Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 20, 2018

نصیرالدین شاہ نے بھی کیا عامر خان والا قصور!!! فیچر صدائے وقت۔


شکیل رشید کی تحریر
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . . . 
وہ بات جو فلم اسٹار عامر خان نے کہی تھی نصیر الدین شاہ نے بھی کہہ دی۔
عامر خان کی ’بات‘ پر بڑا ہنگامہ مچاتھا، لوگوں نے بالخصوص سنگھی ذہنیت رکھنے والوں نے، ایسا شور وغل مچایا تھا جیسے کہ عامر خان نے اپنے ملک ہندوستان سے غداری کردی ہو اور ان سے بڑا ’ملک دشمن‘ کوئی نہ ہو۔ اب نصیرالدین شاہ کو بھی ممکن ہے کہ عامر خان کی ہی طرح ہنگانے کا سامنا کرنا پڑے۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ ۲۰۱۵ میں عامر خان نے صحافیوں کےلیے ایک ایسی ایوارڈ تقریب میں، جس میں بی جے پی کے بڑے لیڈران شریک تھے، مثلاً ارون جیٹلی، وینکیا نائیڈو، روی شنکر پرساد، سریش پربھو اور نجمہ ہپت اللہ وغیرہ ،تقریر کرتے ہوئے اپنی اہلیہ کرن رائو کے حوالے سے کہا تھا کہ ’’جب کرن سے میری بات ہوتی ہے تب وہ کہتی ہے ’کیا ہم ہندوستان چھوڑدیں؟‘ کرن کو اپنے بچوں کی فکر ہے، اسےیہ خوف ہے کہ پتہ نہیں آس پاس کا ماحول کیسا ہو، وہ اخبار کے صفحات کھولتے ہوئے خوف محسوس کرتی ہے‘‘۔ عامر خان کا یہ بیان، ملک کے انتہائی مسموم حالات میں ایک ایسے متفکر اور مخلص شہری کے طو رپر تھا جسے اپنے اہل خانہ کی فکر ستاتی ہے۔ وہ صرف اپنی نہیں مذکورہ بات کہہ کر اس ملک کے ان بے شمار افراد کی نمائندگی کررہےتھے جو ملک کی  متعصبانہ اور جانبدارانہ فضاء میں یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کے بیوی بچے کیا آج کے حالات میں محفوظ رہ سکیں گے!
عامر خان کو نشانے پر لے لیاگیا۔ ایک وجہ تو ان کا مسلمان ہونا تھا۔ بھلا ایک مسلمان کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس ملک میں اسے اپنے بیوی، بچوں کی فکر ستاتی ہے۔ بھلے ننھا حافظ جنید مارا جائے یا پھر کسی اخلاق کو پیٹ پیٹ کر مارنے کے بعد اس کے گھر کے اندر گھس کر لو گ اس کے اہل خانہ کی پٹائی کردیں۔ مسلمانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس ملک میں ’عدم تحفظ‘ کا اظہار تک کرسکیں! عامر خان کو اپنے بیان کی قیمت اداکرنی پڑی۔ انہیں ’ملک اور قوم دشمن‘ قرار دیاگیا۔ اور اب نصیرالدین شاہ نے یہی بات کہہ دی ہے۔ شاہ نے کہا ہے کہ ’’مجھے اپنے بچوں کی فکر ہے کل کو اگر کسی ہجوم نے انہیں گھیر لیا اوریہ پوچھنے لگے کہ تم ہندو ہو یا مسلمان توبھلا وہ کیاجواب دیں گے؟ ‘‘ شاہ کے مطابق ’’ملک کے حالات بہتر ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں‘‘۔ او ریہ ’ملک کے حالات‘ ہی ہیں کہ شاہ اپنے بچوں کے تئیں فکر مند ہیں۔ اور اس ملک میں نہ جانے کتنے افراد ہیں، صرف مسلمان ہی نہیں ہندو بھی ، سکھ بھی اورعیسائی بھی، دلت بھی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی جو خوف کی حالت میں جی رہے ہیں؛ جب ان کے بچے صبح اسکول یا کامو ںپر جانے کےلیے گھر وں سے نکلتے ہیں تو انہیں یہ خوف ستاتا ہے کہ کہیں کوئی انہوںنی نہ ہوجائے!
یقیناً نصیرالدین شاہ نے صرف اپنی نہیں سارے ملک کی بات کی ہے لیکن اندیشہ یہی ہے کہ انہیں بھی عامر خان کی طرح نشانے پر لیاجائے گا۔ شاہ بھلے ہی لامذہب ہوں مگر وہ نام کے تو مسلمان ہیں۔ عامر خان اور شاہ کا ایک ’قصور‘یہ بھی ہے کہ انہوں نے ایسی خواتین سے شادیاں کی ہیں جو ’ہندو ‘ ہیں۔ آج ’گھر واپسی‘ اور ’لوجہاد‘ کے نام پرکو لوگ فرقہ پرستانہ تحریک چھیڑے ہوئے ہیں ، انہیں کسی ش کرن رائو اور گوری کو شادی کے رشتے او رناطے میں بندھے ہوئے دیکھنا کہاں سے بھائے گا! لہذا نصیرالدین شاہ کے خلاف آواز اُٹھے گی ہی۔ لیکن سچ وہی ہے جو شاہ کی زبان سے نکلا ہے۔ اس ملک کے حالات اس قدر مخدوش کردئیے گئے ہیں ، نفرت کی فضا کچھ اتنی گہری کردی گئی ہے کہ لوگ، بالخصوص اس ملک کے مسلمان اپنے بچوں اور اہل خانہ کی زندگیوں کے تئیں مسلسل تشویش اور فکر میں رہتے ہیں۔ مرکز کی مودی سرکا ر کوئی ایسا کام کرنے کو تیار نہیں ہے کہ خوف اور نفرت کی یہ فضا چھٹ جائے۔ اصل کام یہی ہے۔کسی کی قوم پرستی اور وطن دوستی پر انگلی اُٹھانا آسان ہے، اہم کام یہ ہے کہ اسے ’عدم تحفظ‘ کے احساس سے نجات دلائی جائے۔ کیا سرکار یہ کام کرسکے گی؟
(صداۓوقت فیچرس)