Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 17, 2018

کانگریس کا اصلی چہرہ۔


۔۔۔۔۔۔ارقم کے قلم سے/ عاصم طاہر اعظمی۔۔(صدائے وقت)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
کانگریس پارٹی ۱۸۸۵میں وجود میں آئی، آزادی سے قبل بھی اس نے کئی ادوار دیکھے، بعد میں بھی کئی قلابازیاں کھائی، ۱۹۴۷ء کے بعد  ہندوستان پر ایک عرصہ تک اس نے حکومت کی۔ اب شاید زندگی کی آخر ڈگر پر کھڑی، بڑھاپے کی وجہ سے کپ کپارہی ہے۔

بحمداللہ شروع سے ہم کانگریس کی فتح پر نہ حد سے زیادہ شادمان ہوتے، نہ اس کی ہار پر حیران و پریشان، ان پیارے بھائیوں سے ہاتھ جوڑ کر عرض ہے جو کانگریس کی ہار کو مسلمانوں کی شکشت وذلت مناتے اور کانگریس کو اپنا ہمدرد اور مسیحا مانتے ہیں،  کہ کبھی دو پل کی فرصت ملے، تو ضرور سوچیے گا اور غور وفکر کی صعوبت اٹھا کر ان سرکاری اعداد وشمار پر طائرانہ نظر دوڑائیے گاجن میں درج ہیکہ ۱۹۴۷ سے قبل مسلمانوں کی کیا حالت تھی، اور آج کیاہے? آج ہم کس جگہ پر کھڑے ہیں?  سیاسی نمائندگی میں تشویش ناک حد تک کمی ہوگئی، معاشی اور تعلیمی انحطاط پریشان کن حد تک پہنچ چکاہے، فرقہ وارانہ تشدد وعدم تحفظ نے اہل ایمان کو مضطر کررکھاہے، رہی سہی کسر غربت، بیروزگاری نے پوری کر دی ہے۔ آزادی سے قبل جس سطح پر دلت تھے، کانگریس کی کرم فرمائی نے ہمیں اس سے بھی نچلی سطح تک پہنچادیاہے۔ پھر بھی بعض کرم فرماؤں کا اسرار ہے کہ کانگریس کو نجات دہندہ مان لیا جائے۔

کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے ممبئی میں  وضاحت کی "کہ بی جے پی نے کانگریس کی شبیہ عوام میں ایک مسلم پارٹی کے روپ میں پیش کی ہے، حالانکہ اس میں اکثریت ہندوؤں کی ہے۔" یہ بات ازہر من الشمس ہیکہ کانگریس ہندو نواز ہے، باقی رہے مسلم راہنما اور عوام، ان کو روز اول سے کانگریس نے دھوکے میں رکھ کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا، مولانا آزاد بھی یہ بات جان گئے تھے، انہونے اپنی انگریزی تصنیف میں اعتراف بھی کیا، چند شخصیات نے ان کو وقتی عزت دی، باقی کارکن نمائش کی حد تک ان کا احترام واکرام کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ مولانا نے جوش سے کہا تھا کہ نہرو کے بعد تمہیں تو کیا? مجھے بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ امسال آزاد رحمہ اللہ کی برسی پر ان کو کس طرح فراموش کیا گیا! آپ بھی دیکھ چکے۔

یہی کا یہی رویہ عام مسلمانوں کے ساتھ رہا، ہر بار انتخابات میں مسلم ووٹوں سے اقتدار حاصل کرتے رہنے کے باوجود، مسلمانوں سے کیے گئے وعدے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سرکار کبھی بھی سنجیدہ نہیں ہوئی۔ آپ نے دیکھا معمولی باتوں پر پارلیمان کو رکوانے والی پارٹی کو تین طلاق پر تو گویا سانپ ہی سونگ گیا، یہ مسئلہ صرف اویسی کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے، اتنے بڑے، حساس، مسئلے پر کانگریسی مسلم لیڈران کی چپی بہت سارے سؤالات کھڑے کرتی ہے۔

یہ اب ہندو تو کا کارڈ بھی لے نکلے ہیں، راہل گاندھی کا آئے دن مندروں کے گھنٹے بجانا، سلگتے مسلم مسائل پر بولنے سےآنا کانی، گجرات الیکشن میں احمد پٹیل جیسے سینئر کو پرچار میں نظر انداز کرنا، یہ طوطا چشمی اہل نظر کے لیے بہت کچھ معنی رکھتی ہے۔ وہ ہماری اس کمزوری سے واقف ہیں کہ مسلم بی جے پی کو کسی بھی حال میں ووٹ نہیں دے سکتے، اب یہ کانگریس کو نہیں دیں گے تو جائیں گے کہاں?

ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا کو پارٹی چھوڑنے پر صرف اس وجہ سے مجبور کیا گیا، انہونے اردو کو دوسری سرکاری زبان اور مدارس کو اسکول کے مساوی کیا تھا، اتنے بڑے جرم کو سیکولرزم کے ٹھیکے دار کیسے برداشت کر سکتے ہیں، بلکہ انہوں نے ہر اس مسلم راہنما کو پنپنے نہ دیا جو پہلے مؤمن پھر کانگریسی ہو، ہمیشہ ایسے لوگوں کو ہی ترقی دی جنہیں قوم وملت سے زیادہ پیٹ و گھر کی فکر ہو۔ آزاد ہند کے کامیاب ریلوے وزیر مرحوم جعفر شریف کے ساتھ اس لیے سوتیلا برتاؤ کیا گیا، چونکہ انہونے چند مسلم نوجونوں کے تئیں خلوص اور ہمدردی سے کام لیا۔ اتنے بڑے جرم کے بعد بھلا کانگریس ٹکٹ دے سکتی ہے۔

۱۹۴۷ کے بعدکانگریس کے برسر اقتدار ہونے کے باوجود فرقہ وارانہ تشدد کبھی نہیں  نہیں تھما، ہزاروں فسادات میں لاکھوں مسلمانوں نے جانیں گنوائیں، اربوں کھربوں کی مالیت کا نقصان جھیلا۔ یہ نہرو کی عیاری نہیں تو اور کیاہے? کہ مسئلہ کشمیر کو الجھاکر ہماری مشکلات بڑھادی، حیدرآباد دکن میں عوام کا قتل عام کرنے والا ولبھ بھائی پٹیل اسی خیمے سے تھا۔ نہرو میوزیم رکھی حیدرآباد فساد کی رپورٹ دیکھ لیں ہو سکتاہے، حب کانگریس میں اعتدال آجائے۔ یہ بات بھی جان لیں تقسیم کے اصل ذمدار گاندھی ونہرو ہیں! جی ہاں محمد علی جناح سے بھی زیادہ۔ آپ یہ بات پڑھ کر تعجب نہ کریں، بلکہ جسونت سنگھ کی کتاب محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا مطالعہ کریں، تب آپ بھی میری طرح پکار اٹھیں گے مسلمانوں کو بانٹ کر بے دست وپا کرنے والے کانگریسی ہی ہیں۔

مولانا سجاد نعمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: "بابری مسجد میں مورتیاں نہرو نے رکھوائی" یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے،  بابری مسجد کی شہادت میں کانگریس نے بی جے پی سے بھی اہم رول ادا کیا، تفصیل بندہ کی تحریر "بابری مسجد کی شہادت" میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہندو تو کے لیے نرسمہا راؤ اور راجیو گاندھی کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ ابھی ان ریاستی الیکشن میں راجستھان کے قدآور نیتا سی پی جوشی نے کہا تھا "بابری مسجد کے تالے راجیو گاندھی نے کھلوائے، اب رام مندر کی تعمیر راہل گاندھی کرے گا"

ایک بات اچھی طرح جان لیں ہوسکے تو اپنے متعلقین وچھوٹوں کو بھی سمجھادیں کہ کانگریس سیکولر نہیں بلکہ ایک فرقہ پرست پارٹی ہے، ہر دور میں یہ فرقہ پرست لوبی کے زیر اثر رہی یے، ایسے لوگ بھی اس کا حصہ رہے ہیں جو تعصب میں مودی اور یوگی سے کم نہیں تھے۔ ہندوستان میں گاندھی کو مارا گیا، پنجاب کے وزیر اعلی کو قتل کیا گیا، اندرا گاندھی کو بھی گولیوں سے بھون دیا گیا، اتنے بڑے بڑے مجرموں کو پھانسی نہیں دی کانگریس نے، چونکہ وہ مجرم ہندو تھے۔ سیاسی مفادات کے لیے اجمل قصاب، یعقوب میمن اور افضل گورو کو لٹکا دیا اس لیے کہ وہ مسلمان تھے۔

مذکورہ باتوں کو دیکھتے ہوئے کانگریس کو سیکولر یا مسلم نواز سمجھنا، یا اس سے کسی بڑی خیر کی توقع رکھنا ایں خیال ست محال ست جنوں۔ یہ سچ ہے کہ بی جی پی ہماری کھلی دشمن ہے، وہ آئے روز خون مسلم بہاتی، عزت، آبرو اور جذبات سے کھیلتی ہے۔ مگر کانگریس نے ہمیشہ میٹھا زہر دیا، سبز باغ دکھائے، جھوٹے وعدوں اور آسروں کی آڑ میں چپکے چپکے اتنا نقصان پہچایا جسے دیکھا جائے، تو بی جے پی سے پہنچنے والے نقصان سے بھی دگنا ہے۔ پھر کمال یہ ہیکہ ہمیں اس کی کانوں کان خبر تک نہیں۔

بھائیو! اعتدال کو لازم پکڑو، وقت اور ضرورت کے پیش نظر سیاست کو اپناؤ۔ کسی پارٹی کے زرخرید بننے کے بجائے اپنے سیاسی قائدین پیدا کرو، وقت اور حالات کے موافق فیصلے لو، یہ بات پلے باندھ لو کہ ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی بھول سیاست سے کنارہ کشی ہے۔ جو اس میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرو یہ نہ کرسکوں تو خدارا حوصلہ شکنی تو مت کرو۔