Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, January 16, 2019

لفظوں کا جادوگر، فلم مکالمہ نگار، ممتاز نغمہ نگار و معروف شاعر " جاوید اختر" کا یوم ولادت۔۔۔۔آج 17 جنوری( 1945)۔

صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
*جاوید اختر*، *جاں نثار اختر* کے گھر *١٧ جنوری ١٩٤٥ء* میں جب ایک ننھے بچے نے آنکھ کھولی تو اپنی ایک نظم کے مصرعے *’لمحہ لمحہ کسی جادُو کا فسانہ ہوگا‘* کی نسبت سے اُس بچے کا نام *’جادُو‘* رکھا گیا۔۔۔ کچھ عرصے بعد یہ نام بدل کر *’جاوید‘* کر دیا گیا کہ جادُو سے قریب تر تھا۔
*جاوید اختر* نے ایک علمی گھرانے میں پرورش پائی اور ادب سے محبت انہیں گویا وراثت میں نصیب ہوئی۔  *مضطرؔ خیر آبادی* (شاعر) دادا، *جاں نثارؔ اختر* والد تھے تو *مجازؔ لکھنوئی* جیسے بلند قامت شاعر جاوید کے ماموں تھے۔  یہ گھر کے ماحول کا اثر ہی تھا کہ جاوید نے لڑکپن میں ہی اردو اور دنیا کی مختلف زبانوں کا کلاسیکی ادب پڑھنا شروع کر دیا اور جس عمر میں بچے کھیل کود میں دلچسپی لیتے ہیں اس عمر میں جاوید کو اردو کے ہزاروں شعر زبانی یاد تھے۔۔۔ یوں یہ تعجب کی بات نہیں کہ سکول اور کالج میں جاوید تقریروں اور بیت بازی کے لیے شہرت رکھتے تھے۔
اُردو کے سینکڑوں شعراء کے دیوان پڑھ لینے اور عمدہ شعر سے شغف رکھنے کے باوجود جاوید اختر نے اپنی زندگی میں شاعری کو قدرے تاخیر سے اختیار کیا۔۔۔ 80ء کی دہائی کے بعد بالی وُوڈ کو یقیناً ایسے بے حساب نغمے عطاء ہوئے جنہیں آج بھی شوق سے سنا جاتا ہے اور جن کے لیے جاوید اختر کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
مقبول نغمہ نگار جاوید اختر کے منتخب اشعار...

اس شہر میں جینے کے انداز نرالے ہیں
ہونٹوں پہ لطیفے ہیں آواز میں چھالے ہیں
---
اگر پلک پہ ہے موتی تو یہ نہیں کافی
ہنر بھی چاہئے الفاظ میں پرونے کا
---
ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا
کیوں گلہ پھر ہمیں ہوا سے رہے
---
اونچی عمارتوں سے مکاں میرا گھر گیا
کچھ لوگ میرے حصے کا سورج بھی کھا گئے
---
*اک محبت کی یہ تصویر ہے دو رنگوں میں*
*شوق سب میرا ہے اور ساری حیا اس کی ہے*
---
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
---
بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا
ہمیں یہ شوق ہے کیا آستیں بھگونے کا
---
تم یہ کہتے ہو کہ میں غیر ہوں پھر بھی شاید
نکل آئے کوئی پہچان ذرا دیکھ تو لو
---
جدھر جاتے ہیں سب جانا ادھر اچھا نہیں لگتا
مجھے پامال رستوں کا سفر اچھا نہیں لگتا
---
دکھ کے جنگل میں پھرتے ہیں کب سے مارے مارے لوگ
جو ہوتا ہے سہہ لیتے ہیں کیسے ہیں بے چارے لوگ
---
سب کا خوشی سے فاصلہ ایک قدم ہے
ہر گھر میں بس ایک ہی کمرہ کم ہے
---
غیروں کو کب فرصت ہے دکھ دینے کی
جب ہوتا ہے کوئی ہمدم ہوتا ہے
---
مجھے دشمن سے بھی خودداری کی امید رہتی ہے
کسی کا بھی ہو سر قدموں میں سر اچھا نہیں لگتا
---
*میں قتل تو ہو گیا تمہاری گلی میں لیکن*
*مرے لہو سے تمہاری دیوار گل رہی ہے*
---
کھلا ہے در پہ ترا انتظار جاتا رہا
خلوص تو ہے مگر اعتبار جاتا رہا
---
یاد اسے بھی ایک ادھورا افسانہ تو ہوگا
کل رستے میں اس نے ہم کو پہچانا تو ہوگا
---
یہی حالات ابتدا سے رہے
لوگ ہم سے خفا خفا سے رہے
. . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . . . . .