Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, December 19, 2018

ایک خدا ترس ولی کی رحلت پر ملال

ایک خدا ترس ولی،
جناب الحاج صوفی الطاف حسین صاحب (باس باڑی) دیناج پوریؒ مغربی بنگال کی رحلت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
از /مفتی عبدالمنان قاسمی/ صدائے وقت۔/ عاصم طاہر اعظمی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاَّقِ عالم کا عجیب وغریب دستور اور قانون ہے کہ اس عالم رنگ وبو کو آباد رکھنے اور کارو بارِ زندگی کو چلانے کے لیے ہروقت اور ہر چیز میں تجدد اور تنوع برپا کرتا رہتا ہے، اس کو تراش وخراش کا عمل جاری رہتا ہے، کبھی ولادت ہوتی ہے، تو کبھی وفات، کبھی عہد طفولیت سے گزارتا ہے، تو کبھی عہد شباب، کبھی زمانۂ کہولت سے وابستگی رہتی ہے، تو کبھی شیوخت وپیرانہ سالی سے ہم آہنگی، اور پھر ان سب کے بیچ ہزارہا انقلابات واکتشافات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی ایام طفولت کی شرارتوں کی شکل میں، تو کبھی زمانۂ حصول علم کی شوخیوں کی صورت میں، کبھی پرجوش جوانی کے جذبات اور کوہِ ہمالہ کو بھی سر کرجانے کا جنون، تو کبھی مسندِ مشیخیت واستاذیت کی جلوہ نمائیاں، کبھی اپنی جسمانی قوتوں کا مظاہرہ، تو کبھی باطنی صلاحیتوں اور پوشیدہ خزانوں کا سیل رواں اور اپنی گنج ہائے گراں مایہ کا ظہور، کبھی اپنی بے داغ زندگی کی نمائش وآرائش کی تمنا، تو کبھی خود کو مٹانے اور پردۂ عدم میں چھپانے کی خواہش، کبھی اپنے افکار ونظریات کی تقویم واستقامت کی کوششیں، تو کبھی تفکر وتدبر کی منزلوں پر جلوہ گر، کبھی خود کو سنوارنے اور نکھار نے کی چاہتیں، تو کبھی دوسروں کے سنوار ونکھار کی جدوجہد، کبھی بشری تقاضوں، خواہشوں، تمناؤں اور آرزوؤں کا ہجوم، تو کبھی ہر میدان میں اپنی شناخت اور پہچان بنانے کی سعئ پیہم، کبھی مجلس آرائی کا شوق، تو کبھی خلوت وتنہائی کی طلب، کبھی دنیا کی ہنگامہ آرائیوں میں گم، تو کبھی بستر استراحت پر عالم خواب کا مسافر۔

الغرض! زندگی میں سینکڑوں تبدیلیاں، ہزارہا بدلاؤ اور انقلابات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اور ان ساری چیزوں کے مجموعہ سے زندگی عبارت ہے۔ اور یہی سب اشیا زندگی کا حسن اور حیات وموت کے درمیان سدِّ سکندری بن کر حائل ہیں۔ جس دن اور جس لمحہ ان چیزوں سے واسطہ ٹوٹا اور رشتہ منقطع ہوا، زندگی اپنا رخ ہی بدل لے گی اور اس کی جگہ موت آکھڑی ہوگی۔ گویا زندگی نام ہے انقلابات واکتشافات سے وابستگی کا، زندگی نام ہے حرکات وسکنات سے لگاؤ کا، زندگی نام ہے دنیوی ہنگامہ آرائیوں کے بیچ اپنا راستہ خود طے کرنے کا؛ کیوں کہ جس دن آپ اپنا راستہ خود نہیں؛ کوئی اور طے کرے گا، تو آپ دوسروں کے کندھوں پر ہوں گے، اپنے پیروں پر نہیں۔

یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ اس عالم فانی سے ایک نہ ایک دن منتقل ہونا ہے، اور اسی انتقال کا نام ’’موت‘‘ ہے، اور یہ ہر ذی روح کا مقدر ہے، جس سے ہر ایک کو گزرنا ہے۔جس کی حقیقت وواقعیت پر روشنی ڈالتے ہوے قرآن مجید میں ’’کُلُّ نَفْسٍ ذَاءِقَۃُ الْمَوْتِ‘‘ کا فرمانِ لازوال وارد ہوا ہے؛ لیکن ان سب کے بیچ مذہب اسلام سے وابستگان مومنین ومسلمین کے لیے اس کی خفت اور ہلکاپن کو ظاہر کرتے ہوے ’’اَلْمَوْتُ جَسَرٌ، ےُوْصِلُ الْحَبِےْبَ اِلٰی الْحَبِےْبَ‘‘، جس میں موت کو وصلِ حبیب کا ذریعہ کہا گیا، اور اس کی اہمیت اور محبوبیت کو مزید دوبالا کرنے کے لیے ’’تُحْفَۃُ الْمُؤْمِنِےْنَ الْمَوْتُ‘‘() کے فرمان سے زبانِ رسالت سے موت کو ’’تحفہ‘‘ قرار دیا گیا۔

یہ موت وحیات کی ماہیتیں اور حقیقتیں الگ الگ ہونے کے باوجود، دونوں کے کنارے ایک دوسرے سے ملے ہوے ہیں۔ جہاں سے زندگی کی گاڑی رک جاتی ہے، وہیں سے موت کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔

یوں تو ہر روز نہ جانے کتنے افسوس ناک اعلانات کیے اور سنے جاتے ہیں؛ لیکن کچھ اعلانات ایسے ہوتے ہیں، جن کا اولِ وہلہ میں یقین ہی نہیں آتا، اپنی قوت سماعت پر شک ہونے لگتا ہے، اپنی شنوائی کا جائزہ لیا جاتا ہے؛ لیکن اتنے تکرار اور تسلسل کے ساتھ کانوں میں آواز گونجنے لگتی ہے، تو پھر سماعت پر یقین کرنا پڑتا ہے، اور پھر ذہن ودماغ پر غم کے بادل سایہ فگن، آنکھیں اشک بار، زبان لرزیدہ، ہونٹ کپکپاتے ہوے، الغرض پورے وجود پر رعشہ طاری ہوجاتا ہے، دل ودماغ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، الفاظ بے ربط اور جملے غیر مربوط ہوجاتے ہیں، ایک ایسی عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، جس کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جاسکتا، جس کو زبان وبیان کے سانچے میں نہیں ڈھالا جاسکتا۔

یہ ہی کیفیت بروز جمعہ، بتاریخ: ۷؍ربیع الاول ۱۴۴۰ھ۔ مطابق ۱۶؍ نومبر ۲۰۱۸ء؍ صبح ۴۵.۹؍پونے دس بجے پیش آئی اور اپنی سماعت پر شک ہونے لگا، کہ جب یہ افسوس ناک اور غم ناک خبر آئی کہ (مغربی بنگال کے ضلع اتردیناج پور،علاقہ گوال پوکھر، گاؤں بانس باڑی کے)میرے ماما جناب صوفی الطاف حسین صاحب (نوراللہ مرقدہ) اس عالم فانی سے عالم جاودانی اور دارالبقا ودارالخلود کی طرف رحلت فرماچکے ہیں۔ (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَےْہِ رَاجِعُوْنَ)۔

داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی تھی، سو وہ بھی خموش ہے

کل تک جن کو طول حیات اور درازئ عمر کی دعائیں دی جاتی تھیں، آج ان کو مرحوم ومغفور اور راہئ ملک بقا کے القاب سے یاد کیا جارہا ہے اور ان کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کیا جارہا ہے۔

جناب صوفی الطاف حسین صاحبؒ ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھے، جن کی امیدیں قلیل اور جن کے مقاصد جلیل ہوتے ہیں، قلندرانہ صفات کے حامل اُن بانصیبوں میں سے تھے، جوروحانیت کی گرمی اور اخلاص وانابت الی اللہ کی چاشنی کا حسین سنگم تھے۔ تصنع اور بناوٹ سے پاک، ریا ونمود سے عاری، سادہ مزاج، سادہ پوشاک اور سادگی پسند انسان تھے، جس کی طرف نشاندہی فرماتے ہوے حضرت لولاک، باعث کن فکاں، ہادئ اعظم، محسن انسانیت علیہ افضل الصلوات والتسلیمات نے اپنی زبان گوہر بار سے ارشاد فرمایا: ’’اَلْبَذَاذَۃُ مِنَ الْاِیْمَانِ‘‘(ابو داؤد شریف، رقم الحدیث: ۴۱۶۳)، ’’سادگی ایمان کا عنصر اور اس کا حصہ ہے‘‘۔

آپ نہایت ہی خوش مزاج وملنسار، خوش اخلاق، خوش گفتار، خوش کردار، متواضع، مہمان نواز تھے۔ عفو ودرگزر، زہد وقناعت، صبر وتحمل، خود داری وبے غرضی، فنائیت واستغنائیت، استقامت وپامردی، اور تصلب فی الدین، عشق نبوی ﷺ میں سرشاری، ذوقِ عبادت وشوق بندگی جیسی سینکڑوں صفات آپ کی کشادہ وچوڑی پیشانی سے جھلکتی تھیں۔ الغرض! آپ کی زندگی شفقت ومحبت کے مناظر سے معمور ہے۔

غم جستجو کے صدقے وہ مقام دل کو بھی آیا

کہ بجز خیال جاناں کوئی ہم سفر نہیں ہے

زندگی کی اس طویل لڑائی میں آپ نے کبھی ہار نہیں مانی، ہمیشہ سادگی کو پسند فرماتے، خلوت وجلوت میں تسبیحات زبان پر جاری رہتیں، کبھی ذکر خدا سے غافل نہیں ہوتے، سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، الغرض زندگی کی ہر نقل وحرکت اور دنیا کی ہنگامہ آرائیوں کے بیچ آپ نے خدا کی یاد سے اپنے سینۂ بے کینہ کو سجائے رکھا، چلتے ہوے نگاہیں نیچی؛ مگر گرد وپیش کے احوال سے باخبر، خلوت پسند ہونے کے باجود حالات پر گہری نظر، اپنے گھر کو تو آپ نے نمونہ بنا رکھا ہے، کیا مجال کہ کسی کی فجر کی نماز بھی قضا ہوجائے، بچے ہوں، یا جوان، مرد ہوں یا عورت؛ سبھی آپ کے سامنے سرخم تسلیم کیے ہوے آپ کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوے حاضر خدمت ہوجاتے اور اذان کی آواز سنتے ہی سب نماز کی تیاری میں لگ جاتے۔ آپ نے اپنی اولاد کی ایسی تربیت فرمائی کہ واقعی اس دور میں آپ ایک مثالی شخصیت کے مالک تھے؛ کیوں کہ اس دور میں جب کہ تربیت واصلاح کا فقدان ہے اور خاص طور سے ہمارے دیناج پور میں جو عام مسلمانوں کی دینی حالت ہے، وہ تو انتہائی افسوس ناک ہے، بے پردگی عام ہے، مسجدیں نمازیوں سے خالی پڑی رہتی ہیں، گھروں میں گانے بجانے کی آوازیں تو سنائی دیتی ہیں، پر قرآن مجید کی تلاوت کی آواز خال خال بھی نہیں۔ یہ تو آپ کا امتیاز تھا کہ آپ نے اپنے گھر کو دینی ماحول میں رنگ دیا اور چھوٹے بڑے سب کے دلوں میں دین کی محبت، رسول ﷺ کی الفت جاگزیں فرمادی اور فرائض وواجبات اور سنن ونوافل کی ادائیگی کا پابند بنادیا۔
آج جب کہ آپ اس دنیامیں نہیں رہے، تو آپ کی باتیں ذہن ودماغ پر گردش کررہی ہیں، جب بھی آپ سے ملاقات ہوتی، تو بڑی شفقت فرماتے، بہت خوش ہوتے، چہرہ پر عجیب سی شادمانی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کھل اٹھتی، سر پر ہاتھ رکھتے، (چوں کہ آپ میرے نہایت شفیق ماما تھے) میری والدہ ماجدہ کی صحت کے بارے دریافت فرماتے، ناسازگئ طبیعت کے بارے سن کر نہایت متفکر وحزیں ہوتے اور پھر دعاؤں کے تحفہ سے نوازتے تھے۔

آپ اللہ کے ولی اور خدا ترس بزرگ تھے، راتوں کو اٹھ کر رونا، گڑگڑانا اور دعائیں کرنا آپ کا معمول تھا، فرائض وواجبات کے ہی صرف پابند نہیں؛ بل کہ سنن ونوافل اور مستحبات کا بھی التزام فرماتے تھے، جب تک صحت اچھی رہی، تو کبھی تہجد کی نماز تک نہیں چھوٹی۔ ہر کام میں طریق سنت پر عمل کرتے اور دوسروں کو بھی ترغیب دیتے تھے۔

آپ کی اس دنیا سے رحلت پر ملال سے جہاں ایک اچھے انسان، بے شمار خوبیوں کے مالک شخص کی کمی ہوگئی، وہیں ایک اچھے باپ اور نیک ومخلص سرپرست کی کسک بھی، جہاں آپ اپنے گھر والوں اور بستی والوں کے لیے نعمت عظمی تھے، وہیں پورے علاقہ کے لیے بھی آپ کا وجود مسعود تسلی واطمینان قلب کا باعث تھا؛ کیوں کہ آپ کی بزرگانہ نالۂ نیم شبی اور دعائے سحر گاہی کی بہ دولت نہ جانے کی کتنی بلائیں ٹل جاتی ہوں گی اور کتنے طوفان تھم جاتے ہوں گے، جو کہ آپ کی رحلت سے راتوں کو امت کے غم میں رونے والے اور سب کی بھلائی وخیر خواہی کی فکرکرنے والے ایک عابد وزاہد اور درویش سے امت محروم ہوگئی۔
خانقاہ مونگیر سے آپ کا دیرینہ تعلق تھا، جوانی سے ہی آپ نے اپنی اصلاح اور نفس کی تزکیہ کی خاطر خانقاہی زندگی کو لازم پکڑلیا تھا۔ امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ سے اصلاحی تعلق قائم تھا، ان کے بعد مفکر ملت امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی مدظلہ العالی سے آپ نے اپنا اصلاحی تعلق قائم کیا اور ہرسال بلاناغہ خانقاہ رحمانی تشریف لے جاتے اور ہفتوں قیام فرماتے، اور اکثر رمضان المبارک کا اعتکاف خانقاہ رحمانی ہی میں فرماتے تھے۔

آپ کے خلف الرشید اور چھوٹے صاحب زادے حضرت مولانا ضیاء الدین صاحب مدظلہ العالی، مہتمم مدنی دارالعلوم دیبی گنج (جو ایک فعال، متحرک اور نہایت خلیق عالم دین ہیں اور علاقہ سے جہالت وناخواندگی کو مٹانے کی فکر لیے ہوے ہمہ جہت خدمات میں مصروف ہیں) سے احقر نے دریافت کیا کہ: ماما علیہ الرحمہ کی زندگی کے بارے کچھ بتائیے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ: ’’میں نے والد صاحبؒ سے پوچھا تھا کہ: آپ نے کتنے سال تک خانقاہ رحمانی مونگیر میں اعتکاف کیا ہے؟ تو فرمایا کہ: چھتیس سال تو بلاناغہ میں نے وہاں اعتکاف کیا ہے، پہلے حضرت امیر شریعت مولانا سید محمد منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ کی معیت میں اور بعد میں ان کے جانشیں موجودہ امیر شریعت مفکر ملت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم العالیہ کی معیت میں، اس کے علاوہ بھی کئی بار متفرق سالوں میں وہاں اعتکاف کرنے کا شرف حاصل رہا ہے؛ لیکن زندگی کے آخری ایام میں طبعی ضعف ونقاہت اور کم زوری کی وجہ سے آپ نے مدرسہ مدنی دارالعلوم دیبی گنج میں ہی اعتکاف فرمایا۔ زندگی میں کبھی نماز سے غفلت نہیں برتی، نہ خود اور نہ اپنے گھر کے کسی فرد کو اس معاملہ میں کوتاہی برتنے کا موقع دیتے۔

مفکر ملت امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم فرمایا کرتے تھے کہ: ’’ضیاء الدین! آپ کے والد صوفی الطاف حسین صاحب ہماری خانقاہ کے نہایت ہی خاموش مزاج متوسلین میں ہیں، بے انتہا متواضع، خلیق اور متدین ہیں، ان کی ہم بھی بہت عزت واحترام کرتے ہیں، طویل عرصے سے ہماری خانقاہ سے جڑے ہوے ہیں، آپ لوگ بھی ان کی قدر کرو، ان کا احترام کرو، ان کا خیال رکھو‘‘۔

مزید برآں یہ کہ اُن کی دو خواہش تھی، ایک یہ ان کی وفات جمعہ کے دن ہو ، اور دوسری یہ کہ جنازہ ان کی پیر ومرشد مفکر ملت امیر شریعت حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ پڑھائیں۔ ان میں ایک خواہش تو پوری ہوگئی کہ آپ کی وفات ’’جمعہ‘‘ کے دن ہی ہوئی اور دوسری خواہش کی تکمیل نہ ہوسکی، یعنی امیر شریعت مدظلہ العالی اپنے طے شدہ پروگرام کی وجہ سے سفر میں ہونے کی وجہ سے تشریف نہ لاسکے؛ اس لیے جنازہ آپ کے صاحب زادۂ محترم مولانا ضیاء الدین صاحب ہی نے پڑھائی۔ جنازہ میں علاقہ بھر سے مقتدر علمائے کرام، ائمہ ومؤذنین، سیاسی وسماجی شخصیات کے علاوہ عوام الناس کا ایک جم غفیر شریک تھا، سبھی نے نم آنکھوں آپ کو سپرد خاک کیا اور تمامی حضرات نے آپ کی مغفرت کاملہ اور جنت الفردوس میں مقام کریم سے سرفرازی کے لیے دعائیں کیں۔

آپ کے پس ماندگان میں اہلیہ محترمہ، تین صاحب زادے (محمد ریاض الدین، مولانا ضیاء الدین، شبیر عالم) اور تین صاحب زادیاں ہیں۔

اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں مقام کریم عطا فرمائے، آخرت کی ساری راحتیں میسر فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے، خصوصا آپ کے خلف الرشید مولانا ضیاء الدین صاحب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور آپ کا جانشین و نعم البدل بنائے۔

حیات انساں ہے شمع صورت، ابھی ہے روشن ابھی افسردہ

نہ جانے کتنے چراغ یوں ہی جلاکریں گے، بجھا کریں گے