Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 31, 2018

مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی ہنگامی میٹنگ،مولانا بدر الدین اجمل سے پارلیمنٹ کے اسٹیج سے ہی الزام کی تردید کا مطالبہ۔

صدائے وقت/ زرائع۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
موجودہ دور میں اتحاد ملت، قومی یکجہتی ، پرامن بقائے باہم کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا گیا اور اس بات کی تاکید کی گئی کہ افراد و قائدین ملت اللہ کی رسی کتاب و سنت کو تھام کر اپنے قول وعمل سے اتحاد و اتفاق اور اخوت و بھائی چارہ کا مظاہرہ کریں ۔

مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے ذمہ داران واراکین ، اعیان جماعت اور ذمہ داران مدارس اہلحدیث کی ایک اہم ہنگامی نشست مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی کی صدارت میں پیر کو منعقد ہوئی ،جس میں پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاس میں طلاق ثلاثہ کے بل پر بحث کے دوران مولانابدرالدین اجمل( ممبر پارلیمنٹ) کے سلفیت پر دہشت گردی کے افسوسناک وقابل مذمت الزام سے پیداشدہ صورت حال اورمسلمانوں بالخصوص سلفیوںکے اضطراب وبے چینی کاجائزہ لیاگیا۔
ساتھ ہی ساتھ موجودہ دور میں اتحاد ملت، قومی یکجہتی ، پرامن بقائے باہم کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا گیا اور اس بات کی تاکید کی گئی کہ افراد و قائدین ملت اللہ کی رسی کتاب و سنت کو تھام کر اپنے قول وعمل سے اتحاد و اتفاق اور اخوت و بھائی چارہ کا مظاہرہ کریں اور کوئی ایسی بات یا اقدام نہ کریں جس سے اکرام مسلم اور اتحاد قوم وملت اور انسانیت کے کاز کو ٹھیس پہنچتی ہو اور کسی طرح کی فرقہ واریت اور تشدد و اشتعال انگیزی کو راہ اور فرقہ پرست اور ملک وملت دشمن عناصر کو شہ ملتی ہو۔ افراد ملت خصوصا قائدین ایک دوسرے کا احترام کریں اور اپنے فقہی ومسلکی اختلافات کو آپسی افتراق اور ملی انتشار کا شاخسانہ نہ بننے دیں۔ کیوں کہ یہ کسی بھی طرح ملک وملت اور انسانیت کے مفاد میں نہیں ہے۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی ہنگامی میٹنگ میں مولانا بدرالدین اجمل سے پارلیمنٹ کے اسٹیج سے ہی الزام کی تردید کا مطالبہ کیاگیا!

دہشت گردی عصر حاضر کا سب سے بڑا ناسور ہے اور کتاب وسنت کی روشنی میں ایک مردود و مذموم عمل ہے۔ خواہ اس کا ارتکاب کوئی بھی کرے اور کہیں بھی انجام دے لیکن افراد کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں اور دہشت گردی کے مذموم عمل میں ملوث ہونے کی وجہ سے اس کے مذہب یا مسلک کو مورد الزام ٹھہرا نا درست نہیں ہے ۔اس لیے کہ دہشت گردوں کا کوئی بھی مذہب یا مسلک نہیں ہوتا۔ دہشت گردی کی روک تھام اور مذمت ایک دینی وانسانی فریضہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے اپنے عقیدہ و منہج کی رو سے ملک میں سب سے پہلے دہشت گردی پھر داعش کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اردو، انگریزی، ہندی اور دیگر زبانوں میں اجتماعی فتوی جاری کر کے اور سیمینارو سمپوزیم منعقد کر کے اس کی بیخ کنی کی کوششوں میں بھرپورحصہ لیاجس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس کا اعتراف اکابرین ملک وملت اور مسلم وغیر مسلم دانشوروں نے بار ہا کیا ہے۔ ایسے میں جماعت اہل حدیث اور سلفیت کو دہشت گردی سے جوڑناانصاف کے خلاف ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز بات معلوم ہوتی ہے۔کیونکہ سلفیت کتاب وسنت کی اس روشن شاہراہ ،عقیدہ ومنہج سے عبارت ہے جس پر صحابۂ کرام ،تابعین وتبع تابعین گامزن تھے۔

یہی وجہ ہے کہ مورخہ 27 دسمبر 2018 کو پارلیمنٹ ہائوس میں مولانا بدر الدین اجمل کے غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد بیان کی بلا تفریق مسلک ذمہ داران ودانشوران ملت نے بروقت مذمت و تردید کی اور اس پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں موجود مسلم و غیر مسلم اراکین اور لوک سبھاکی براہ راست نشرہونے والی کارروائی دیکھنے والے لوگوں نے اپنی حیرت واستعجاب کا اظہار کیا اور اسے فرقہ وارانہ منافرت اور مسلکی تنائو پیداکر نے والا بیان قرار دیا۔ اور یہی وطن عزیز کی شان اور امتیاز ہے۔
لیکن بعض مسلم تنظیموںبالخصوص آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کی خاموشی حیرت انگیز ہونے کے ساتھ افسوسناک بھی ہے۔جبکہ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ اسی سے متعلق تھا اور اس مسئلہ میں جماعت اہل حدیث نے ہر قدم پر بورڈ کا ساتھ دیا اور ملی اتحاد کا بھر پور ثبوت فراہم کیا۔ نیز ملت کا شیرازہ منتشر ہونے سے بچایا جس کا صلہ بورڈ ہی کے ایک ممبر نے اتنے سنگین الزامات لگا کر پوری قوم و جماعت کو تکلیف پہنچا کر دیا۔ مذکورہ بیان نے دہشت گردی مخالف ان سرگرمیوں اور کوششوں کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے جو برسوں سے مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند اور دیگر تنظیمیں کررہی تھیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مولانا بدر الدین اجمل کے غیر ذمہ دارانہ بیان سے نہ صر ف جماعت اہل حدیث بلکہ تمام مسلمانوں اور انصاف و امن پسند برادران وطن کو تکلیف پہنچی ہے اور اس سے ملی اتحاد اور قومی یک جہتی کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ اور اس سے اللہ نہ کرے پوری ملت اور انسانیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔گرچہ مولانا نے اس سلسلہ میںاپنے لیٹرہیڈپر معذرت کرلی ہے اور ای ٹی وی پر بھی اپنا معذرتی بیان نشر کیا ہے،علاوہ ازیں پارلیمنٹ کی کارروائی سے حذف کرنے کی درخواست بھی دے دی ہے اور ان کے بقول وہ قبول بھی کرلی گئی ہے۔بعض بیانات میں انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ وہ بہک گئے تھے اور ان کا منشاء سلفی بھائیوں کوتکلیف پہنچانانہ تھا۔
لیکن چونکہ مولاناکے بیان سے احباب جماعت میں شدیدبے چینی پائی جارہی ہے۔ لہٰذا مولانا مرکزی جمعیت کے نام اپنا ایک تحریری بیان بھی ارسال کریں اور پارلیمنٹ کے اسٹیج سے ہی اس الزام کی تردید کو یقینی بنائیں تاکہ اضطراب کی شدت ختم ہو۔ ساتھ ہی اس ہنگامی میٹنگ نے افراد جماعت وملت سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس نازک موقع پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔منہج سلف کا مزاج ہے کہ وہ کسی بھی مسئلہ میں وسطیت واعتدال کا راستہ اختیار کرتاہے اورکسی بھی حال میں اپنے ماننے والوں کوکسی بھی قسم کے غلو،تشدد اوربے اعتدالی کی اجازت نہیں دیتا ۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندکی میٹنگ میں یہ بھی طے کیاگیاکہ اس حوالے سے ہر ممکن کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کوئی اتحاد ملت ویکجہتی کوپارہ پارہ کرنے کی جرأت نہ کرسکے اورقوم وملت بلاوجہ بے چینی واضطراب کا شکار نہ ہو.