Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, December 22, 2018

سوپ تو سوپ چھلنی کیا بولے۔۔۔۔


شکیل رشید / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
کانگریسی لیڈر سجن کمار کو ’سکھ مخالف فسادات‘ میں ملوث ہونے کے جرم میں دہلی ہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا کیا سنائی کہ بی جے پی کی بانچھیں کھل گئیں۔ کانگریس کے خلاف گز گز بھر کی زبانیں کھلنے لگیں۔ ہمیں بی جے پی کی کانگریسیوں پر نکتہ چینی یا تنقید پر کوئی اعتراض نہیں ،کریں، بس کہنا صرف اتنا ہے کہ اپنا گریبان بھی تو  جھانک لیں۔
وزیراعظم نریندر مودی کا ردّ عمل ملاحظہ فرمائیں، اس رد عمل پر ایک کہاوت یاد آگئی ’سوپ تو سوپ چھلنی کیا بولے جس میں ۷۲ سوچھید‘ ! تو سنیں کہ ملک کے وزیر اعظم نے سجن کمار کی سزا پر کس طرح سے خوشی کا اظہار کیا، انہوں نے کہا ’’بالآخر ۳۴ برسوں کے بعد انصاف ملا اور سکھ مخالف فسادات کے ملزموں کو جن میں کانگریسی لیڈران بھی شامل ہیں، سزائیں ملیں‘‘۔
واقعی ۳۴ برسوں کی طویل مدت کے بعد انصاف کا ملنا کم از کم ان افراد کےلیے تو خوشی کی بات ہوگی جو اتنے طویل عرصے تک انصاف کی لڑائی لڑتے رہے ہیں،  پر ان افراد کےلیے اس میں کون سی خوشی جنہوں نے انصاف کےلیے کبھی کوئی آواز تک نہیں اُٹھائی؟ مودی اور بی جے پی کو اسی وقت ’سکھ مخالف فسادات‘ یا ’مظلوم سکھ‘ یاد آئے جب کوئی سیاسی فائدہ مقصود تھا۔ ورنہ تو سکھوں کی لڑائی انسانیت میں یقین رکھنے والی غیر سرکاری تنظیموں، جمہوری قدروں پر یقین رکھنے والے صحافیوں، وکلاء اور دانشوروں نے لڑی ہے۔ اور ان گواہوں نے لڑی ہے ، بلکہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر لڑی ہے،  جن کے باپ او ربیٹے اور بھائی ’کانگریسی قاتلوں‘ کے ہا تھوں مارے گئے تھے، بی جے پی کہاں اس تحریک میں شامل تھی! خیر، وزیر اعظم نریندر مودی، ارون جیٹلی، میناکشی لیکھی اور پرکاش جاوڈیکر اگر یہ سمجھتے ہیں کہ عدالت کے فیصلے کی ستائش ہونی چاہئے تو ٹھیک ہے۔ ستائش کریں لیکن دہلی ہائی کورٹ کے ان جملوں کو بھی دھیان میں رکھیں جو ۱۹۸۴ کے ’سکھ مخالف فسادات‘ جیسے ہی دوسرے ’فسادات‘ کو سامنے لاتے ہیں اور اس تلخ حقیقت کو بھی عیاں کرتے ہیں کہ اس طرح کے فسادات میں جو لوگ مارے گئے انہیں مارنے میں ’سیاست داں اور پولس وانتظامیہ ‘ کا کردار انتہائی گھنائونا رہا ہے۔ ’فسادات‘ میں انہوں نے ’گٹھ جوڑ‘ بناکر لوگوں کو تباہ وبرباد کیا او رقتل عام کیا۔ دہلی ہائی کورٹ کے دو جج صاحبان ، جسٹس ایس مرلی دھر اور جسٹس ونود گوئل نے جن فسادات کے نام گنوائے ہیں ان میں گجرات ۲۰۰۲ کے مسلم کش فسادات بھی ہیں۔ یہ وہ فسادات ہیں جن میں بی جے پی کے درجنوں لیڈروں پر ملوث  ہونے کے الزامات ہیں،ا ن لیڈروں میں نریندر مودی بھی شامل ہیں۔ تو ’دہلی ہائی کورٹ‘ کے فیصلے پر خوشی کے اظہار کرنے کے ساتھ بی جے پی کو چاہئے کہ وہ فیصلے کو مکمل طو ر پر پڑھ لے اور اگر کچھ شرم آئے (جو کہ آنی نہیں ہے) تو گجرات ۲۰۰۲ کے مسلم کش فسادات کے ملزمین کے خلاف بھی عدالتوں میں تیز کارروائی کےلیے دبائو ڈالے۔ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ بی جے پی کو اس معاملے میں ۳۴ سال گزرنے کا انتظار ہے اور ابھی گجرات فسادات کو تو محض ۱۶ سال ہی ہوئے ہیں!