Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, January 13, 2019

مشہور و معروف ترقی پسند شاعر،فلمی نغمہ نگار،"کیفی اعظمی" کے یوم پیدائش 14 جنوری کے ضمن میں صدائے وقت کی خصوصی پیشکش۔


تحریر/محمد عباس دھالیوال
مالیر کوٹلہ، پنجاب.
رابطہ 9855259650
Abbasdhaliwal72@gmail.com ۔
. . . . . . . . . .  . . . . . . . . . . . . . . . . .
"کر چلے ہم فدا جان تن ساتھیو،
اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو "
گیت کار کیفی اعظمی۔

کیفی اعظمی جہاں اردو ادب کے ممتاز ترقی پسند شاعراور نغمہ نگار تھے. وہیں آپکی بیٹی شبانہ اعظمی ہندی سنیما کی مشہور اداکارہ رہی ہیں جبکہ شبانہ کے شوہر جاوید اختر ہندی فلموں کے معروف سٹوری رائٹر اور نغمہ نگار ہیں. کیفی اعظمی 14 جنوری ، 1925 کو اتر پردیش کے اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے آپ کا پورا نام اطہر حسین رضوی تھا۔کیفی کی ابتدائی تعلیم بھی اس وقت کے مطابق روایتی اردو، عربی اور فارسی کے ساتھ ہوئی آپ کے والد آپ کو مذہبی تعلیم دلانا چاہتے تھے اس غرض سے انہوں نے کیفی کو لکھنو میں سلطان المدارس میں داخل کروا دیا۔ اسی بیچ لکھنو کے قیام کے دوران کیفی کی ملاقاتیں ترقی پسند ادیبوں کے ساتھ ہونے لگیں۔ اس دور میں لکھنؤ ترقی پسند ادیبوں کا ایک اہم مرکز بنا ہوا تھا۔ 
اسی اثنا میں یعنی
۱۹۴۱ میں کیفی لکھنؤ چھوڑ کر کانپور چلے آئے اور یہاں اس وقت مزدوروں کی تحریک زور پر تھی اور کیفی بھی آتے ہی اس تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ کیفی کو کانپور کی فضا بہت راس آئی یہاں رہ کر آپ نے مارکسی لٹریچر کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا۔ ۱۹۴۳ میں کیفی سردار جعفری اور سجاد ظہیر کے کہنے پر ممبئی کے لیے روانہ ہو گئے. آپ کے شاعری کے ساتھ جڑاؤ کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کیفی ابھی محض گیارہ برس کے ہی ہوئے تھے کہ شاعری کرنے لگے تھے۔ آپ کی پہلی نظم کچھ اس طرح تھی کہ :

مدت کے بعد اس نے جو الفت سے کی نظر
جی خوش تو ہوگیامگر آنسو نکل پڑے
اک تم، کہ تم کو فکر نشیب و فراز ہے
اک ہم کہ چل پڑے تو بہر حال چل پڑے

کیفی اعظمی کا اترپردیش کے بہرائچ سے گہرا تعلق تھا۔ اس بات کی توثیق شمیم اقبال خاں اور کاوش شوکتی کے ذریعہ مرتب کردہ دیوان شوق طوفان اور شاعر اور ادیب شارق ربانی کے حوالے سے بھی ہوتی ہے اس کے علاوہ اس وقت کے روزناموں میں اس کا ذکر ملتا ہے یہاں قابل ذکر ہے کہ کیفی کے والد سید فتح حسین رضوی نانپارہ کے قریب نواب قزلباش کے تعلقہ نواب گنج میں تحصیل دار تھے اور شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں رہا کرتے تھے اس طرح سے کیفی کے بچپن کے کئی برس بہرائچ کی سرزمین پر گزرے. بعد میں بھی کیفی کا بہرائچ میں مسلسل آناجانا رہا اس دوران کیفی اپنے بچپن کے دوستوں سے ملاقات کرتے اور شفیع بہرائچی کی دکان پر ادبی محفل کا حصہ بنتے، جہاں بہرائچ کے مشہور شاعر وصفی بہرائچی ،جمال بابا،شوق بہرائچی ،ڈاکٹر نعیم اللہ خاں خیالی،عبرت بہرائچی ،اظہار وارثی وغیرہ شمولیت فرمایا کرتے تھے.
اپنے ممبئی کے قیام کے دوران
معاشی مشکلوں کے سبب کیفی نے فلموں میں نغمے بھی لکھے. سب سے پہلے آپ نے شاہد لطیف کی فلم ’’ بزدل ‘‘ میں دو گانے لکھے ۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ کیفی کی فلموں سے وابستگی بڑھتی گئی اور نغموں کے ساتھ ساتھ آپ فلمی کہانیاں ، مکالمے اور منظرنامے بھی لکھنے لگے ۔ فلم کاغذ کے پھول، گرم ہوا، حقیقت، ہیر رانجھا جیسی نامی فلمیں آج بھی کیفی کے نام کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں وابستہ ہیں فلم گرم ہوا کے لیے انھیں بہترین مکالموں کے لیے ایوارڈ ملا تھا ۔ اس کے علاوہ بھی فلمی دنیا میں کیفی کو بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔ ان میں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز، فلم فیئر اعزاز پدم شری اعزاز برائے ادب و تعلیم شامل ہیں.
سجاد ظہیر نے کیفی کے پہلے ہی مجموعے کی شاعری پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’جدید اردو شاعری کے باغ میں نیا پھول کھلا ہے۔ ایک سرخ پھول " آپ کی شاعری پہلے ہی دن سے سے ترقی پسندانہ فکر وسوچ کو عام کرنے میں لگی نظر آتی ہے ۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ آپ عملی اور تخلیقی دونوں سطحوں پر تا عمر ترقی پسند تحریک اور اس کے مقاصد سے وابستہ رہے ان کی پوری شاعری سماج کے فاسدنظام، جبر و استحصال کی صورتوں اور غلامانہ ذہنیت کے تحت جنم لینے والی برائیوں کے خلاف ایک زبردست احتجاج و نعرہ کہی جا سکتی ہے۔ 
آپ کو ممبئی میں فکر روز گار میں قریب دس سال تک مشقت کرنی پڑی. اور پھر
1950ء کی دہائی میں ڈاکٹر منشاء الرحمٰن خان منشاء کی دعوت پر کیفی ایوت محل کے مشاعرے کے لیے بلائے گئے ۔ اس مشاعرے میں شرکت کے لیے 80 روپیے طے ہوئے۔ تاہم اسی زمانے میں کیفی کی بیٹی شبانہ اعظمی پیدا ہوئیں ۔ جس کی وجہ سے وہ مشاعرے میں شرکت سے قاصر تھے مگر پیشگی رقم 40 روپیے ان کی وقتیہ ضروریات کے کام آئی۔ کیفی نے منشا سے خط لکھ کر معذرت خواہی کی اور ساتھ ہی پیشگی رقم کی واپسی کا وعدہ کیا۔ جب کیفی کی شاعری کو اپنے مطالعہ میں لاتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ
کیفی بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔ ان کی معروف نظموں میں عورت، اندیشہ، ٹرنک کال، حوصلہ، تبسم، مکان، بہروپی اور دوسرا بن باس خصوصی طور پر شامل کی جا سکتی ہیں۔ نظم "کوئی یہ کیسے بتائے" کے چند اشعار دیکھیں کہ
کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے
وہ جو اپنا تھا وہی اور کسی کا کیوں ہے
یہی دنیا ہے تو پھر ایسی یہ دنیا کیوں ہے
یہی ہوتا ہے تو آخر یہی ہوتا کیوں ہے
اک ذرا ہاتھ بڑھا دیں تو پکڑ لیں دامن
ان کے سینے میں سما جائے ہماری دھڑکن
اتنی قربت ہے تو پھر فاصلہ اتنا کیوں ہے
دل برباد سے نکلا نہیں اب تک کوئی
اس لٹے گھر پہ دیا کرتا ہے دستک کوئی
آس جو ٹوٹ گئی پھر سے بندھاتا کیوں ہے
تم مسرت کا کہو یا اسے غم کا رشتہ
کہتے ہیں پیار کا رشتہ ہے جنم کا رشتہ
ہے جنم کا جو یہ رشتہ تو بدلتا کیوں ہے
ایک اور معروف نظم "دوشیزہ مالن" سے چند اشعار دیکھیں کہ کس خوبصورتی و دلکشی کے ساتھ صبح صادق سے لیکر سورج کے طلوع ہونے کا اور چاندنی کے گلوں میں سمانے کا نقشہ یقیناً پڑھنے و دیکھنے لائق ہے. آپ بھی دیکھیں کہ.

لو پو پھٹی وہ چھپ گئی تاروں کی انجمن
لو جام مہر سے وہ چھلکنے لگی کرن
کھچنے لگا نگاہ میں فطرت کا بانکپن
جلوے زمیں پہ برسے زمیں بن گئی دلہن
گونجے ترانے صبح کا اک شور ہو گیا
عالم مئے بقا میں شرابور ہو گیا
پھولی شفق فضا میں حنا تلملا گئی
اک موج رنگ کانپ کے عالم پہ چھا گئی
کل چاندنی سمٹ کے گلوں میں سما گئی
ذرے بنے نجوم زمیں جگمگا گئی
چھوڑا سحر نے تیرگیٔ شب کو کاٹ کے
اڑنے لگی ہوا میں کرن اوس چاٹ کے

بابری مسجد کے انہدام پر کیفی اعظمی کی لکھی معروف نظم آج بھی اپنی اہمیت و افادیت اسی طرح رکھتی ہے جیسی کہ آج سے 25 برس قبل رکھتی تھی چند بند آپ بھی یہاں ملاحظہ فرمائیں کہ
رام بن باس سے جب لوٹ کے گھر میں آئے
یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے
رقصِ دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہو گا
چھ دسمبر کو شری رام نے سوچا ہو گا
اتنے دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئے

دھرم کیا ان کا ہے کیا ذات ہے یہ جانتا کون
گھر نہ جلتا تو انہیں رات میں پہچانتا کون
گھر جلانے کو مرا لوگ جو گھرمیں آئے
شاکاہاری ہیں مرے دوست تمہارے خنجر

تم نے بابر کی طرف پھینکے تھے سارے پتھر
ہے مرے سر کی خطا زخم جو سر میں آئے
پاؤں سریو میں ابھی رام نے دھوئے بھی نہ تھے
کہ نظر آئے وہاں خون کے سارے دھبے
پاؤں دھوئے بنا سریو کے کنارے سے اٹھے
رام یہ کہتے ہوئے اپنے دوارے سے اٹھے

راجدھانی کی فضا آئی نہیں راس مجھے
چھ دسمبر کو ملا دوسرا بن باس مجھے
آپ نے مختلف ہندی فلموں کے لیے گیت لکھے جن میں چند
مشہور بالی وڈ فلموں میں آئے ان کے نغمےآپ بھی دیکھیں کہ

آج کی رات گرم ہوا چلی ہے۔

کرچلے ہم فدا جان و تن ساتھیوں

ملو نہ تم تو ہم گھبرائیں، ملو تو آنکھ چرائیں

بچھڑے سبھی باری باری

ہو کے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا

وقت نے کیا کیا حسیں ستم

کیفی کی جہاں نظمیں اور نغمے لاجواب ہیں وہیں ان غزلوں کے اشعار میں ملنے والے والے مضامین بھی دوسرے شعراء سے منفرد واچھوتے نظر آتے ہیں. ایک غزل کے چند اشعار آپ ملاحظہ فرمائیں کہ
شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا
کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا
پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا
جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا
بجلی کے تار پہ بیٹھا ہوا ہنستا پنچھی
سوچتا ہے کہ وہ جنگل تو پرایا ہوگا
انکی ایک اور مشہور جو کہ ایک ہندی فلم میں بھی فلمائی گئی ہے ملاحظہ فرمائیں کہ
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں
تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا
مری طرح ترا دل بے قرار ہے کہ نہیں
وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے
اس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں
تری امید پہ ٹھکرا رہا ہوں دنیا کو
تجھے بھی اپنے پہ یہ اعتبار ہے کہ نہیں
کیفی اعظمی کی ایک اور غزل جو بے حد مقبول ہوئی جو آج بھی اگر ریڈیو پر بجتی سنائی دیتی ہے تو آدمی سر دھننے کو مجبور ہو جاتا ہے آپ بھی لطف اندوز ہوں کہ
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر
کیا حال ہے کیا دکھا رہے ہو
بن جائیں گے زہر پیتے پیتے
یہ اشک جو پیتے جا رہے ہو
جن زخموں کو وقت بھر چلا ہے
تم کیوں انہیں چھیڑے جا رہے ہو
ریکھاؤں کا کھیل ہے مقدر
ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو
اردو ادب کو کیفی اعظمی نے جن مجموعوں سے سرفراز کیا ان میں جھنکار، آخر شب، آوارہ سجدے، میری آواز سنو( فلمی نغمے ) ابلیس کی مجلس شوری ( دوسرا اجلاس) شامل ہیں. جو اپنے قارئین میں آج بھی ایک جوش و جذبہ پیدا کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں.

کیفی اعظمی کی شخصیت و فن پر کافی تحقیقی کام بھی ہو چکا ہے جیسے کہ
کیفی اعظمی. فکروفن، ڈاکٹر شکیلہ رفعت علی، نگران ڈاکٹر افغان اللہ خاں، گورکھپور یونیورسٹی ۔گورکھپور
1990ء، کیفی اعظمی: شخصیت شاعری اور عہد، ڈاکٹر وسیم انور نگران ڈاکٹر فدا المصطفٰی، ڈاکٹر ہری سنگھ گور یونیورسٹی۔ ساگر، کیفی اعظمی کی نظموں کا سماجیاتی مطالعہ، محمد اشہر انصاری، نگراں ڈاکٹرآصف ،ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی.
بولی وڈ اور اردو ادب کا یہ مایائے ناز ستارہ آخر کار اپنی زندگی کا سفر طے کرتے ہوئے 10 مئی 2002 کو ہمیشہ ہمیش کے لیے غروب ہو گیا. لیکن ان کے کلام کو آج بھی جب ہم اپنے مطالعے میں لاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے احساس و جذبات کے ذریعے ہمارے بیچ ہی موجود ہے...

بشکریہ/ عاصم طاہر اعظمی۔