Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 20, 2018

پیر ذوالفقار احمد نقشبندی۔مختصر و جامع سوانح حیات۔

حضرت جی پیر ذوالفقاراحمد نقشبندی دامت برکاتہم
۔______________________
ندیم الواجدی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
س دورِ قحطِ الرجال میں حضرت مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی کا وجود کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں وہ اس امت کا ایک زندہ معجزہ ہیں انہیں دیکھ کر خدا یاد آتا ہے اور ان کی باتیں سن کر دلوں میں سوز اور تڑپ پیدا ہوتی ہے ۔ یہ صرف میں ہی نہیں کہہ رہا بلکہ تقریباً یہی جملے ہر اس شخص کی زبان پر ہیں جس نے ان چار دنوں میں سے کوئی ایک لمحہ بھی ان کے ساتھ گزار لیا ہے یا ان کی باتیں دل کے کانوں سے سن لی ہیں۔ واقعی کوئی زمانہ اﷲ کے نیک بندوں سے خالی نہیں رہتا ، اس کے ساتھ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اﷲ اپنے بندوں میں سے جس سے چاہے بڑے سے بڑا کام لے لیتا ہے، ماضی قریب میں جو کام سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکیؒ نے تھانہ بھون کی خانقاہ میں کیا، ان کے بعد جو کام ان کے باکمال خلفاء حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ پھر ان حضرات کے خلفاء شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن گنگوہیؒ ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور ان حضرات کے بالواسطہ یا بلاواسطہ جانشینوں نے کیا آج وہی کام پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی انجام دے رہے ہیں، اصل میں تو یہ کام حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی ؒ کی روحانی اولاد کا تھا جو دار العلوم دیوبند سمیت ہزاروں مدارس میں بکھری ہوئی ہے لیکن انجام دے رہے ہیں شیخ ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی جو اصطلاحی معنوں میں اس روحانی سلسلے سے وابستہ نہیں اور نہ اس سلسلۂ زریں کے باقاعدہ فیض یافتہ ہیں۔ ہوسکتا ہے شیخ کی آمد اسی بھولے ہوئے سبق کو یاد دلانے کے لیے ہو ، جس طرح لوگ ان کی مجلسوں میں ٹوٹ کر پڑے اور جس طرح ذوق و شوق کے کانوں سے ان کے مواعظ کا ایک ایک لفظ انہوں نے سنا اور دل میں اتارا اس سے پتہ چلتا ہے کہ راہ حق کے طلب گاروں کی کمی نہیں ہے تشنگان شوق بھی بے شمار ہیں بس ایک راہنما کی ضرورت ہے جو ہاتھ پکڑ کر منزل پر پہنچا دے اور ایک صاحب دل ساقی کی ضرورت ہے جو ’’مئے حق‘‘ پلا کر تشنہ کاموں کی پیاس بجھا دے۔
لفظ’’ پیر‘‘ سے لگتا ہے کہ وہ کوئی بہت ہی بوڑھے اور عمر رسیدہ بزرگ ہوں گے جنہیں لوگوں کے سہارے سے چلنا پڑتا ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے وہ ابھی ساٹھ سال کے بھی نہیں ہوئے ماشاء اﷲ صحت بھی اچھی ہے، بلند قد و قامت اور معتدل جسامت کے ساتھ ان کی صحت قابل رشک ہے۔ ہم نے اپنے بہت سے بزرگوں کو دیکھا ہے جن پر نگاہ پڑتی تھی تو ہٹنے کا نام نہیں لیتی تھی، بعینہٖ یہی کیفیت پیر صاحب کی ہے، چہرہ ایسا منور تر وتازہ اور شاداب کہ نگاہ پڑے تو ہٹنا بھول جائے ، لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ آنکھوں میں یاد الٰہی کا سوز اور تڑپ ، طبیعت میں حد درجہ انکسار اور تواضع ، اپنی ہر ادا سے گہری چھاپ چھوڑنے والی شخصیت ، اہل دیوبند کو مدتوں یاد رہے گی۔
مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی کی پیدائش 1953ء کو صوبہ پنجاب پاکستان کے شہر جھنگ میں ایک کھرل خاندان میں ہوئی، ان کے والدین نہایت دین دار اور عبادت گزار تھے، گھر میں نماز ، تلاوت کا بڑا اہتمام تھا، یہاں تک کہ تہجد کی بھی پابندی ہوتی تھی، اپنی والدہ محترمہ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’والدہ ماجدہ بھی پابند صوم و صلوٰۃ  تھیں، راقم جب تین برس کی عمر کا تھا تو رات کے آخری پہر میں والدہ صاحبہ کو بستر میں موجود نہ پا کر اٹھ بیٹھتا ، دیکھتا تھا کہ وہ سرہانے کی طرف مصلّٰی بچھا کر نماز تہجد پڑھنے میں مشغول ہیں، راقم منتظر رہتا کہ نماز کب ختم ہوگی، والدہ صاحبہ نماز کے بعد دامن پھیلا کر اونچی آواز سے رو رو کر دعائیں مانگتیں، راقم نے اپنی زندگی میں تہجد کے وقت جس قدر اپنی والدہ صاحبہ کو روتے دیکھا ہے کسی اور کو اس قدر روتے نہیںدیکھا ، بعض اوقات والدہ صاحبہ راقم کا نام لے کر دعائیں کرتیں تو راقم خوشی سے پھر بستر پر سو جاتا۔‘‘ (حیات حبیب ص 744)
یقینا یہ والدہ محترمہ کی دعائے سحر گہی اور نالۂ نیم شبی کا نتیجہ ہے کہ آج ان کے بیٹے کا نام پورے عالم میں گونج رہا ہے اور ان سے دلوں کی اصلاح کا کام لیا جارہا ہے۔
مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی کی تعلیم اسکولوں اور کالجوں میں ہوئی۔ انہوں نے کئی عصری کورس کئے 1972ء میں بی ایس سی الیکٹریکل انجینئر کی ڈگری حاصل کرکے اسی شعبے سے وابستہ ہوگئے، پہلے اپرنٹس الیکٹریکل انجینئر ، پھر اسسٹنٹ الیکٹریکل انجینئر بنے ، اس کے بعد چیف الیکٹریکل انجینئر بن گئے ، جس زمانے میں وہ انجینئر بن رہے تھے اس زمانے میں جمناسٹک ، فٹ بال ، سوئمنگ کے کیپٹن اور چمپیئن بھی رہے۔ ان حالات میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کوئی طالب علم دین کی طرف مائل بھی ہوسکتا ہے، مگر یہ معجزہ ہوا، انہوں نے عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ ناظرہ بھی پڑھا ، ابتدائی دینیات ، فارسی اور عربی کی کتابیں بھی پڑھیں ، قرآن کریم بھی حفظ کیا، یہاں تک کہ جب وہ لاہور یونیورسٹی  میں زیر تعلیم تھے ان کا تعلق عمدۃ الفقہ کے مصنف حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحبؒ سے ہوگیا، جو نقشبندیہ سلسلے کے ایک صاحب نسبت بزرگ تھے، شیخ ذوالفقار احمد نے ان سے مکتوبات مجدد الف ثانی سبقاً سبقاً پڑھی، ان کی وفات کے بعد وہ حضرت مرشد عالم خواجہ غلام حبیب نقشبندی مجددی ؒ کے دامن سے وابستہ ہوگئے، یہ 1980ء کی بات ہے، 1983ء میں خلافت سے سرفراز کئے گئے، اس دوران انہوں نے جامعہ رحمانیہ جہانیاں منڈی اور جامعہ قاسم العلوم ملتان سے دورۂ حدیث کی اعزازی ڈگری بھی حاصل کی ، اپنے مرشد کی وفات کے بعد وہ پوری طرح دین کے کاموں میں لگ گئے ، کئی سال امریکہ میں گزار کر اب مستقل طور پر جھنگ میں مقیم ہیں، لڑکوں اور لڑکیوں کے متعدد دینی ادارے ان کی سرپرستی اور اہتمام میں چل رہے ہیں، پچاس سے زائد ملکوں کے اصلاحی و تبلیغی دورے بھی کرچکے ہیں، ہر وقت سرگرداں رہتے ہیں، دینی و عصری علوم کی جامعیت حضرت والا کی امتیازی خصوصیت ہے، انگلش زبان پر عبور حاصل ہے انہیں دینی علوم کو عصری اسلوب میں اور مخاطب کی زبان میں پیش کرنے کا غیر معمولی طور پر ملکہ حاصل ہے، ہر سال رمضان المبارک کا مہینہ (صرف آخری عشرہ) افریقی ملک زمیبیامیں گزرتا ہے، جہاں حضرت اپنے مریدین اور خلفاء کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ اعتکاف فرماتے ہیں۔ہر سال حج کے ایام میںمکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مجلسیں لگتی ہیں اور بے شمار عقیدت مند،ان مجلسوں میں ان سے استفادہ کرتے ہیں، گویا سال کے بارہ مہینے ان کا فیض جاری رہتا ہے۔
مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی کو علماء دیوبند سے بڑی عقیدت ہے اور یہ عقیدت ان کی ہر تقریر اور تحریر سے جھلکتی ہے آپ ان کی کوئی بھی تقریر سن لیں، یا کوئی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو علماء دیوبند کا ذکر ضرور ملے گا، یہ عقیدت ہی ان کے ہندوستان آنے کا سبب بنی ، افسوس انہیں بعض مقامات کا ویزہ نہیں مل سکا ، ورنہ تھانہ بھون ، گنگوہ، نانوتہ، رائے پوراور سہارن پور جیسے مقامات پر جہاں کبھی بزرگوں کی خانقاہیں ہوا کرتی تھین ان کا دل جانے کے لیے بڑا بے چین رہا، جب کوئی سبیل جانے کی نہ نکل سکی تو دہلی سے دیوبند کا سفر انہوں نے شاملی اور تھانہ بھون کے راستے کیا تاکہ اگر ان بستیوں میں اندر نہ جاسکیں تو کم از کم ان بستیوں کے باہر سے تو گزر جائیں۔ علماء دیوبند کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے جذبات قابو میں نہیں رہتے ، خود بھی روتے ہیں اور سننے والوں کو بھی رلا دیتے ہیں وہ باربار کہتے ہیں کہ اکابر علماء دیوبند تو صحابۂ کرام ؓ کی مقدس جماعت کے وہ افراد ہیں جنہیں اﷲ نے چودہ سو سال بعد پیدا فرمایا تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ میرے حبیب ﷺ کے صحابہؓ ایسے ہوا کرتے تھے۔
حضرت کی زبان میں تاثیر بہت ہے ، تقریریں تو بہت لوگ کرتے ہیں ، گھنٹوں گھنٹوں کرتے ہیں، الفاظ کا سماں باندھ دیتے ہیں لیکن جب لوگ مجلسوں سے اٹھتے ہیں تو ان کے پلے کچھ بھی نہیں ہوتا ، جیسے آئے تھے ویسے ہی رخصت ہوجاتے ہیں۔ حضرت پیر صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عام سی، سادہ سی باتیں اس سوز کے ساتھ کرتے ہیں کہ دل پر اثر انداز ہوتی ہیں، ہرچہ از دل خیزد بردل ریزدکا صحیح مشاہدہ حضرت پیر صاحب کی تقریریں سن کر ہوا، وہی باتیں جو باربار کتابوں میں پڑھیں ، وہی قصے جو زندگی بھر پڑھتے اور سنتے رہے ان کی زبان سے سنے تو بالکل نئے محسوس ہوئے ، ان کی آواز کا سوز ، اور دل کا اخلاص سننے والے کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ہزاروں کامجمع تقریر کے دوران بالکل ساکت و صامت ہوجائے اور ماحول پر ایسا سناٹا طاری ہوجائے کہ سوئی گرے تو اس کے گرنے کی آواز سنائی دے ، حضرت پیر صاحب جب تقریر شروع کرتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے اور بدشوق سے بدشوق انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب تقریر شروع ہوئی اور کب ختم ہوگئی، دو ڈھائی گھنٹے کس طرح منٹوں میں گزر گئے۔
تقریریں تو بہت سنی ہیں ، لیکن اتنی جامع ، مرتب، حسب حال اور پر اثر تقریریں کم ہی سنی ہیں۔ حضرت کے ایک خلیفہ نے راقم کے استفسار پر بتلایا کہ حضرت پیر صاحب ہر تقریر سے پہلے مکمل تیاری کرتے ہیں، نوٹس تیار کرتے ہیں ، احادیث کا متن نوٹ کرتے ہیں، حوالے تلاش کرتے ہیں، حسب حال واقعات اور اشعار کے ذریعے اپنی ہر تقریر کو سجاتے سنوارتے ہیں، تقریر سے کچھ دیر پہلے تنہائی اختیار کرلیتے ہیں اور رب کریم سے رو رو کر دعا کرتے ہیں کہ اے اﷲ میری تقریر میں اثر دے ، میری زبان میں حق بات کہنے کی صلاحیت پیدا فرما ، حضرت پیر صاحب خود فرماتے ہیں کہ میں الہامی تقریر نہیں کرسکتا، رات رات بھر مطالعہ کرنے کے بعد سامعین کو مخاطب کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریر موضوع کے دائرے میں رہتی ہے ، حشو و زوائد سے پاک اور نہایت مرتب، حضرت پیر صاحب کی تقریروں میں حکیم الامت حضرت تھانویؒ کا رنگ جھلکتا ہے، جن کے وعظ ہم نے سنے نہیں ہیں پڑھے ضرور ہیں، جو حضرت کے باکمال شاگردوں نے کئی کئی گھنٹے بیٹھ کر من و عن نقل کئے، ماضی قریب میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ کی تقریریں بھی سادگی، پرکاری، شگفتگی، اثر انگیزی اور برجستگی کے لحاظ سے بے نظیر تھیں، راقم کو حضرت ؒ کی مجلسوں میں بیٹھنے اور ان کی تقریریں سننے کی سعادت حاصل رہی ہے، حضرت پیر صاحب کی تقریریں سن کر مجھے اپنے ان دونوں بزرگوں کی یاد آگئی، اﷲ نے آج  حضرت پیر صاحب کو یہ خصوصیت عطا کی ہے بلاشبہ یہ کوئی کسبی ملکہ نہیں ہے بلکہ خالص وہبی چیز ہے اﷲ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔
حضرت پیر صاحب جدید تعلیم یافتہ طبقے کو متاثر کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں، ان کا مطالعہ بڑا وسیع ہے، مشاہدہ گہرا ہے، وہ مغربی تہذیب کے مظاہر دیکھ چکے ہیں ، اس کی برائیوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور دینی تعلیم کی برکت سے ان برائیوں کا علاج بھی خوب جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے استفادہ کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد ڈاکٹروں ، انجینئروں اور عصری علوم سے وابستہ لوگوں کی بھی ہے۔ یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ جس قدر جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان کی طرف بڑھ رہا ہے اسی قدر دینی تعلیم سے وابستہ لوگ بھی ان کے دامن سے وابستہ ہورہے ہیں۔ آج سے چند سال پہلے انہیں کوئی جانتا بھی نہیں تھا،خاص طور پر ہندوستان میں تو ان سے کوئی واقف بھی نہیں تھا ، دس پندرہ سال پہلے وہ کسی کے ساتھ دیوبند آئے اور گھوم پھر کر چلے گئے نہ کسی نے ان کی آمد کا نوٹس لیا اور نہ نظر بھر کے ان کی طرف دیکھا ، اچانک ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا ،اور جس طرح مشک کی خوشبو مہکتی ہے اسی طرح ان کے وجود کی خوشبو مہکنے لگی۔ یہ خوشبو سرحدوں سے نکلی اور دور دور تک پھیل گئی ، آج شاید ہی کوئی جگہ ایسی ہو جہاں یہ خوشبو نہ پہنچ رہی ہو اور مشام جاں کو معطر نہ کررہی ہو۔ اس میں بہت کچھ دخل ان تقریروں کا ہے جو مولانا صلاح الدین سیفی کے ذریعے مرتب ہو کر پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔ ہندوستان کے گجرات سے تعلق رکھنے والے مولانا صلاح الدین نے ان کو کس طرح دریافت کیا، بقول ان کے وہ ہند میں سب سے پہلے بکنے والوں میں ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ دس بارہ سال قبل وہ تقریروں کا مجموعہ لے کر میرے پاس تشریف لائے اور اس کو دار الکتاب سے شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی، میں نے مقرر کا نام دیکھ کر معذرت پیش کردی ۔ دراصل میرے لیے یہ نام بالکل اجنبی تھا ، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تصوف کے موضوع پر ہمارے اکابر کے علاوہ بھی کسی کی تقریر یا تحریر قابل اشاعت ہوسکتی ہے مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ جس مجموعے کو میں مقرر کا نامانوس نام دیکھ کر واپس کررہا ہوں وہی مجموعہ اور اس جیسے بیسیوں مجموعے خود دیوبند سے شائع ہوں گے اور ان کو عوام و خواص میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوگی۔ حضرت پیر صاحب دوسری بار جب ہندوستان آئے تو ان کی شہرت و عظمت کاسکہ لوگوں کے دلوں پر بیٹھ چکا تھا، آج وہ جہاں جا رہے ہیں عقیدت مندوں کی بھیڑ انہیں سر آنکھوں پر بٹھا رہی ہے۔
دیوبند میں ان کے تین بڑے اجتماعات ہوئے، تینوں میں حاضرین کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے اگر یہ کہا جائے کہ اجتماع گاہوں میں سر سے سر بج رہا تھا تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا ، تینوں جگہ انہوں نے الگ الگ موضوع پر خطاب کیا لیکن تینوں موضوع کا تعلق ایک ہی موضوع سے تھا جسے ہم تصوف و طریقت ، سلوک اور احسان کہتے ہیں، یہ ایک ہی مفہوم کے مختلف عنوانات ہیں۔ عام طور پر تصوف کے بارے میں بڑی غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تصوف کا مقصود محض ذکر ہے، آپ جب کسی شیخ سے بیعت کرتے ہیں تو وہ آپ کو کچھ اذکار  و  اور اد  بتلا دیتا ہے آپ ان اذکار  و  اوراد  کا اہتمام کرتے ہیں ، صرف یہ چیز تصوف نہیں ہے، بعض لوگ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ تصوف مراقبے ، مجاہدے ا ور چلہ کشی کرنے کا دوسرا نام ہے، یہ بھی بڑی غلط فہمی ہے، ذکر اور مجاہدہ اصلی نہیں ہے اصل مقصود وہ ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی اس آیت میں بیان فرمایا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس 9)
’’وہ شخص کامیاب ہوا جس نے نفس کا تزکیہ کرلیا۔‘‘
اور جس کا ذکر ہمیں اس ارشاد ربانی میں ملتا ہے:
وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ (البقرۃ 129)
’’اور وہ رسول ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں۔‘‘
ان دونوں آیتوں میں تزکیے کا ذکر ہے جس کے معنی ہیں پاک صاف کرنا ۔ شریعت کی اصطلاح میں تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ جس طرح انسان کے ظاہری اعمال و افعال ہوتے ہیں اور ان کے بارے میںا ﷲ تعالیٰ کے اوامر و نواہی ہیں جیسے نماز پڑھو ، روزہ رکھو ،حج کرو، زکوٰۃ دو، جھوٹ نہ بولو ، شراب نہ پیو، زنا نہ کرو، چوری نہ کرو، غیبت اور چغل خوری نہ کرو، ان اوامر و نواہی کا تعلق بندوں کے ظاہری اعمال سے ہے، اسی طرح انسان کے باطن یعنی قلب سے متعلق بھی کچھ اوامر و نواہی ہیں، ان اوامر کو انجام دینا بھی واجب ہے اور ان نواہی سے بچنا بھی واجب ہے، جیسے تواضع ، اخلاص ، توکل، صبر وغیرہ اوامر ہیں، تکبر ، حسد، ریاکاری  وغیرہ نواہی ہیں ،ا ن میں سے اول الذکر کو فضائل اور اخلاق فاضلہ کہتے ہیں، ثانی الذکر کو  رذائل اور اخلاق رذیلہ کہا جاتا ہے۔ حضرات صوفیاء اور مشائخ کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے مریدین کے دلوں میں اخلاق فاضلہ کی آب یاری کرتے ہیں اور اخلاق رذیلہ کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتے ہیں یہی تزکیہ ہے۔ اسلامی نظام حیات میں تزکیۂ نفس کی اہمیت اور ضرورت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے ، عقائد، عبادات ، اخلاق و معاملات ، ہر شعبے میں اس کی ضرورت مسلّم ہے۔
تصوف و سلوک کی تعلیم بھی بہت ضروری ہے، اس تعلیم سے سالک کی زندگی پر بڑا خوش گوار اثر مرتب ہوتا ہے، اﷲ تعالیٰ سے اس کا تعلق مضبوط ہوجاتا ہے ، اس کے اندر اتباعِ سنت کا جذبۂ کامل پیدا ہوجاتا ہے، اس کے شخصی حالات ، اس کے اخلاق ، اس کے معاملات سب شریعت کے دائرے میں آجاتے ہیں، اس کی زندگی کا نصب العین آخرت کی فوز و فلاح بن جاتا ہے، دنیا کی بے وقعتی اس کے قلب و نظر میں سما جاتی ہے اس کے اندر مخلوق کی خیر خواہی کا جذبہ اس حد تک پیدا ہوجاتا ہے کہ مخلوق کو ایذاء دینا تو ایک طرف مخلوق کی ایذاء کے تصور سے بھی اس کی روح کانپ اٹھتی ہے، بالکل ایک نئی شخصیت ابھر کر نکھر کر سامنے آتی ہے۔
سلوک و معرفت کے جتنے بھی سلسلے ہیں سب کے مشائخ یہی ایک کام کررہے ہیں ، یعنی دلوں کی دنیا آباد کررہے ہیں اور انہیں خدا سے قریب کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں سب کا انداز جدا جدا ہے، مگر ایک چیز سب کے یہاں قدر مشترک کے طور پر ہے اور وہ ہے اﷲ کے ذکر پر مداومت اور اس کے ذریعے باطن کی اصلاح و تعمیر، یہ وہ نسخہ ہے جو خود سرکار دو عالم ﷺ نے صحابہؓ کے لیے تجویز فرمایا تھا۔ ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے :حضرت عبداﷲ بن بسر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے سرکار دوعالم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اﷲﷺ نفلی عبادات اتنی زیادہ ہیں کہ میں تمام عبادات انجام دینے کی اپنے اندر ہمت نہیں پاتا آپ میرے لیے کوئی ایسی چیز تجویز فرمادیں کہ میرا شوق بھی پورا ہوجائے اور عباداتِ نافلہ کی ادائیگی میں کمی بھی باقی نہ رہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کا علاج یہ ہے کہ تمہاری زبان اﷲ کے ذکر سے ہمیشہ تر رہے۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن کریم میں اس طرح فرمائی گئی:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذْکُرُ اﷲَ ذِکْرًا کَثِیْرًاo وَّ سَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً o
’’اے ایمان والو اﷲ کا بہت زیادہ ذکر کیا کرواور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کیا کرو۔‘‘
کبھی ارشاد فرمایا :
اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اﷲَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدً وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ (آل عمران 191)
’’یہ وہ لوگ ہیں جو اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے اﷲ کا ذکر کرتے ہیں ۔‘‘
ان آیات مبارکہ سے دو باتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں ، ایک یہ کہ اﷲ کا ذکر ہر حال میں کرو اور دوسرے یہ کہ ہر وقت کرو صوفیائے کرام کا کام ہی یہ ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے لوگوں کو ذکر الہی اور یاد الہی کی طرف مائل کرتے ہیں اور اس راستے سے انہیں قرب الہی تک لے جاتے ہیں جو مومن کا اصل مقصود ہے اور جو دین و دنیا میں فلاح و کامرانی کی دلیل ہے۔ حضرت پیر ذوالفقار نقشبندی اسی ذکر کا پیغام لے کر آئے اور دے کے چلے گئے ، انہوں نے ہمیں کوئی نیا سبق نہیں دیا بلکہ ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلایا ۔ہمارے مدارس کا مقصدِ تاسیس ہی ظاہر کی تعمیر اور باطن کی تطہیر ہے۔ دار العلوم کے اولین معماروں کی اور ان کے بعد آنے والے بزرگوں کی نظر اسی مقصد پر رہی۔ یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم کی فضائیں قال اﷲ و قال الرسولﷺ کے نغموں سے بھی گونجا کرتی تھیںاور اﷲ اﷲ کی ضربوں سے بھی۔ دار العلوم کا ایک دور وہ بھی تھا جب یہاں کے شیخ الحدیث سے لے کر دربان تک عابد شب زندہ دار اور تہجد گزار لوگ ہوا کرتے تھے ، یہ وہ سبق ہے جو  اب فراموش ہوچکا ہے عجب نہیں کہ اﷲ نے یہ بھولا ہوا سبق یاد دلانے ہی کے لیے شیخ کو یہاں بھیجا ہو۔
شیخ کی مجلسوں میںجس طرح لوگ پہنچے اور جس ذوق و شوق کے ساتھ ان کو سنا اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں میں تشنگی کا احساس ہے ان کے دل بے چین ہیں، اور ان کی نگاہیں کسی مرشد کامل کے انتظار میں ہیں۔ علماء کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں مقرر بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہیں لکھنے والے بھی بے شمار ہیں مگر اس ہجوم میں کوئی صاحب دل نہیں ہے اﷲ کی حقیقی معرفت رکھنے والا نہیں ہے کوئی ایسی ہستی نہیں جس کا سینہ جذبۂ سوز دروں سے معمور ہو اور جس میں عشق الٰہی کی آگ سلگ رہی ہو ، وہ آئے اور سب کو عشق الٰہی کی روشنی دکھلا کر چلے گئے اب یہ ہم پر موقوف ہے کہ ہم روشنی میں کب تک چلتے ہیں دوسرے لفظوں میں ہم یہ بات اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو سبق شیخ نے ہمیں یاد دلایا اسے ہم کب تک یاد رکھتے ہیں۔