Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, January 1, 2019

معروف شاعر ثاقب لکھنوی کا یوم ولادت، دو جنوری (1869)۔

صدائے وقت/ مولانا سراج ہاشمی۔(ماخوذ)۔

*ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر ، اپنے شعر،

’بڑے غورسے سن رہا تھا زمانہ ۔۔۔۔۔۔‘

کے لئے مشہور اور معروف شاعر ثاقبؔ لکھنؤی صاحب کا یومِ ولادت...
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  
ثاقبؔ لکھنوی۔۔ نام ۔مرزا ذاکر حسین قزلباش۔۔۔ ، تخلص "ثاقبؔ" ۲؍جنوری۱۸۶۹ء کو اکبر آباد میں پیدا ہوئے۔ میرزا کی ولادت کو تقریباً چھ ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ ان کے والد نامساعد حالات کی بنا پر اکبرآباد چھوڑ کر مستقل طور پر لکھنؤ میں سکونت اختیار کرلی۔میرزا کی ابتدائی تعلیم قدیم اسلوب پر ہوئی۔ انگریزی تعلیم کے لیے آگرہ بھیجے گئے جہاں تقریباً چار سال قیام رہا۔ وہیں *میر مومن حسین صفی* کی صحبت میں ان کی شاعرانہ اہلیت بروئے کار آئی۔ پہلے تجارت شروع کی، مگر ناکام رہے۔ ۱۹۰۸ء میں کلکتہ میں ایران کے سفیر کے پرائیوٹ سکریٹری مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۸ء ہی میں ریاست محمود آباد میں میر منشی کے عہدے پر مامور ہوئے ۔ *۲۴؍نومبر ۱۹۴۶ء* کو *لکھنؤ* میں انتقال کرگئے۔ایک دیوان ان کی یادگار ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:25۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
۔کلاسیکی شاعر ثاقبؔ لکھنؤی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار پیش خدمت ہے...

آپ اٹھ رہے ہیں کیوں مرے آزار دیکھ کر
دل ڈوبتے ہیں حالتِ بیمار دیکھ کر
-----
اپنے دلِ بے تاب سے میں خود ہوں پریشاں
کیا دوں تمہیں الزام میں کچھ سوچ رہا ہوں
-----
اس کے سننے کے لئے جمع ہوا ہے محشر
رہ گیا تھا جو فسانہ مری رسوائی کا
-----
*باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے*
*جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے*
-----
بوئے گل پھولوں میں رہتی تھی مگر رہ نہ سکی
میں تو کانٹوں میں رہا اور پریشاں نہ ہوا
-----
*جس شخص کے جیتے جی پوچھا نہ گیا ثاقبؔ*
*اس شخص کے مرنے پر اٹھے ہیں قلم کتنے*
-----
چل اے ہم دم ذرا سازِ طرب کی چھیڑ بھی سن لیں
اگر دل بیٹھ جائے گا تو اٹھ آئیں گے محفل سے
-----
*دیدۂ دوست تری چشمِ نمائی کی قسم*
*میں تو سمجھا تھا کہ در کھل گیا مے خانے کا*
-----
*زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا*
*ہمیں  سو  گئے  داستاں  کہتے   کہتے*
-----
سننے والے رو دئیے سن کر مریضِ غم کا حال
دیکھنے والے ترس کھا کر دعا دینے لگے
-----
کس نظر سے آپ نے دیکھا دلِ مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے
-----
ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
-----
آئینۂ عبرت ہے مرا دل بھی جگر بھی
اک درد کی تصویر ادھر بھی ہے ادھر بھی
-----
*اہلِ دل جاگتے سوتے میں سنا کرتے ہیں*
*وقت کوئی نہیں ثاقبؔ مرے افسانے کا*
-----
آپ کی اک نگہِ ناز اسے چھلکا دیتی
قابل شربتِ دیدار تھا پیمانۂ دل
-----
*میں وہ ہوں جس کا زمانے نے سبق یاد کیا*
*غم نے شاگرد کیا پھر مجھے استاد کیا*

●•●┄─┅━━━★━━━┅─●•●