Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 17, 2018

نام بڑے اور درشن چھوٹے۔


تحریر/ مدثر احمد / صدائے وقت (نمائندہ)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ہندوستان بھر کے مختلف سیاسی جماعتوں  میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ان تمام سیاسی جماعتوں  میں مسلمان مختلف عہدوں پر فائز ہیں ، ان عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود وہ اپنے عہدوں کا حق ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ سیاسی طورپر وہ لیڈر ضرور ہیں لیکن انکی لیڈری سے اس قوم کو فائدہ کم ہی پہنچا ہے جس کے وہ قائد کہلاتے ہیں ۔ عام طور پر دیکھاجاتاہے کہ ہر سیاسی پارٹی میں مسلمانوں کو اقلیتی شعبے سے ہی جوڑا جاتاہے اور بہت کم لوگوں کو پارٹی اپنی اہم شاخ میں جگہ دیتی ہے ۔ کانگریس ہو یا بی جے پی ، جے ڈی یس ہو یا یس پی تمام پارٹیاں مسلمانوں کو اقلیتی شعبے میں ہی رکھ کر انکے ساتھ سماجی ناانصافی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ ہمارے اقلیتی شعبے کے لیڈران اپنے عہدوں پرفخر کرتے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ اقلیتی شعبوںمیں انہیں عہدے دے کر انکا حق چھینا جارہاہے۔ حقیقت میں لیڈر وہی ہوتاہے جو عوام کے مسائل پر بات کرے ، جس قوم سے تعلق رکھے اسکے حقوق کے لئے بات کرے ، جس قوم نے اسے لیڈربنایا ہے اس قوم کے تعلق سے فکر کرے مگر ہمارے یہاں ایسا کوئی تصور نہیں ہوتا ۔ ہمارے مسلم لیڈران جس پارٹی میں جاتے ہیں اسی پارٹی کے طوطے بن جاتے ہیں اور پارٹی کہے وہی یہ لوگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اگر زمینی سطح پر جائزہ لیاجائے تو مسلم سیاسی لیڈران خصوصاََ نوجوان مسلم لیڈران چاہیں تو وہ مسلمانوں کے حقیقی لیڈر بن سکتے ہیں ۔ مسلمانوں کے معمولی مسائل کو لے کر آواز اٹھاتے ہوئے اپنے وجود کا مظاہرہ کرسکتے ہیں لیکن یہاں ایسا نہیں کیا جاتاہے ، مسلم لیڈران کے مسائل بھی وہی ہوتے ہیں جو پارٹی کے مسائل ہوں ، جبکہ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق کے لئے ، مسلمانوں کے سماجی انصاف اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے کبھی نہیں سوچتی ہیں ۔ کانگریس پارٹی نے جب رافیل جہازوں کا مسئلہ اٹھایا تو پورے ملک کےکئی مسلم کانگریسیوں نے پارٹی کی جانب سے کئے جانے والے مختلف احتجاجوں میں حصہ لیا ، ان میں سے تو کئی لوگوں کو رافیل جہاز کا گھوٹالہ کیا ہے اسکا بھی علم نہیں ہوگا مگر پارٹی کے حکم پر یہ لوگ پارٹی کے ساتھ جڑجاتے ہیں ۔ جن کاموں پر توجہ دینا ہے وہ کام نہیں کئے جارہے ہیں بلکہ ہماری سوچ سیاسی جماعتوں میں جاکر ملکی و غیر ملکی سطح پر جاچکی ہے ۔ گھر کے پڑوس میں کسی بیوہ عورت کو پنشن دلانے کی ذمہ داری ہمیں یاد نہیں ہے ، ضرورت مند کو راشن کارڈ دلانے کا احساس نہیں ہے ۔ محلـے میں پھیلی ہوئی گندگی کو صاف کرانے کا وقت ہمارے پاس نہیں ہے ، شہر میں ٹھیلہ گاڑی کے تاجروں اور مزدوروں کو حکومتوں سے ملنے والی سہولیات دلانے کے طریقے سے ہمارے لیڈران لاعلم ہیں ۔ حکومتوں سے ملنے والی اسکالرشپ تمام مسلم بچوں کو ملے اسکے لئے کام کرنے کا جذبہ ہمارے پاس نہیں ہے ۔ آدھار کارڈ ، ووٹر کارڈ بنوانے کے لئے ہمارے مسلم لیڈران نے کبھی پیش رفت نہیں کی اور سیاست کررہے ہیں رافیل گھوٹالے پر ۔ اگر مسلم لیڈران سب سے پہلے اپنی قوم کو انکے بنیادی حقوق دلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انکی لیڈری کا حق ادا ہوگا اور وہ لیڈر و ذمہ دار شخص کہلائینگے ، اسکے بعد انکی شناخت ضلعی ، ریاستی سطح پر ہوگی آخر میں وہ ملکی سطح کے مسائل پر بات کریں تو اچھا لگے گا ۔ لیکن یہاں نام بڑے اور درشن چھوٹے کی طرح کام کیاجارہاہے جس سے مسلمانوں کو انکے بنیادی حقوق نہیں مل رہے ہیں ۔ہندوستان بھر کے کئی ایسے لیڈران جو مرکزی حکومت میں وزراء تک بن چکے ہیں جب انکی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو وہ مزدوروں، اپنی اپنی ذاتوں اور غریبوں کی مدد کرتے ہوئے اعلیٰ مقام حاصل کرنے والوں میں سے رہے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان ڈائرکٹ اینٹری کی خواہش میں جیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آخر تک کچھ بھی حاصل کئے بغیر ہی پارٹی کے مزدور بن کر ہی مرجاتے ہیں ۔ مسلم سیاستدانوں کو سب سے پہلے اپنے مقامی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اپنی قوم کی رہبری اور قیادت کرنے کی ضرورت ہے ، قوم سے ہمارا وجود ہے ہم سے قوم نہیں ہے ۔ جب قوم کے کام آئینگے تو خود بخود قوم ہماری اہمیت سمجھتے ہوئے ہمیں اپنا لیڈر مانے گی ۔ الیکشن میں سیاسی پارٹیوں سے پیسے لے کر اپنی قوم میں تقسیم کرنا ، شادی و طلاق کے معاملات کو سلجھانے سے ، ہوٹلوں کے پاس گروہ بناکر دس پندرہ لوگوں کو چائے پلانے سے کوئی لیڈرنہیں بنتا بلکہ قوم کے حقیقی مسائل کو تلاش کرتے ہوئے انہیں حل کرنے کے لئے کام کرنے سے لیڈر بنتے ہیں ۔ مگر ہمارے اکثر مسلم لیڈران سیاسی جماعتوں کی چاپلوسی کو ہی اپنی لیڈری مانتے ہیں جس کی وجہ سے قوم پر آفتوں کے انبار ٹوٹ رہے ہیں ۔