Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, January 19, 2019

اردو ادب کی ورجینا وولف " قرة العین حیدر " کی فن و شخصیت۔یوم ولادت 20 جنوری(1927) کے موقع پر خاص پیشکش۔

محمد عباس دھالیوال/ مالیر کوٹلہ پنجاب/ صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اردو ادب کو جن ناول نگاروں پر ناز ہے ان میں قرۃالعین حیدر کا نام سر فہرست آتا ہے. قرۃالعین حیدر کو اہلِ  ادب اردو کی ورجینا وولف کہتے ہیں اور ادبی لوگوں میں وہ عینی آپا کے نام سے بھی پیاری و دلاری جاتی ہیں. ویسے قرۃالعین کے معنی ہی آنکھوں کی ٹھنڈک کے ہیں. زبان اردو کی اس اہم فکشن نگار نے پہلی بار اردو ادب میں سٹریم آف کونشیئسنسراتکنیک کا استعمال کیا ۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔

اردو کی یہ اہم فکشن نگار 20  جنوری، 1927ء کو اتر پردیش کے علی گڑھ میں ایک متوسط طبقے کے ادبی گھرانے میں پیدا  ہوئیں۔ آپ کا ایک علم تعلق ایک علمی خاندان سے تھا، جو غیر منقسم ہندوستان میں یوپی کا زمیندار گھرانہ  تھا، جس کے کئی اشخاص مغل دربار کے منصب دار رہے. قرۃالعین کے پَر دادا امیر احمد علی نے 1857ء کی جنگِ آزادی میں حصہ لیا، جبکہ دادا سید جلال الدین حیدر، انگریز حکومت سے رجوع کرکے سرکاری ملازم ہوگئے تھے بعد ازاں وہ ہندوستانی شہر بنارس کے حاکم ہوئے اور آپکو  خان بہادر کا خطاب بھی ملا تھا آپ کے والد سید سجاد حیدر یلدرم اردو کے بڑے مترجم اور پہلے افسانہ نگار وں کے شمار کیے جاتے ہیں جبکہ آپ کی والدہ کا نام نذر سجاد تھا، وہ بھی اردو کی معروف ناول نگار تھیں۔
قرۃ العین حیدر نے اپنی ابتدائی تعلیم کونونٹ اسکول، اس کے بعد اعلیٰ تعلیم ’ازابلاتھو برن کالج‘ اور ’لکھنؤ یونیورسٹی‘ سے حاصل کی. اس کے ساتھ ہی انگریزی میں ماسٹرز کرنے کے علاوہ ’گورنمنٹ اسکول آف آرٹس، لکھنو‘ اور ’ہیڈمیز اسکول آف آرٹس، لندن‘ سے مصوری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ اس کے علاوہ آپ امریکی جامعات سمیت علی گڑھ یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے  بطورِ مہمان پروفیسر تا حیات  وابستہ رہیں۔
وطن کی تقسیم کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ لیکن بعد میں انہوں نے بھارت آ کر رہنے کا فیصلہ کیا اور 1950ء میں وزراتِ اطلاعات و نشریات پاکستان سے بحیثیت انفارمیشن آفیسر وابستہ ہوگئیں۔ لندن میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن سے بطور پریس اتاشی سے بھی وابستہ رہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان ایئر لائن سے بھی کچھ عرصہ وابستگی رہی۔

قرۃالعین نے اپنی پہلی کہانی صرف 6 برس کی عمر میں لکھی، جو شایع نہ ہوسکی. اس کے بعد "بی چوہیا" 11 سال کی عمر میں لکھی. جبکہ آپ کی پہلی شایع ہونے والی کہانی  'پھول' تھی جس کی اشاعت بچوں کے ایک اخبار میں  ہوئی، اُس وقت اُن کی عمر صرف 13 برس تھی۔ اُنہوں نے ناول، ناولٹ اور افسانے  کے علاوہ کچھ مشہور مغربی کتابوں کے تراجم  کیے اور ساتھ ہی رپورتاژ بھی لکھیں۔
آپ کی کہانیوں کے زیادہ تر کردار شمالی ہندوستان کے متوسط طبقے اور ہماری مشترکہ گنگا جمنی تہذیب سے وابستہ ہیں.

قرۃ العین حیدر کو اپنے تخلیقی کام میں سب سے زیادہ شہرت، ناول نگاری میں حاصل ہوئی ، ادبی تخلیقات کے علاوہ آپ نے صحافت، فلم اور مصوری کے شعبے میں بھی نمایاں کارنامے انجام دیے. اس کے علاوہ آپ فینسی ڈریس اور بیت بازی کے مقابلے بھی منعقد کرواتی تھیں اسی سلسلے میں پاکستانی جریدے ’پاکستان کوارٹرلی‘ کی قائم مقام مُدیر رہیں اور ہندوستان کے معروف ہفتہ وار انگریزی جریدے ’السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا‘ کی معاون مدیر بنیں  اِس کے ایک اور انگریزی جریدے ’امپرنٹ‘ کی بھی آپ مُدیر اعلیٰ  رہیں. اپنے
پاکستانی قیام کے دنوں کے دوران آپ نے کئی دستاویزی فلموں کو پروڈیوس کیا جبکہ ہندوستان میں سینٹرل بورڈ آف فلمز سے بھی آپ منسلک رہیں۔ عینی آپا کو مصوری سے بھی خاص لگاؤ تھا، اس کے ساتھ ساتھ فینسی ڈریس مقابلوں کا  بھی انعقاد  کرواتی رہیں.

قرۃ العین حیدر نے مجرد زندگی گزاری، اُن کی زندگی میں ایک آدھ مرتبہ ایسا بھی موقع آیا، جب اُن کی شادی ملک کے معروف ادیب خواجہ احمد عباس اور پاکستان کے معروف نقاد و محقق ابوالخیر کشفی سے ہوتے ہوتے رہ گئی۔ وہ مزاج کے اعتبارسے بھی کچھ سخت تھیں، لیکن جن سے دوستی ہوجاتی، اُن سے بہت فراخدلی اور شفقت سے پیش آتیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ادبی منظرنامے کی ’عینی آپا‘ بھی کہلائیں۔ پاکستان کی معروف شاعرہ ’پروین شاکر‘ نے اُن کی مجردانہ زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے ایک نظم لکھی تھی۔ جس کا قرۃ العین حیدر نے بے حد بُرا مانا، کیونکہ اُن کے خیال میں یہ نظم اُن کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کے مترادف تھی۔
60ء کے دہائی کے ابتدائی برسوں میں آپ نے پاکستان کی شہریت ترک کرکے کچھ عرصہ انگلستان رہنے کے بعد واپس ہندوستان لوٹ آئیں.
پاکستان سے واپس ہندوستان چلے آنے کے متعلق معروف ادیب قدرت اللہ شہاب کی بات کو حوالہ بنایا جاتا ہے، جس کے مطابق قرۃ العین حیدر پاکستان میں جنرل ایوب کے مارشل لاء سے ادیبوں پر لگنے والی پابندیوں سے دلبرداشتہ تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اِس بات سے ہمیشہ انکار کیا۔ پاکستان کیوں چھوڑ کرگئیں، اِس پر کبھی کوئی بات نہیں کی مگر ایک عام خیال  کیا جاتا ہے کہ جب اُن کا ناول ’آگ کا دریا‘ شایع ہوا تو پاکستان میں اِس ناول کے پلاٹ اور کہانی کے چلتے آپ کو وہاں خوب آڑے ہاتھوں لیا گیا کیونکہ اس ناول میں قدیم ہندوستان، بُدھ مت اور دیگر ہندوستانی روایات کی عکاسی کی گئی تھی ۔ کہتے ہیں کہ قرۃالعین یہ تنقید برداشت نہ کر پائیں اور وہ پاکستان سے برطانیہ اور پھر اپنے آبائی وطن ہندوستان چلی آئیں.
قرۃ العین حیدر نہ صرف ناول نگاری کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے افسانوں اور بعض مشہور تصانیف کے ترجموں کے لیے بھی جانی جاتی ہیں۔ ان کے مشہور ناولوں میں آگ کا دریا، آخرِ شب کے ہم سفر، (گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ ) میرے بھی صنم خانے، چاندنی بیگم اور کارِ جہاں دراز ہے،روشنی کی رفتار، سفینۂ غمِ دل، پت جھڑ کی آواز، گردشِ رنگِ چمن، چائے کے باغ، دلربا، اور ناولٹ اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو شامل ہیں یہاں قابل ذکر ہے کہ اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو پر دوردرشن کی پر سیریل بھی چلتا رہا ہے.
یہاں قابل ذکر ہے کہ آپ کے بیشتر ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد نظرآتا ہے جبکہ آپ کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کے شاہکار کے ناولوں کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ آگ کا دریا قریب ڈھائی ہزار سالہ تاریخ و تہذیب کو خود میں سمیٹے ہوئے ہے. یہاں آپ قارئین بھی آگ کا دریا کے اقتباس ایک جھلک دیکھیں  کہ عینی آپا نے اپنے الفاظ میں کس خوبصورتی کے ساتھ منظر کشی کی ہے. اقتباس "گوتم نیلمبر نے چلتے چلتے ٹھٹھک کر پیچھے دیکھا. راستے کی دھول بارش کی وجہ سے کم ہو چکی تھی. گو اس کے اپنے پاؤں مٹی سے اٹے پڑے تھے. برسات کی وجہ سے گھاس اور درخت زمرد کے رنگ کے دکھلائی پڑ رہے تھے اسوک کے نارنجی اور سرخ پھول گہری ہریالی میں تیزی سے جھلملاتے تھے اور ہیرے کی ایسی جگمگاتی پانی کی لڑیاں گھاس پر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئ تھیں. ندی کے پار پہنچتے پہنچتے بہت دیر ہو جائے گی گوتم کو خیال آیا. گھاٹ پے کشتیاں کھڑی تھیں اور برگد کے نیچے کسی من چلے ملاح نے زور زور سے ساون الاپنا شروع کر دیا تھا. آم کے جھرمٹ میں ایک اکیلا مور پر پھیلا ئے کھڑا تھا. شراوستی یہاں سے پورے پچیس کوس تھا اور گوتم نیلمبر کو ندی تیر کر پار کرنا تھی. گھاٹ پر تین لڑکیاں ایک طرف بیٹھی باتیں کر رہی تھیں. ان کے ہنسنے کی آواز یہاں تک آ رہی تھی. لڑکیاں کتنی باتونی ہوتی ہیں. گوتم نے سوچا انھیں بھلا کون سے مسئلے حل کرنا ہیں. اس کا دل چاہا کہ نظر بھر کر انھیں دیکھ لے. خصوصاً اس کیسری ساری والی لڑکی کو جس نے بالوں میں چمپا کا پھول اڑس رکھا تھا. اس کے ساتھ جو لڑکی نچلی سیڑھی پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی اس کے گھنگھریالے بال تھے اور کتابی چہرہ اور جڑی ہوئی سیاہ بھویں." قرۃالعین حیدر  کے مختلف ناولوں اور افسانوں کے کردار وں کی زبان ایک دم نیچرل ہے اگر کردار ہندو ہے تو اس کردار کی زبان سے نکلنے والے الفاظ میں ہندی بھاشا کی جھلک آپ صاف دیکھ سکتے ہیں آپ بھی ان کے ناول کا ایک اقتباس دیکھیں کہ" کوئی ودیارتھی جان پڑتا ہے..."بڑی کٹھن زندگی ان بیچاروں کی ہوتی ہوگی. "نرملا کو اپنے بھائی کا خیال آ گیا. جو اسی طرح کی ان گنت ندیاں، چٹیل میدان اور دشوار گزار پہاڑیاں عبور کرکے بہت دور تشکلا گیا ہوا تھا اور اب تک نہیں لوٹا تھا."

قرۃالعین حیدر کو اپنے ادبی سفر کے دوران مختلف اعزازات و انعامات سے نوازا گیا ان میں آپ کو ساہتیہ اکادمی کا اعزاز افسانوی مجموعہ پت جھڑ کی آواز پر 1967ء میں ملا.  اس کے علاوہ  انہیں سوویت نہرو ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا ساتھ ہی آخری شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں ملک کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ  سے نوازا گیا. اس سے پہلے آپ کو حکومت نے  1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات سے نوازا گیا.
اردو ادب کی یہ عظیم فکشن نگار یعنی ہم سب کی عینی آپا آخر کار 21 اگست 2007ء کو طویل علالت کے بعد اس دار فانی سے ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہو گئیں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کا قبرستان میں مدفن ہوئیں. بے شک قرۃالعین حیدر آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن اپنی نایاب و بے مثال تخلیقات کی بدولت وہ آج بھی اہلِ ادب حضرات کے دلوں میں زندہ ہیں.

محمد عباس دھالیوال۔
رابطہ۔۔۔9855259650۔
ای میل۔۔۔۔abbasdhaliwal72@gmail.com