Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 31, 2018

ویدک کال(زمانہ وید) کی عورت۔۔مظلومیت کی تصویر۔۔


محمد مشتاق فلاحی کی تحریر۔صدائے وقت/ مولانا سراج ہاشمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ملک میں حالیہ وقت میں طلاق ثلاثہ پرپیدا شدہ مصنوعی حالات ،ملک کا الکٹرانک و پرنٹ میڈیا اورBJPحکومت کی جانب سے مسلمان خواتین کی حالت پر مگر مچھ کے آنسو بہانے کی ناکام کوشش کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ مذکورہ تمام ادارے اور اشخاص خواتین کے بارے میں نیک نیتی رکھتے ہیں،بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام اور اہل اسلام کو مجرم کے کٹگھرے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔خواتین کے حقوق کی دہائی دینے والے یہ وہ لوگ ہیں جو بھارت میں ویدک کال کی بات کرتے ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں کہ ویدک کال میں عورتوں کی کیا صورت حال تھی،تاکہ یہ معلوم ہو کہ خواتین کہاں مظلوم ہیں۔
ہندو مائتھا لوجی سے جو کامل ترین عورت کا مثالیہ بیان کیا جا سکتا ہے اس میں لا محالہ اوشا، سیتا، پاربتی، دروپدی، شکنتلااور دمینتی کا تذکرہ لازماً آئے گا۔
رگ وید دنیا کی قدیم ترین مذہبی کتاب کہی جاتی ہے جسے ہندو¿وں میں مقدس سمجھاجاتا ہے ۔یہ وید چار ہیں۔ رگ وید،یجر وید،سام وید اور اتھر وید۔ان کے علاوہ برہمنی مذہب میں دیگر جن کتابوں کو مقدس مانا جاتا ہے ان میں دوطویل رزمیہ نظمیں رامائن اور مہابھارت اور اپنشد ( ویدوں کی تفاسیر)اور ۸۱ پران ہیں۔
ان مذہبی کتابوں میں دیوتاو¿ں کے ساتھ ساتھ دیویوں کا ذکر بھی ملتا ہے ۔لیکن یہ بات حیرت انگیز ہے کہ دیویوں کا ذکر اس انداز میں ملتا ہے کہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ تذکرہ کسی مقدس ہستی کا ہورہا ہے یا کسی طوائف کا۔مثلاً ویدوں کے شاعر دیوی اوشا کا سراپا یوں بیان کرتے ہیں:”اوشا ایک حسین دوشیزہ کے مانند(ہے)جسے اس کی ماں کبھی ہیرے جواہرات سے سجا کر چنچل رقاصہ کے روپ میں پیش کرتی ہے اور کبھی زرق برق لباس عروسی زیب تن کرکے خاوند کے روبرو آنے والی لجاتی شرماتی دلہن کی صورت میں لاتی ہے اور کبھی ایسی نوخیز جواں سال لڑکی کی شکل میں سامنے لاتی ہے جو ابھی ابھی نہا دھوکر غسل خانہ سے باہر آتی ہے۔وہ مسکراہٹیں بکھیرتی،ناز وانداز سے گرویدہ بناتی ۔چشم تماشا کے سامنے اپنا سینہ کھول دیتی ہے۔“یہ محض کتابی بات نہیں ہے بلکہ غیرمسلم عوام میںخواتین کے لباس کو دیکھا جائے تو اس کا اندازہ ہوجاتا ہے۔خاص کروہ خواتین جنہیں ماضی میں شودر ہونے کی وجہ سے آبادیوں سے باہر رہائش اختیار کرنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
برہمنی کتابوں میں عورت کی حالت
۱)”رات دن عورت کو پتی کے ذریعہ سے بے اختیار رکھنا چاہیے ۔لڑکپن میں باپ اور جوانی میں شوہر اور بڑھاپے میں بیٹا عورتوں کی حفاظت کرے،کیوں کہ عورتیں خود مختار ہونے کی کوئی چیز نہیں۔“(منوسمرتی)
۲)برہمن مذہب میں عورت کو کبھی سچ کے قابل نہیں سمجھا گیا ”جھوٹ بولنا عورت کا ذاتی خاصہ ہے۔“(منوسمرتی)
۳)اختیارات کے باب میں عورت کو مستقل مرد کا غلام بنانے کی تعلیم دی گئی۔:”عورت نابالغ ہو،جوان یا بوڑھی ہو ،گھر میں کوئی کام خود مختاری سے نہ کرے ،عورت لڑکپن میں اپنے باپ کے اختیار میں رہے،اور جوانی میں اپنے شوہر کے اختیار میں اور بعد میں اپنے شوہر اور بیٹے کے اختیار میں ،خود مختار ہوکر کبھی نہ رہے۔“(پردہ)
۴)ڈاکٹر خالد علوی برہمن دھرم میں عورت کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”ستی کی رسم خود اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت کی کوئی حیثیت نہیں ہے،عورت کو خلع اور وراثت کا کوئی حق نہیں،اس کے رشتہ دار جائداد لیں گے لیکن اس کو کوئی حصہ نہیں ملے گا،اسے مذہبی تعلیم سے بھی محروم کیا جاتا تھا،سنسکرت میں لڑکی کو”دوہتر(دور کی ہوئی)اور بیوی کو ”پتنی“(مملوکہ)کہا جاتا ہے۔“(منوسمرتی ،ادھیائے ۳، اشلوک۱۶)
۵)شوہر بیوی کو چھوڑ سکتا ہے،گروی رکھ سکتا ہے،بیچ سکتا ہے،لیکن عورت کو اس طرح کے اختیار نہیں ہیں۔کسی بھی حالت میں نکاح کے بعد بیوی ہمیشہ بیوی ہی رہتی ہے۔(منوسمرتی،باب ۹،اشلوک۵۴)
۶)مال ودولت اور ملکیت کے حقوق اور دعو¿وں کے لیے شودر کی عورت بھی داس ہے ،عورت کو جائداد رکھنے کا اختیار نہیں ہے۔ عورت کی جائداد کامالک اس کا شوہر،باپ یا بیٹا ہے۔(منوسمرتی باب۹،اشلوک ۶۱۴)
۷)”جھوٹ جس طرح ناپاک ہے ،اسی طرح عورتیں بھی ناپاک ہیں،یعنی پڑھنے پڑھانے کا وید منتر بولنے کا عورتوں کا حق نہیں ہے۔“(منوسمرتی باب ۲،اشلوک۶۶)
۸)”مذہبی کام(یگیہ) کرنے والی یا ویدکی اشلوک پڑھنے والی عورتوں سے کسی برہمن کو کھانا نہیں لینا چاہیے،عورتوں کے لیے کیے ہوئے مذہبی کام ناپاک ہونے کی وجہ سے دیو¿وں کو قبول نہیں ہے۔“(منوسمرتی باب ۴،اشلوک ۶۔۵۰۲)
۹)مولانا معین الدین ندوی چانکیہ نیتی میں عورت کے متعلق جو ہدایات ہیں ان پر اپنے خیالات یوں تحریر کرتے ہیں:
(۱) جھوٹ بولنا،بغیر سوچے سمجھے کام کرنا،فریب،حماقت،طمع،ناپاکی،بے رحمی عورت کی جبلی عیب میں ہیں۔
(۲) شہزادوں سے تہذیب اخلاق،عالموں سے شیریں کلامی،قمار بازوں سے دروغ گوئی اور عورتوں سے مکاری سیکھنی چاہیے۔
(۳) آگ،پانی،جاہل مطلق،سانپ،خاندان شاہی اور عورت یہ سب موجب ہلاکت ہیں،ان سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
(۴)دوست،خدمتگار اور عورت ،مفلس آدمی کو جھوڑدیتے ہیںاور جب وہ دولت مند ہوجاتا ہے تو پھر اس کے پاس آجاتے ہیں۔(ستیا رتھ پرکاش،ص۳۱۱)
ایک غیر مسلم ڈاکٹر گستاو¿لی بان ہندو معاشرے میں عورت کے مقام کے حوالے سے لکھتے ہےں:”ہندو¿و ں کا قانون کہتا ہے کہ تقدیر،طوفان،موت،جہنم،زہر،زہریلے سانپ ،ان میں سے کوئی اس قدر خراب نہیں ہے جتنی عورت۔“(ستیا رتھ پرکاش،ص۳۱۱)
۰۱)”ساس سسر کی بے عزتی کرنے والی یا بلا وجہ لڑنے والی عورت پانی کی جونک ہوتی ہے اور شوہر کی اطاعت نہ کرنے والی عورت جوں ہوتی ہے۔اپنے شوہر کو چھوڑ کر دوسرے مرد سے ضرورت پوری کرنے والی عورت چمگادڑ،چپکلی اور دو منہ والا سانپ ہوتی ہے۔“(گروڈ پران،باب۵)
اسلامی قانون رجم کو غیر انسانی کہنے والے ذرا اس سزا کو دیکھیں:
۱۱)”جو عورت اپنی خوبصورتی اور عقل مندی کے غرور میں شوہر کو چھوڑکر بدچلنی کا شکار ہو،اس کو راجہ سب کے سامنے کتو¿وں سے نوچوائے۔“(منوسمرتی،باب ۸اشلوک۱۷۳)
ملک میں آئے دن ہونے والے زنا بالجبر کے ظالمانہ و بہیمانہ واقعات میں جس تیزی سے بڑھوتری ہوری ہے ،ایسا نہیں ہے کہ یہ حادثات ہےں ،بلکہ کمزورعورت کو اپنی ہوس کا شکار کرنے کے وہ گر ہیں جو ویدک زمانے سے چلے آرہے ہیں ۔انہی تعلیمات نے مردوں کو خواتین کے بالمقابل ظالم و جابر بنا دیا :
۲۱)”جس لڑکی نے ایام حیض کے بعد کپڑے تبدیل کرلیے وہ پاک ہے۔اب جب کہ لڑکی ایام حیض کے بعد کپڑے بدل لے تب اس (اُت کرشٹ)مقدس عورت کو جماع کی دعوت دینا چاہیے۔اگر وہ راضی نہ ہو تو اسے لالچ دو۔اگر وہ پھر بھی نہ مانے تو لاٹھی سے اس کی پٹائی لگاو¿یا اسے گھوسے مارو اور یہ کہتے ہوئے اسے قابو میں کر لو کہ میں اپنی مردانگی اور جمال سے تمہاری ”سُشما“لے رہا ہوں۔“(برہ دارنیہ کپ نیشد۔6-4-9-21)
۳۱)عورت پر بے اعتمادی محض آج کے غیر مسلم مردوں میں عام نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں ہمیںرامائن کی کہانی میں ملتی ہے ۔رامائن میں ایک طرف تو سیتا کے حصول کے لیے راجہ رام نے برہمن راجہ راون سے جنگ کی اورجب سیتا کو حاصل کرلیا تو اسے پاکیزگی ثابت کرنے کے لیے آگ سے گزر ناپڑا۔اس پر بھی بس نہیں کیا جب ایک دھوبی نے سیتا کے کردار پر شک ظاہر کیا تو سیتا کو ایسے حالت میں گھر سے باہر نکال دیا جب کہ وہ حاملہ تھی۔اگرہم رامائن کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ سیتا کی اگنی پرکشا اتنی مرتبہ ہوئی کہ بالآخر سیتا نے زمین کی پیٹھ کے بجائے اس کے پیٹ کو اختیار کیا۔
ملک میں ماضی بعید سے برہمن لابی کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنے جرائم کا کچرا ہمیشہ دوسروں کے سروں پر انڈیل دیتے ہیں۔یہی حال عورتوں کے باب میں بھی اختیار کیا کہ صنف نازک ہی کومورد الزام ٹھہرادیا کہ فساد کی اصل جڑ وہی ہے۔چنانچہ منو جی کہتے ہیں:
۴۱)”عورتیں پیدائشی طور پر ہوس کی بھوکی ہوتی ہیں۔وہ خوبصورتی کا امتحان نہیں لیتی،اور نہ ہی صورتحال نگاہ میں رکھتی ہے،خوبصورت ہو یا بدصورت،مرد ہونے کی وجہ سے ہی وہ اس سے ہم بستری کرتی ہے۔“(منوسمرتی،باب ۷ا شلوک۴۱)
خواتین کے حقوق کا راگ الاپنے والے کرشن کی حرکتوں کو کرشن لیلا کہہ کر آستھا کے رنگ میں چھپانا چاہتے ہیں۔حالانکہ جب اسی کرشن کے نام پر بابا آسارام نے لیلائیں شروع کی تو اسے گرفتار کرلیا۔
مہابھارت کی کہانی میں ایک جانب تو دروپدی کی عزت اور وقار کے نام پر جنگ کی گئی تو دوسری جانب اسی دروپدی کو پانچ شوہروں نے مل کر جوئے میں ہار دیا۔مزید سرِ دربار اسے برہنہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن سارا دربار تماشائی بنا رہا۔
۵۱)بیوہ عورت سے کنوارے مرد اور رنڈوے مرد سے کنواری عورت کی مناکحت جہاں بعید ازا نصاف ہے وہاں احکام دھرم کے بھی خلاف ہے۔(رگ وید ،منڈل،۰۱)
محرم رشتہ داروں سے ناجائز تعلقات :
ویدک دور میں عورتوں پر صرف ظلم ہی رواں نہیں رکھا گیا تھا بلکہ عورتوں کو اس قدر ذلیل کیا گیا کہ محرم رشتہ داریاں کو بھی ملحوظ نہیں رکھا گیا۔اس کی کچھ مثالیں درجہ ذیل میں ہیں۔
۱)”وششٹھ کی بیٹی شت روپا وششٹھ کو شوہر مان کر اس کے ساتھ رہی۔“(ہری ونش ،باب۲)
۲)”اندر اپنے پر پوتے جنمے جئے کی بیوی ”وپُشٹما“کے ساتھ رہا،اور یہ ظلم جنمے جئے نے برداشت کیا۔“(ہری بھوِشّئے پرو،باب ۵)
۳)”برہم دیو کے بیٹے نے اپنی بیٹی برہم دیو کو دی ،اس سے نارد کی پیدائش ہوئی۔“(ہری ونش باب۸:۳)
۴)خواتین کو کچھ وقت کے لیے کرایے پر دینے کا رواج بھی تھا۔راجہ ییاتی نے اپنے استاد گاو¿ل کو اپنی بیٹی مادھوی تحفہ میں دی۔استاد نے الگ الگ اوقات میں مادھوی کو دیگر تین راجاو¿ں کو کرایے پر دیا۔اس کے بعد اس سے نکاح کے لیے اسے وشوا متر کو دے دیا۔وہ بیٹے کی پیدائش تک وشوا متر کے پا س رہی۔اس کے بعد استاد گاو¿ل نے لڑکی واپس لے کر اس کے والد کو واپس کردیا۔“(ہری ونش پران،باب ۳)
۵)دوہِتر نے اپنی ۷۲بیٹیوں کو اپنے ہی باپ سوم کو اولاد کی پیدائش کے لیے دےدیا۔(نو بھارت ٹائمس،۲نومبر ۱۱۰۲ئ)
۶)لفظ ”کنیہ“کا وہ مطلب جو آج لیا جاتا ہے ،ویدک زمانے میں اس کا معنی کچھ اور ہی ہوتا تھا جو اس وقت کی برہمنی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔”ویدک زمانے میں ”کنیہ“کا مطلب تھا وہ لڑکی جو کسی بھی مرد کے ساتھ جسمانی تعلقات بنانے کے لیے آزاد ہو۔کنتی جو مہابھارت میں پانڈو¿وں کی ماں ہے،اس کی مثال ہے۔کنتی کے شادی سے قبل کئی بچے تھے جن میں سے ایک کرن تھا۔(نو بھارت ٹائمس،۲نومبر ۱۱۰۲ئ)
۷)ہندو پرانوں اور دیگر مذہبی کتابوں کے مطابق برہما نے اپنی بیٹی کے ساتھ زنا کیااور اسے اپنی بیوی بنایا،وشنو نے انوسویا اور شیو نے موہنی کے ساتھ زنا بالجبر کیا۔
نیوگ :
ملک کا برہمنی طبقہ جس ویدک دور کو بھارت کی تاریخ کا سنہری دور کہتا ہے اور اس کے قیام کا خواہش مند ہے ،اس میں بیوہ عورت ،بانجھ عورت کی کیا درگت تھی، اخلاق و حیا کا کیا معیار تھا،اس کا اندازہ مندرجہ ذیل تعلیمات سے لگائیں۔اگر شوہر اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تو وہ اپنی بیوی کو کسی دوسرے مرد سے جسمانی تعلقات پیدا کرکے اولاد پیدا کرنے کو کہہ سکتا ہے۔عورت اپنے شوہر ہی کی بیوی کہلائے گی او رہونے والی اولاد بھی اسی مرد کی ہوگی۔رگ وید ۰۱۔۰۱۔۰۱ میں آتا ہے:
۱)”جب خاوند اولاد پیدا کرنے کے ناقابل ہو ،تو اپنی بیوی کو ہدایت کرے کہ اے سہاگ کی خواہش مند عورت!تو میرے سوا کسی اور مرد کی خواہش کر(کیوں کہ اب مجھ سے اولاد کی پیدائش نہیں ہو سکتی )ایسی حالت میں عورت دوسرے مرد سے نیوگ کرکے اولاد پیدا کرے۔مگر اپنے ”عالی حوصلہ “شادی کیے ہوئے خاوند کی خدمت میں کمر بستہ رہے۔“(پردہ )
۲)رامائن و مہابھارت کال میں نیوگ کا عمل اتنا عام تھا کہ بادشاہ بھی اس پر عمل پیرا تھے،بلکہ اس کے لیے کسی باوقار اور پر جلال مرد کو تلاشتے تھے ،وجہ یہ تھی کہ نیوگ کے ذریعہ اولاد بھی اسی کی طرح پیدا ہو۔لہٰذا جب راجہ دشرتھ اپنی بیویوں کے لیے نامرد ثابت ہوئے تو انہوں نے اپنے وقت کے ایک بڑے پنڈت ”شرنگی“کو بلا کر اپنی بیویوں کوشلیا،کئیکئی اور سمترا کو پنڈت سے جسمانی تعلقات پیدا کرکے اولاد حاصل کرنے کو کہا۔اسی کے نتیجے میں راجہ دشرتھ کی نسل آگے بڑھی۔(رامائن)
۳)یہی معاملہ مہابھارت میں کنتی کے بارے میں ملتا ہے کہ جب اس کا شوہر پانڈو کمزور مرد ثابت ہوا تو کنتی نے دیگر تین مردوں سے جسمانی تعلقات استوار کیے جس سے یودھشٹر،بھیم اور ارجن پیدا ہوئے۔اور پانڈو کی دوسری بیوی ”مادری“نے بھی دو غیر مردوں سے اولاد حاصل کی جو کہ نکُل اور سہدیو کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
۴)اگر کسی مرد کی بیوی کا انتقال ہوگیا اور اس کی کوئی اولاد(نرینہ) نہیں ہے تو وہ مرد کسی بیوہ عورت سے جسمانی تعلقات کے ذریعہ اولاد حاصل کر سکتا ہے۔اس عورت کے حاملہ ہوجانے پر اس عورت اور مرد کے تعلقات منقطع ہوجائیں گے۔وضع حمل کے بعد عورت ۲یا ۳سال تک بچے کی پرورش کرکے مرد کے حوالے کردے گی۔اس طرح سے ایک بیوہ دو اپنے لیے،اور دو دو چار دیگر مردوں کے لیے یعنی کل دس بچے پیدا کر سکتی ہے۔اس کی تعلیم ویدوں میں ملتی ہے۔
”اے ویریسے چن ہار،طاقت ور مرد!تو اس شادی شدہ یا بیوہ عورتوں کو بہترین بیٹا دے اور ان کی قسمت کو کھول دے۔اس منکوحہ عورت سے دس بیٹے پیدا کراور گیارویں عورت کو سمجھ۔اے خاتون!تو بھی شادی شدہ مرد یا رنڈوے مرد وںسے دس بچے پیدا کر اور گیارواں شوہر کو سمجھ۔“(رگ وید :۰۱۔۵۸۔۵۴)
ایک بیوہ عورت خود کے لیے دو بچے غیر مرد سے اور دوسروں کے لیے دیگر آٹھ بچے پیدا کرے،وید کی اس تعلیم کو دیکھیں اور RSSکے موہن بھاگوت سے لے کر مختلف غیر شادی شدہ پنڈتوں کے دس بچے پیدا کرنے کے بیانات کو دیکھیںتو دس بچے پیدا کرنے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے۔
دیو داسی :
عورتوں کے خلاف ظلم یہ ہمیشہ انسانی تاریخ کاحصہ رہا ہے لیکن جب یہ بربریت مذہب کے لبادے میں ہو تو اور بھی مضر اور نقصان دہ ہوجاتی ہے۔انسان جب ظلم پر کمر بستہ ہوتا ہے تو مذہب اور مذہبی کتابوں کو ہی اس ظلم کا ذریعہ بنالیتا ہے۔ملک میں برہمنی نظام نے اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لیے جہاں اور طریقے اختیار کیے وہیں ایک اور راستہ دیوداسی کا بھی اختیا رکیا۔دیوداسی کی رسم بھارت میں مندروں کی طلسماتی دنیا میں دیواروں کے پیچھے کی کالی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔
برہمن مذہبی کتابوں میں دیوداسی کا ذکر سب سے پہلے کوٹلیا کے ارتھ شاستر میں ملتا ہے۔اس کے علاوہ متسیہ پران،وشنو پران وغیرہ میں اس لفظ کا ذکرملتا ہے۔تاریخی اعتبار سے دیوداسی کی رسم چھٹی صدی میں شروع ہوئی۔ایسا کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر اسی دور میں پران لکھے گئے۔دیوداسی کا مطلب ہے Servent of God یعنی دیو کی داسی یا بیوی۔مندروں میں دیوداسی کاکام مندروں کی دیکھ بھال،پوجا پاٹھ کے سامان کا انتظام،مندروں میں ناچ گانے کے علاوہ بڑے پجاری،اس کے معاون اور حکومت کے اہم وزراءکی جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنا تھا۔البتہ ان کا درجہ طوائفوں کی طرح کمتر نہ تھا۔اس رسم کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس گاو¿ں سے کسی کنواری لڑکی کو مندر میں دیوداسی بنا یا جاتااس گاو¿ں پر کوئی مصیبت نہیں آتی اوروہاں امن وامان باقی رہتاہے۔یہ رسم ملک میں آج بھی آندھرا پردیش، تاملناڑو،اڑیسہ میں پائی جاتی ہے ۔مہاراشٹر اور کرناٹک کے کولہاپور، سولاپور، سانگلی، عثمان آباد، بیلگام،بیجاپور اور گلبرگہ وغیرہ میں جاری ہے۔ایک اندازے کے مطابق ملک کی آزادی کے محض ۵۳سالوں ہی میں تقریباً ڈیڑ لاکھ لڑکیاں دیوی دیوتاو¿ں کے حوالے کی گئیں۔اس کریہ رسم کے خلاف کرناٹک حکومت نے 1982ءاور آندھرا پردیش حکومت نے 1988ءمیںاقدام کیا اور اس رسم کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ان پابندیوں کے باوجود1990ءمیں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 45.9فیصد دیو داسیاں بڑے شہروں میں جسم فروشی کے معاملات میں مبتلا پائی گئیں۔کرناٹک کے ۰۱اور MPکے ۴۱ اضلاع میں دیوداسی کا رواج آج بھی ہے۔
مشہور مورخ دی بائس نے اپنی کتاب ”ہندو مائنرس،کسٹمس اینڈ سِرِمنینر“میں لکھا ہے کہ ہر دیوداسی کو مندر میں ناچنا گانا پڑتا تھا،ساتھ ہی مندروں میں آنے والے خاص مہمانوں کے ساتھ سونا پڑتا تھا۔اس کے بدلے میں انہیں اناج یاروپیہ دیاجاتا تھا۔“
دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر وملا تھوراٹ کہتی ہیں کہ”دیو داسی بنی عورتوں کو اس بات کا بھی حق نہیں رہتا کہ وہ کسی کی ہوس کا شکار ہونے سے انکار کرسکے۔“ایک سروے کے مطابق صرف APاور تلنگانہ میں تقریبا۰۳ہزار دیوداسیاں ہیں جو مذہب کے نام پر جسمانی ظلم کا شکار ہوتی ہیں۔
ابھی حال ہی میں حیدرآباد میں ایک نشست میں قریب ۰۰۵دیوداسیوں نے شرکت کی۔اس نشست میں ان بدنصیب دیوداسیوں کی حالت پر غور و خوض ہوا۔اس موقع سے ان بچوں کی صورت حال بھی سامنے آئی جو ان ناجائز تعلقات کی بنا پر پیدا ہوئے۔شریک خواتین میں سے ایک دیوداسی ”اشممّا“ کہتی ہیں :”صرف محبوب نگر ضلع میں ان ناجائز رشتوں سے پیدا ہوئے بچوں کی تعداد پانچ سے لے کر دس ہزار تک ہے۔ان کا سروے ہونا چاہیے۔“اشممّا آگے کہتی ہے کہ”ایسے سارے بچوں کا DNAٹیسٹ کروایا جائے تاکہ ان کے باپ کا پتہ لگ سکے اور ان کی جائداد میں ان بچوں کو بھی حق مل سکے۔“
ستی :
عورتوں کے لیے بدنام زمانہ رسم ”ستی“سے کون واقف نہ ہوگا۔ حالانکہ RSSکے بہادر ہندو عوام میں اس کی ترویج کے مغل حکومت کو ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔
ستی کی رسم کا پہلا واقعہ ۰۱۵ءمیں ملتا ہے۔ماضی میں جہاں عورتوں کے خلاف دیگر مظالم روا رکھے گئے وہیں ایک رسم ستی کی تھی۔شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کو زندہ اس کی چتا پر بٹھا دیا جاتا۔برہمنی مذہبی کتابوں کے مطابق ستی جو کہ شیو کی بیوی تھی،اپنے باپ پرجاپتی کے ذریعہ اپنے شوہر کی بے عزتی پر آگ میں کود کر خود کشی کرلی تھی۔اسی خود کشی سے موسوم کرکے ہندوٶں میں شوہر کی موت کے بعد اس کی چتا پر بیوہ کے مرنے کی رسم عام ہوئی۔IBNخبر کی تحقیق کے مطابق آزادی کے بعد سے اب تک پورے ملک میں تقریبا ۰۴ واقعات ستی کے ہوچکے ہیں۔ان میں ۸۲معاملات صرف راجستھان کے سیکر ضلع اور اس کے قرب و جوار کے دیہاتوں کے ہیں۔حالانکہ بھارت میں اس رسم پر پابندی ہے لیکن اس کے باوجود جب کسی مقام پرکوئی مظلومہ ستی ہوتی ہے تو گاو¿ں کی عوام اس کی پوجا اور مندر تعمیر کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے،جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ”ستی“کی رسم ملک میں برہمنی کتابوں میں عوام کی جو عقیدت ہے، اس سے جڑی ہوئی ہے۔اس لیے اس رسم کے خاتمہ کے لیے محض قانون بنانے سے کچھ ہونے والا نہیں ہے،بلکہ ان تعلیمات پر پابندی ضروری ہے جو عوام کا یہ ذہن بناتی ہے۔
رامائن میں سیتا نے اپنے شوہر کے ساتھ جل کر مرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔(Sati Sistem in Asiant India,65)
اس رسم کو ”سہ گمن “بھی کہتے ہیں۔پرانی کتابوں میں اپنے شوہرکے متعلق مکمل اعتماد اور عقیدت رکھنے والی بیوی کے لیے لفظ ”ستی“بولاجاتا تھا۔
ملک کی تاریخ میں ستی کا سب سے پہلا واقعہ اس وقت پیش آیا جب سپہ سالارگوپ راج ہنوں کے بالمقابل لڑتے ہوئے مارا گیا تھا،چنانچہ اس کی چتا پر ۰۱۵ ءمیں اس کی بیوی ستی ہوگئی تھی۔
ستی ہونے والی عورت کے متعلق منو جی کہتے ہیں:
”پتی کے مرنے کے بعد جو عورت اپنے شوہر کی چتا کے ساتھ ستی ہوجاتی ہے ،وہ عورت مرد کے جسم میںجتنے شریانے ہیں ،اتنے ہی سالوں تک جنت میں رہتی ہے۔ “( منو سمر تی : 4 : (2:3
۶)بھارت میں ستی کی رسم کے بارے میں مشہور سیاح البیرونی لکھتا ہے:”عورت کو جب اس کا شوہر مر جائے بیاہ کرنے کا حق نہیں ہے اور اسے دو حالتوں میں ایک کو اختیار کرنا ہوگا،یا زندگی بھر بیوہ رہے یا جل کر مرجائے اور دونوں صورتوں میں سے یہ(ستی) اس کے لیے زیادہ بہتر ہے۔اس لیے کہ وہ مدت العمر عذا ب میں رہے گی ۔ہندوو¿ں کا دستور یہ ہے کہ وہ راجاو¿ں کی بیویوں کو جلا دیتے ہیں ،خواہ وہ جلنا چاہیں یا اس سے انکار کریں،تاکہ وہ ایسی لغزش سے،جن کا ان سے خوف ہے،محفوظ رہیں۔راجہ کی بیویوں میں صرف بوڑھی عورتیں اور صاحب اولاد،جن کے بیٹے ماں کو بچائے رکھنے کی اور حفاظت کی ذمہ داری پوری کریں،چھوڑدی جاتی ہیں۔“
اوپر دی گئی پوری بحث کے بعد مندرجہ ذیل تجزیوں کو دیکھیے اور اندازہ کریے کہ ملک میں خواتین کے خلاف ہونے والے مظالم کی اصل جڑ کہاں ہے۔اور جو لوگ طلاق ثلاثہ کے بہانے مسلمان خواتین پر ظلم کا جھوٹا پروپگنڈا کررہے ہیں خود وہ اور ان کی مذہبی تعلیمات انہیں خواتین کے متعلق کیا رویہ اپنانے کی تعلیم دیتی ہے۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق 2014ءمیں ملک میں زنا بالجبر کی ۷۰۷۳۳شکایتیں درج کرائی گئیں ہیں۔جس میں ملک کی راجدھانی سر فہرست ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارت میں روزانہ اوسطاً جنسی زیادتی کے ۲۹ مقدمے درج ہوتے ہیں۔
”نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی ایک مطالعاتی رپورٹ کے مطابق بھارت میں عورتوں کے خلاف ہونے والی جنسی زیادتیوں کی ۶۸فیصد وارداتوں میں متاثرہ خواتین کے رشتہ دار ملوث ہوتے ہیں۔
کیا ملک کی عدلیہ کی کرسیوں پر بیٹھے لوگ اور BJPحکومت اپنے اندر پائے جانے والے اس ظلم کو ختم کرنے کی ہمت کرپائیں گے؟