Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, January 19, 2019

مولانا واضح رشید ندوی کے انتقال پرملال مورخہ 16 جنوری 2019 پر خاص فیچر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی۔


شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی/ صدائے وقت عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
زندگی موت کے سائے میں پرورش پاتی ہے،اس کی نشوونما،اس کی ترقیاں،اس کے منصوبے،اس کی پلاننگ،اس کے روز وشب میں نمودار ہونے والے ہنگامے سب اسی اجل کے دائرے میں محصور ہوتے ہیں۔
زندگی نمودار ہوتی ہے،ابھرتی ہے'، شاہ راہ حیات کےروشن اور تاریک نشیب و فراز سے گذرتی ہے، اور پھر موت کے ہنگاموں میں روپوش ہوجاتی ہے،
کسی مقصد سے بے نیاز ،کسی کارنامے سے بے پروا،ایک بے نام سی رہگذر پر ظاہر ہوتی ہے،اور پانی کے بلبلے کی طرح فنا ہوجاتی ہے،اس کے سفر میں نہ کوئی شناخت ہوتی ہے نہ معرفت،نہ دین کی خبر ہوتی ہے نہ مقصدیت سے شناسائی، انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتاہے کہ اس کارگہِ عالم میں انہیں کیوں لایا گیا اور کیوں اس امانت سے محروم کیا گیا۔۔۔

لیکن اسی عالم رنگ و بو میں کچھ وجود ایسے بھی ہوتے ہیں جو خاموشی کے ساتھ آنکھیں کھولتے ہیں مگر حیات کے اس سفر میں اپنی خداداد صلاحیتوں،فطری استعدادوں،بے پناہ مشقتوں،مسلسل قربانیوں اور مستقل جاں فشانیوں سے کارناموں کا ایک جہاں آباد کرجاتے ہیں، قدم قدم پر روشنی کا مینار کھڑا کر دیتے ہیں،ان کا ہر نقش قدم آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہوتا ہے،وہ اپنے تعمیری جذبات،اور لافانی خدمات کے لہو سے صحرا کو گلزار کردیتے ہیں،وہ بے مایہ ذروں کی ایسی پرورش کرتے ہیں کہ انہیں آفتاب کی زندگی مل جاتی ہے،نتیجتا ان کے افکار و خیالات،تعلیمات وخدمات کے باعث نہ صرف ان کا وجود بلکہ ارد کا ماحول،اورمعاشرہ بھی روشن ہوجاتاہے۔

ملت اسلامیہ ہند عظیم رہنما،بصیرت مندانہ فکر کے حامل،سرمایہ ملت کے نگہبان،علم وادب کے قابل فخر پاسبان،تعلیمات نبوی کے بے باک ترجمان ، دیدہ ور محقق ونقاد ،اردو وعربی ادب کے تاجور مولانا واضح رشید ندوی انہیں عہدساز اور نابغۂ روزگار ہستیوں
میں تھے،جو وقت کے قرطاس پر جا بہ جا تاریخ رقم کرجاتے ہیں،زمانہ ان کے نقش قدم کی پیروی میں سعادت تصور کرتا ہے،

مولانا واضح رشید ندوی نے یقیناً جس ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں،
جس فضا میں ان کی پرورش و پرداخت ہوئ تھی وہ
ماحول سنت نبوی کی شعا سے جگمگا رہا تھا،درویشانہ مزاج کی خوشبو ہرسو پھیلی ہوئی تھی، فکر و فن کے زمزموں سے پوری فضا گونج رہی تھی،علم وادب کے ساتھ ساتھ فقیرانہ شان کی حکمرانی تھی، فضل و کمال اور قلندرانہ شان کی علامت ،برادر اکبر مولانا رابع حسنی ندوی کی تربیت کا سائبان حاصل تھا، علی میاں ندوی جیسے جبال العلم اور درویش وقت کا سایۂ عاطفت و تربیت میسر تھا، جو شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں یقینا سنگ میل ثابت ہوا تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ زندگی کو علمی ادبی تربیتی عروج میں،
وجود کی روشنی میں،قائدانہ شعور میں،تاریخی شعور کی پختگی اور کرداروں کی بلندی میں، آپ کی جہد مسلسل،آپ کی فکر وتڑپ،آپ کے بامقصد
جذبات، اور عزم و ہمت کے سرمائے،اور استقامت و استقلال کا خاصا نہیں بلکہ بنیادی دخل ہے۔ انہیں اثاثوں کی بنیاد پر آپ نے عام افراد کی طرح زندگی کا سفر شروع کیا۔مگر جب عدم کے سفر پر روانہ ہوئے تو ایک عالم کو سوگوار کرگئے،علم کی محفلوں کو سونی کرگئے،صرف ندوہ نہیں بلکہ اسلامی علوم کی تمام دانشگاہوں کے بام و در پر اداسی چھا گئی، خانقاہوں میں ماتمی سائے پھیل گئے،  قلم و قرطاس کی دنیا میں غل ہوا کہ ایک تابناک ستارہ علمی افق سے ٹوٹ کر تاریکیوں میں گم ہوگیا۔۔

16جنوری کی سیاہ رات جب رخت سفر باندھ رہی تھی کسے خبر تھی کہ علمی وفکری آسمان کا وہ ستارہ بھی اپنی تاریک زنبیل میں چھپا کر رخصت ہوجائے گی اور سحر کی سفیدی کو بے نور کرجائے گی۔ قدرت کا نظام ہے کہ ہر آنے والے کو ایک نہ ایک دن جانا ہے
حضرت مولانا بھی ایمان و عمل کے سرمائے کے ساتھ رخصت ہوگئے، مگر اس طرح کہ پوری علمی دنیا کو اشک بار کرگئے اور ایک کامیاب اور قابل رشک زندگی کی یہی علامت ہے کہ وہ دنیا والوں کے دلوں میں اپنے کرداروں کی بدولت اس طرح گھر کر جائے کہ اس کی جدائی ہر طرف ماتمی کیفیت پیدا کرجائے۔

حضرت مولانا واضح رشید ندوی صاحب روشن ضمیر مفکر،بصیرت مند اسلامی اسکالر، نامور اردو وعربی کے ادیب وانشا پرداز ،فیض رساں مدرس مربی، بے باک وجرات مند صحافی، اور درجنوں کتابوں کے مصنف تھے،ابتدائی تعلیم رائے بریلی وطن مالوف میں ہوئی اور اعلیٰ تعلیم کی تکمیل آپ نے ندوۃ العلماء لکھنؤ سے کی بعد ازاں علی گڈھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے اکتساب فیض کیا،اردو انگریزی عربی تینوں زبانوں پر قدرت نہیں بلکہ مہارت تھی یہی وجہ تھی کہ رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد آل انڈیا ریڈیو میں بحیثیت مترجم آپ کا سلیکشن ہوگیا۔ کچھ عرصہ بعد ان کی صلاحیتوں کے باعث ندوۃ العلماء میں تقرر ہوا ،اس مرکزی ادارے میں آپ کی تدریسی اور تربیتی خدمات کے ساتھ ساتھ،قلم کا سفر بھی جاری رہا، عربی مجلہ الرائد اور پندرہ روزہ تعمیر حیات،،کے صفحات کے ذریعے اردو عربی میں بے شمار مضامین منظر عام پر آئے اور علمی وادبی زلفوں کو سنوارنے کا یہ عمل زندگی کے آخری مرحلے تک جاری رہا،ان مضامین میں موضوعات کے تنوع کی ایک دنیا نظر آتی ہے، جن میں ادبی بھی ہیں'،تاریخی بھی،  اصلاحی بھی ہیں' دعوتی بھی،تحقیقی بھی ہیں'اور ملکی و عالمی حالات حاضرہ پر بھی، 

آپ کی تحریریں عموماً  دعوتی اسلوب کی حامل ہوتی ہیں، ان میں جہاں اسلامی تعلیمات،اسلامی تہذیب و ثقافت کی ترجمانی محسوس ہوتی ہے،وہیں مغربی تہذیب و تمدن اس کی غیر انسانی معاشرت پر بے باکانہ نقد و جرح کا رنگ بھی نظر آتا ہے، اس کے علاوہ احسان وتزکیہ کے حوالے سے ان کی تحریروں نے اصلاحات کا انقلاب آفریں کارنامہ انجام دیا ہے'، درجنوں کتابیں ان کے قلم سے منصہ شہود پر آئیں اور علمی دنیا میں مقبولیت کے مقام پر پہونچیں،جن میں خاص طور پر،محسن انسانیت،سلطان ٹیپو شہیدایک تاریخ ساز قائد،،مسئلہ فلسطین،ندوۃ العلماء ایک رہنما تعلیمی مرکز اور تحریک اصلاح و دعوت،

عربی کتابوں میں ادب الصحوۃ الاسلامیہ۔الدعوۃ الاسلامی و مناہجہا فی الہند،  حرکت التعلیمی الاسلامی فی الہند وتطور المنہج،  الامام أحمد بن عرفان شہید، المسحۃ الادبیہ فی کتابات الشیخ ابی حسن علی ندوی وغیرہ قابل ذکر ہیں ان کی علمی و ادبی خدمات پر صدر جمہوریہ ہند کے ایوارڈ سے نوازا گیا،

مولانا مرحوم سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے،کچھ فطری خلوت پسندی خمیر میں شامل تھی،کچھ احسان وتزکیہ کے جام معرفت نے آپ کے وجود کو شہرت وناموری سے بیزار کرڈالا،وہ علم و ادب کے آدمی تھے،یہی ان کا قیمتی سرمایہ تھا،یہی ان کی غذا تھی،
وہ خاموشی کے ساتھ علم و ادب کی پرورش میں مصروف تھے، نہ شہرت کی طلب نہ ستائش کی پروا، بس خاموش فضا میں اپنے کام سے کام،
فکر و فن کے ہفت اقلیم کی حکمرانی کے باوجود تواضع،انکساری ، خردوں کی حوصلہ افزائی، اخلاص وللہیت اور کسر نفسی وفنائیت کی مثال اس دور میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے،

اس عالم فنا سے بقا کی طرف ہر شخص کو جانا ہے،مولانا مرحوم بھی حیات مستعار کا متعین حصہ گذار کر اس جہان کی طرف رخصت ہو گئے جہاں سے واپسی کے راستے ہر ایک کے لئے بند ہیں،
مگر اپنے روشن کارناموں،اور زریں خدمات کی بدولت اپنے وجود کو زندگی وہ روشنی عطا کرگئے،جو ہزاروں شاگردوں،بے شمار علمی ادبی اصلاحی صفحات اور سیکڑوں مسترشدوں کی صورت میں شمع کی مانند بے شمار قلوب میں اس طرح فروزاں ہے کہ وقت کی تیرگی کو اس کے خلاف صف آراء ہونے کی جرات نہیں ہے ، باد مخالف کے جھونکے اس کی لو پر اثر انداز نہیں ہوسکتے، طوفانوں کا سیلاب جس کی شعاعوں کے آگے سپر انداز ہوجاتاہے، جس کی کرنیں متلاشیان علم و ادب کے لئے ہر دور میں سنگ میل کا کا م دیتی رہیں گی، ذرۂ بے مقدار اس سے ہمیشہ فیضیاب ہوتے رہیں گے،
فیضان عام سے ہرسو اجالا کرنے والی اسی روشنی  کا نام دوام ہے'جو مولانا مرحوم کو یقیناً حاصل ہے' ، اسی زریں وصف کا نام نقش و ثبات ہے' جو تمام جمالیاتی اوصاف کے ساتھ مولانا کی ذات کو سرمایہ جاودانی عطا کرتے ہیں۔ بقول اقبال،

موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے'

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار شواجی نگر ممبئی