں۔ یہ سب خدائے بزرگ و برتر کی توفیق اور والدین نیز بھائیوں کے عزم اور اساتذہ کرام کی دعاؤں کی برکت سے ہی ممکن ہوا ہے۔
ہاں میں وہی بدرالدین اجمل ہوں جس نے مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنےاور سیاسی کمی کو پورا کرنے کیلئے اپنے شیخ کےحکم پر آسام میں ایک سیاسی پارٹی کی داغ بیل ڈالی اور اب وہ ایک باوقار سیاسی پارٹی کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔
ہاں میں وہی مولانا بدرالدین اجمل ہوں جس کے عطر کا کاروبار کوئی چھوٹا موٹا کاروبار نہیں؛ بلکہ تقریباً دو ہزار کروڑ روپئے سے زائد میں پھیلا ہوا ہے، دبئی سے لے کر پیرس اور ایمسٹرڈم تک میرے عطر کی دکانیں ہیں، پوری دنیا میں تقریباً اجمل گروپ کا تیار کردہ عطر، پرفیوم دستیاب ہے۔ہاں میں وہی اجمل ہوں جو اجمل اٹیٹس اینڈ پراپرٹیز پرائیوٹ لمیٹیڈ، انسا ہاؤسنگ اینڈ ڈیولپمنٹ پرائیوٹ لمٹیڈ، سراج ریئیل اسٹیٹ پرائیوٹ لمٹیڈ، فلاور ویلی پرفیومس پرائیوٹ لمٹیڈ، اجمل فریگرینسیز اینڈ فیشنزپرائیوٹ لمٹیڈ، اجمل ہولڈنگ این انویسمینٹ پرائیوٹ لمٹیڈ، بییجا انٹرپرائیزیز پرائیوٹ لمٹیڈ، ہیپی نیسٹ ڈیولپسرس پرائیوٹ لمٹیڈ، ہیپی نیسٹ لیجر ان انڈیا پرائیوٹ لمٹیڈ، الماجدڈیسٹلیشن پرائیوٹ لمٹیڈ، فلاور ویلی ایگری ٹیک پرائیوٹ لمٹیڈ، سونارگائو پراجیکٹ پرائیوٹ لمٹیڈ، اجمل بائیوٹک پرائیوٹ لمٹیڈ، جیسی کمپنیوں کے مالکوں میں سےایک ہوں۔
ہاں میں وہی مولانا بدرالدین اجمل ہوں جو صرف تاجر ہی نہیں، بلکہ اپنی قوم کی فلاح وبہبود کے لیے علما کو جدید دنیا سے جوڑنے اور عصری تعلیم سے ہم آہنگ کرنےکے لیے ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا اور انوکھا تاریخی ادارہ مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر 1994 میں قائم کیا، اور آج اس کی شاخیں ملک کے کئی صوبوں میں قائم ہے، جہاں معتبر علماء کرام کو انگریزی زبان و ادب سے مسلح کرایا جاتا ہے۔ جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں مدارس اسلامیہ سے فارغ علماءتحصیلِ علم کرکے ملک وبیرون ملک خدمات انجام دے رہے ہیں اور خود کفیل ہوکر دوسروں کی مدد کرنے والے بن چکے ہیں اور میرے والد کے خواب کو پورا کرنے میں میرے معاون بن رہے ہیں۔ الحمدللہ۔
ہاں میں وہی بدرالدین اجمل ہوں جس کی سیاسی طاقت، مسلمانوں میں مقبولیت کو دیکھتے ہوئے جارڈن (اردن) رائیل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈی سینٹر کی جانب سے میرا نام بھی دنیا کی پانچ سو با اثر مسلم شخصیات میں شامل کیاگیا۔ میں آسام کے مسلمانوں کا رہبر ہوں، ان کا قائد ہوں، ان کے لئے میں نے پوری ریاست میں مدارس، مکاتب، اسکول اور کالج کا جال بچھایا، تاکہ غربت ان کے ایمان سے نہ ٹکرائے۔
ہاں میں وہی بدرالدین اجمل ہوں جو حاجی عبدالماجد میموریل پبلک ٹرسٹ کا ٹرسٹی ہے، اس ٹرسٹ کے ذریعے اسپتال، ریسرچ سینٹر قائم ہے جہاں قوم کے غریب ونادار اور پریشان حال مسلمانوں کا علاج ومعالجہ کیا جاتا ہے۔
ہاں میں وہی بدرالدین اجمل ہوں جو نارتھ انڈیا کا سب سے بڑا این جی او مرکز المعارف چلا رہا ہوں، جس کے تحت مسلم غیر مسلم مذہب سے قطع نظر سب کی دادرسی کی جاتی ہے. میری انہیں خدمات کے پیش نظر مجھے ’’محسن ملت‘‘ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے اور کچھ تعلیم سے تعلق رکھنے والے مشہور حضرات نے مجھے ’’سر سید آف نارتھ ایسٹ‘‘کے لقب سے بھی نوازا۔ہاں میں وہی بدر الدین اجمل ہوں جو اجمل فاونڈیشن نامی این جی او کا بھی ایک ٹرسٹی ہے جس نے اب تک 25 سے زائد کالجز قائم کیے ہیں ، جہاں سائنس، آرٹس، کامرس، لاء، یونانی طب سبھی قسم کے کالجز ہیں۔ ہاں میں نے بچیوں کے لیے کچھ الگ کالجز بھی بنوائے ہے، جی ہاں میں وہی بدر الدین اجمل ہوں جو ہندوستان میں سب سے زیادہ یتیم خانے چلاتا ہے،جس میں بچے اور بچیوں کی تعلیم کے ساتھ مکمل کفالت کی جاتی ہے۔
ہاں میں خوشبو پھیلانے والا انسان ہوں، مجھے خوشبوؤں سے محبت ہے، میں امن کا درس دینے والا شخص ہوں، میں نفرت کیوں کر پھیلاسکتا ہوں؟ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں سبقت لسانی کی وجہ سے مسلمانوں کے ایک گروہ کے تعلق سے کچھ ایسی باتیں نکل گئیں جو قابل مواخذہ تھیں اس پر میری پکڑ ہوئی، اپنوں نے معافی کا مطالبہ کیا میں نے اپنے لیٹر پیڈ پر قوم سے معافی مانگ لی، وہ بضد رہے تو ویڈیو کے ذریعے معافی مانگ لی، اس قابل اعتراض جملے کو پارلیمنٹ کی تقریر سےہٹوا دیا، لیکن میری طرف سے معافی مانگ لینے کے بعد بھی وہاٹس ایپ اور سوشل میڈیا یونیورسٹی کے فارغ التحصیل عقل سے عاری، کور چشم ملک میں مسلمانوں کے درمیان افتراق ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں، اپنے گناہوں کو چھپا کر میری معافی کے بعد میرے گناہ گنوا رہے ہیں۔ میں اب بھی کہتا ہوں وہ سبقت لسانی کی وجہ سے سرزد ہوئی میں شرمندہ ہوں، پشیماں ہوں؛ لیکن خدارا اب اس بحث کو ختم کیا جائے، مسلمان ویسے ہی پریشان حال ہیں، انہیں مزید پریشان نہ کریں، ان کے غموں کو دور کرنے کا سبب بنے، امت واحدہ بنیں ملت کی شیرازہ بندی کریں، اپنے مدارس و مکاتب سے لیٹر پیڈ پر میرے خلاف بیان بازی کرکے اخبارات کی زینت نہ بنیں تو بہتر ہوگا۔ خدا ہمیں ایک قوم بن کر رہنے کی توفیق دے تاکہ ہم متحدہ طور پر فرقہ پرستوں کا مقابلہ کرسکیں۔