خدا کا گھر وہ گرا کے ظالم یہ کیسا مندر بنا رہے ہیں
از: حضرت قاری صدیق احمد باندویؒ
------------------------------
ہے مفتی رومیؔ کا سب یہ صدقہ ‘ کلام ہم جو سنا رہے ہیں
نہیں ہیں فرضی یہ قصے ہرگز ہم آپ بیتی سنا رہے ہیں
غلام بن کر جو جی رہے تھے ‘ امان دی تھی جنھیں ہمیں نے
صلہ وہ ہم کو یہ دے رہے ہیں غلام اپنا بنارہےہیں
یہ ظالموں کا ستم تو دیکھو ہمارا پھر بھی کرم تو دیکھو
ہماری آبادی کرکے ویراں وہ اپنی بستی بسا رہے ہیں
بچائی تھیں ہم نے جن کی جانیں وہ جن کے بچوں کو ہم نے پالا
وہ خوں ہمارا بہا رہے ہیں ہمارے گھر کو جلا رہے ہیں
جنھیں بنایا تھا ہم نے بھائی‘ گلے لگایا تھا جن کو ہم نے
بنے ہیں ایسے وہ آج دشمن ‘ گلوں پہ چھریاں چلا رہے ہیں
زمیں ہماری چمن ہمارا، یہاں بہا ہے لہو ہمارا
ستم ظریفی یہ ان کی دیکھو، چمن وہ اپنا بتا رہے ہیں
ہمارے دشمن ستائیں ہم کو، وہ جتنا چاہیں دبائیں ہم کو
خدا نے چاہا تو روئیں گے کل، جو آج ہم کو رُلا رہے ہیں
نکالنے کو وہ اپنا مطلب، کبھی تو کہتے ہیں ہم کو بھائی
ہمارے گھر کے دیے بُجھا کر پھر اپنی شمعیں جلا رہے ہیں
کسی کا اس میں ہے کیا اجارہ! خدا کے ہم ہیں خدا ہمارا
ستم جو ہم پر ہوئے ہیں اب تک ‘ خدا کو اپنے سنا رہے ہیں
وہ میر باقی کی تھی جو مسجد، جو عہد بابر کی تھی نشانی
خدا کا گھر وہ گرا کے ظالم یہ کیسا مندر بنا رہے ہیں
کلام پُر درد ہے یہ کتنا، سُنا رہے ہیں ہمیں جو ثاقبؔ
کہ بزم ساری وہ رورہی ہے، وہ خود بھی آنسو بہا رہے ہیں۔
. . . . . . . . . . . . صدائے وقت۔. . . . . .