ملت کا ایک خاموش خادم خاموشی سے چل بسا
________________________
از : ابوسعد چارولیہ/صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
صبح سویرے جونہی موبائل کھولا تو پہلا پیغام نظر سے گذرتے ہی دل دھک سے رہ گیا، مولانا کی وفات حسرت آیات کی خبر اتنی دلدوز و دل سوز تھی کہ بے ساختہ زبان سے انا للہ نکل گیا اور جس نے سنا پڑھا سب کا یہی حال ہوا
یہ سچ ہے کہ مولانا کو دیر سویر اس جہان فانی سے جانا ہی تھا اور جو یہاں اس کو ایک دن جانا ہے، مگر کس نے سوچا تھا کہ مولانا یوں سر راہ امت کو سسکتا بلکتا چھوڑ کر چل دیں گے! کسے خبر تھی کہ رات جو بلبل شیریں بیاں قلب سوزاں لیے ڈالی ڈالی چمن چمن اپنا نالہ دل سارا تھا کل صبح وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجائے گا
مولانا سے آخری ملاقات و زیارت گجرات الیکشن سے پہلے اور بہار سیلاب کے بعد جامعہ کے دفتر اہتمام میں ہوئی تھی، اس ملاقات میں بندے نے جی بھر کر مولانا کی زیارت کی اور مختلف سوالات کے ذریعے استفادے کا سلسلہ چلتا رہا، بہار سیلاب کے تعلق سے مولانا نے جس درد مندی کے ساتھ لوگوں کی زبوں حالی کا ذکر کیا اسے سن کر ہر دل سے ایک ہوک سی اٹھی، پھر بات کا رخ گجرات الیکشن کی طرف مڑ گیا اس پر مولانا نے پوری بصیرت کے ساتھ طویل گفتگو فرمائی جس کو مفید تر جان کر راقم نے تحریری شکل دی اور پھر الیکشن کے موقع سے وہ طویل بیانیہ خوب کام آیا اگر چہ الیکشن تو دشمن ہی جیت گئے لیکن دو باتیں سیکھنے کو ملیں ایک یہ علما کو اس میدان میں آگے بڑھنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ الیکشن میں لائحہ عمل طے کرکے باقاعدہ پوری امت متفق ہوکر ووٹ ڈالے تو اس کے خاطرخواہ نتائج مل سکتے ہیں
اس بیداری و بیدار مغزی کا سہرا بھی مولانا کے سربندھتا ہے کہ سادے سے لباس میں ملبوس ایک فقیر بے نوا کے سوز و گداز نے پوری قوم کو جگادیا
اب یہ سوچ کر رونا آتا ہے کہ وہ جگانے والا اب ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سوگیا
تم نے پہلو میں مرے بیٹھ کے آفت ڈھائی
اور اٹھے بھی تو اک حشر اٹھا کر اٹھے
مولانا کی حیات از اول تا آخر جہد مسلسل سے عبارت تھی، آپ کا خاص وصف تعلیم کی روشنی پھیلانا اور غریبوں کی خدمت کرنا تھا
ایم پی تو مسلمانوں کو مل جائیں گے مگر ایسا کہاں سے لائیں گے جس کو ہندو مسلم سبھی مل کر ووٹ دیتے تھے، نفرت کی اس اندھیری فضا میں مولانا محبت کا چراغ تھے جو زندگی بھر جل جل کر روشنی بانٹتا رہا اور وقت موعود آنے پر چپکے سے چلا گیا
آہ!ایک ایسے نازک وقت میں مسلمانوں کا ایک مضبوط سہارا جاتا رہا جب چاروں طرف وحشت، خوف و ہراس اور تعصب کے شعلے بھڑک رہے ہیں، مولانا کی سیاسی زندگی سے ممکن ہے کہ کسی کو اختلاف ہو مگر جس لگن اور محنت سے مولانا نے اپنے علاقے میں کام کیا اور طرح بلا تفریق مذہب وملل ہر ایک کے لیے دوڑے بھاگے اور تڑپے وہ مولانا ہی کا حصہ تھا
غم و حزن کی اس گھڑی میں جتنا مولانا کا خاندان یتیم ہے اس سے کہیں زیادہ امت اپنے آپ کو یتیم محسوس کررہی ہے یکے بعد دیگرے ہر شعبے سے مخلصین اٹھتے جارہے ہیں جن کے بعد وہ جگہ ہمیشہ کے لیے خالی ہوجاتی ہے بار الہا!اس بے آسرا امت کو آسرا دے دے اس امت کو تاریخ کے اس خطرناک ترین موڑ پر بے سہارا نہ چھوڑنا اور تیرا ایک خادم زندگی بھر کا تھکا ہارا سب کچھ امت کے لیے لُٹا کر تیرے دربار عالی شان میں پہنچا ہوا ہے اسے اپنی شایان شان بدلہ عطا فرما اور امت ہندیہ کو اس کا نعم البدل عطا فرما
مولانا کی محنت کڑھن اور فکر کو دیکھ کر اور جواب میں امت کی الزام تراشیوں بے وفائیوں اور ناقدریوں کو سوچ کر چکبست کا یہ شعر جب پڑھتا ہوں آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں
اس کو نا قدری عالم کا صلہ کہتے ہیں
مر گئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
اب کانفرنس ہوگی سیمینار ہوں گے تعزیتی قرار دادیں پاس ہوں گی اور نہ جانے کیا کچھ ہوگا مگر ایک چیز نہیں ہوگی مولانا کے اس مشن کو پورا کرنے اور آپ کے ادھورے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے بھری پوری ملت سے ایک عالم بھی نہ اٹھ سکے گا
اف خدایا! کیسا دور قحط الرجال ہے!
احمد فراز کے کچھ اشعار پتہ نہیں کس کے لیے کہے گئے تھے، پر آج اس کا ہر شعر مولانا پر یوں چست و چسپاں ہورہا ہے گویا فراز نے مولانا ہی کے انتقال پر لکھے ہوں ملاحظہ فرمائیں
ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دکھا گیا
کہ شام غم تو کاٹ لی سحر ہوئی چلا گیا
ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آگئی
وہ اک دیا بجھا تو سینکڑوں دیئے جلا گیا
سکوت میں بھی اس کے اِک ادائے دل نواز تھی
وہ یارِ کم سخن کئی حکایتیں سنا گیا
اب اک ہجومِ عاشقان ہے ہر طرف رواں دواں
وہ اک رہ نورد خود کو قافلہ بنا گیا
دلوں سے وہ گزر گیا شعاعِ مہر کی طرح
گھنے اداس جنگلوں میں راستہ بناگیا
شریکِ بزم دل بھی ہیں چراغ بھی ہیں پھول بھی
مگر جو جان انجمن تھا وہ کہاں چلا گیا۔