Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, January 13, 2019

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ،،،،گزشتہ 30 مہینوں کا جائزہ۔


مہدی حسن عینی قاسمی_ / صدائے وقت/ مولانا سراج ہاشمی۔
  ______________________

   1972 میں ملک کے مشہور متبنی کیس میں عدالت عظمی نے شریعت مخالف فیصلہ دیا تو اکابرین ملت اسلامیہ ھند نے تحفظ شریعت کے لئے ایک وفاق بنائی جسے دنیا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نام سے جانتی ہے بورڈ نے گزشتہ 37 سالوں سے عائلی مسائل کی تفہیم کا کام اپنے سطح پر انجام دیا اور مسلمانوں کے پرسنل لاء میں حکومت و عدالت  کی مداخلت سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن خواتین کے مسائل کو انہیں کے ذریعہ ملت کے سامنے پیش کرنا ضروری تھا ذمہ داروں نے وقت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خواتین ونگ کی بنیاد ڈالی خواتین ونگ نے تھوڑے عرصہ میں ہی  مختلف پروگراموں اور سینکڑوں احتجاجات کے ذریعہ ملک بھر میں اپنا وجود منوالیا ہے.
جون 2016 میں آر ایس ایس کے اشارے پر کام کرنے والی ایک نام نہاد مسلم خاتون تنظیم نے طلاق ثلاثہ کے خلاف میڈیا کے سامنے ہوّا کھڑا کیا اور اپنے ساتھ ہزاروں خواتین کے ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا۔ ہر طرف خاموشی تھی اور میڈیا شور مچائے جارہا تھا۔ تبھی بورڈ کا خاتون ونگ پوری سرگرمی کے ساتھ کام میں لگ گیا۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں بہت کام یاب پریس کانفرنسیں کی گئیں۔ اسلام کا نظامِ طلاق بھی واضح کیا گیا اور موجودہ جھوٹے پروپیگنڈے کی قلعی بھی کھولی گئی۔ میڈیا کا اُن پریس کانفرنسوں کی طرف متوجہ ہونا تھا کہ بالکل سناٹا ہوگیا۔
اکتوبر 2016 میں موجودہ فرقہ پرست مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ و تعدد ازدواج کے خلاف حلف نامہ داخل کیا۔ بورڈ نے اس کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا حلف نامہ بھی داخل کیا۔ اس درمیان لاءکمیشن آف انڈیا نے حکومت کے اشارے پر ایک سوال نامہ بھی جاری کیا۔ تاکہ یکساں سول کوڈ کے لیے راہ ہموار کی جاسکے۔ بورڈ نے دہلی کے پریس کلب میں تمام مسالک اور جماعتوں کی مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ لاکمیشن کے سوال نامے کا بائیکاٹ کیا۔ یکساں سول کوڈ کے خلاف مسلم پرسنل لا کی حمایت میں تحریک چھیڑنے کا اعلان کیا۔بورڈ کے صدر نے اس سلسلے میں تحریری اپیل جاری کی۔ ملک بھر میں بیداری کی ایک لہر چل پڑی۔ گاؤں دیہات سے لے کر شہروں تک دستخطی مہم چل پڑی۔ شاہ بانو کیس کے بعد مسلمانان ہند میں اس طرح کی بیداری پہلی مرتبہ دیکھنے کو ملی ۔مہم کے اختتام پر تقریباً پانچ کروڑ دستخط بورڈ کے مرکزی دفتر پہنچے، جن میں تین کروڑ خواتین اور دو کروڑ مردوں کے دستخط شامل تھے۔ ان تمام دستخطوں کو مرد عورت اور صوبوں کے لحاظ سے الگ الگ کیا گیا۔ پھر ماہرین کی نگرانی میں ان سب کو اسکین کرایا گیا اور صدر جمہوریہ، وزیر اعظم، وزیرقانون ،لاکمیشن اور دوسرے اہم سرکاری ذمے داران و اداروں کو میل کیا گیا۔ مزید یہ کہ ان تمام اسکین شدہ دستخطی کاغذوں کو ہارڈسک میں منتقل کرکے ایک وفد لاء کمشنر کے پاس گیا اور انھیں وہ ہارڈسک سونپی۔ اس پوری مہم کے تین بڑے فائدے ہوئے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں میں شریعت کے متعلق بیداری پیدا ہوئی۔ دوسرے یہ کہ آئندہ اس طرح کے کسی بھی موقعے کے لیے بورڈ کے پاس پانچ کروڑ مسلمانوں کا یہ واضح اعلان محفوظ ہوگیا کہ وہ شریعت ہی کو اختیار کریں گے اور یکساں سول کوڈ کو قبول نہیں کریں گے۔ تیسرا فائدہ یہ کہ لاکمیشن سخت دباؤ میں آگیا اور اس نے اس بالآخر یہ اعلان کردیا کہ ملک کو ابھی یونیفارم سول کوڈ کی ضرورت نہیں ہے 16 ؍اگست 2017سے سپریم کورٹ میں ایک مجلس کی تین طلاق کے مسئلے پر سماعت شروع ہوئی۔ اس مسئلے میں مرکزی حکومت نے کھلے عام مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو ایک فریق بنایا تھا۔چیف جسٹس آف انڈیا سمیت تین ججوں کی ایک بنچ نے مسلسل چھ دن تک معاملے کی سماعت کی۔ تین دن سرکاری وکیلوں نے اپنی بات پیش کی اور تین دن بورڈ کے وکیلوں نے.بالآخر سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کو چھ ماہ کے لیے کالعدم بھی قرار دیا اور مسلم پرسنل لا کو بنیادی حق بھی تسلیم کیا،طلاق ثلاثہ کے متعلق سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت ہند سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں متعلقہ افراد و اداروں سے مشورہ کرکے کوئی قانون بھی بنا لے۔ اس پر حکومت ہند نے کہا تھا کہ جب سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دے دیا تو اب کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔اسی درمیان گجرات میں صوبائی الیکشن آگئے۔ ہماری فرقہ پرست حکومت نے ماحول گرم کرنے اور متعصب ہندؤوں کو خوش کرنے کے لیے طلاق ثلاثہ کے خلاف ایک انتہائی احمقانہ اور غیر منطقی بل تیار کرایا اور اسے بہت جلد بازی میں لوک سبھا میں پاس بھی کرا لیا۔اس میں اپوزیشن پارٹیاں بھی حکومت کی ساتھ تھیں،
22 اگست 2017 کو طلاق ثلاثہ کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جس طرح سے مسلم پرسنل لاء بورڈ نے الگ الگ محاذ پر ملک گیر مہم چھیڑی اس نے وقت کے ساتھ اپنی اہمیت و ضرورت کا احساس دلادیا دستخطی مہم اور تفہیم شریعت مہم کے بعد جب بات اقدام کی آئی تو بورڈ کی خاتون ونگ کے بینر تلے ملک کے طول و عرض سے لاکھوں عورتوں نے سینکڑوں مرتبہ سڑکوں پر اتر کر یہ اعلان کیا کہ انہیں اپنی شریعت پر فخر اور اطمینان ہے،انہیں اپنے وفاق مسلم پرسنل لاء بورڈ پر پورا اعتماد ہے،پھر جب مرکزی حکومت نے  لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ بل بنام وومین پروٹیکشن بل پیش کرکے پاس کرالیا تو بورڈ کے ذمہ داروں اور خاتون ونگ کی کارکنوں نے اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں اور ممبران سے ملاقات کرکے اس بل کی خامیاں بتلائیں اور انہیں راجیہ سبھا میں اس بل کی مخالفت کے لئے تیار کیا،
لوک سبھا میں اکثریت کی وجہ سے مرکزی حکومت دونوں مرتبہ اس بل کو منظور کروانے میں کامیاب رہی لیکن بورڈ کی کوششوں اور اپوزیشن پارٹیوں کے سخت تیور کے نتیجہ میں  یہ بل اس مرتبہ بھی راجیہ سبھا میں پیش نہیں ہوسکا اور مرکزی حکومت کی جانب سے چھ مہینہ پہلے لایا گیا آرڈینینس بھی اپنی مدت کی تکمیل کے بعد کالعدم اور بے اثر ہوکر رہ گیا ہے.ادھر بابری مسجد مقدمہ کی سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیت العلماء کے مشترکہ وکیل ڈاکٹر راجیو دھون کے پانچ ججوں کے بینچ  کے رکن جسٹس للت یو.یو کے متعلق اعتراض کے نتیجہ میں جسٹس للت کو اس کیس سے خود کو الگ کرنا پڑا اور نئی بینچ کی تشکیل کے بعد سپریم کورٹ نے اگلی سماعت کی تاریخ 29 جنوری 2019 کی طے کی ہے ماہرین قانون کی نظر میں یہ ایک مثبت پہلو ہے.
ادھر بورڈ کی سوشل میڈیا ڈیسک نے بھی گزشتہ دو سالوں کی مدت میں اپنی اہمیت کا احساس دلایا ہے اور بورڈ کے کاموں کی تشہیر،شریعت کی تفہیم اور مختلف امور پر سرگرم عمل ہوکر ہزاروں نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے جس کے نتیجہ میں 11 جنوری 2019 کو سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ایماء پر
#NoTTBill
کے ہیش ٹیگ کے ساتھ چلائے گئے ٹویٹر ٹرینڈ میں 35 ہزار سے زائد ٹویٹ کئے گئے اور آل انڈیا سطح پر یہ ٹرینڈ دوسرے نمبر پر رجسٹرڈ ہوا جو سوشل میڈیا ڈیسک کی فعالیت اور اس کے ذمہ داران و کارکنان کی مخلصانہ جد و جہد کا نتیجہ ہے لیکن سوشل میڈیا ڈیسک کو ابھی بہت کام کرنا باقی ہے،ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعہ شریعت کی تفہیم کے لئے "روبرو" جیسے پروگرامز کو مختلف زبانوں میں یوٹیوب چینل اور فیس بک پر لانچ کرنا ہوگا،نیز علماء و دانشوروں کے ایک بڑے طبقہ کو تربیت دے کر سوشل میڈیا پر اسلام کے متعلق کئے جانے والے اعتراضات کا ہر زبان میں جواب دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رکھنا ہوگا.
مقام شکر ھیکہ خواتین کا ایک جم غفیر اب بورڈ کے پروگراموں میں شرکت کرتا ہے اور تفہیم شریعت، دین بچاؤ دستور بچاؤ جیسے  عناوین پر بورڈ کے موقف کو سمجھتا ہے،اس کے باوجود خواتین ونگ کو اب بھی کئی محاذ پر خود کو مضبوط کرنا ہوگا،ملک میں موجود دوسری مسلم خواتین تنظیموں کے کیڈرس کو بورڈ کے مقاصد کی تشہیر کے لئے اپنے ساتھ لیکر چلنا ہوگا.بوتھ سطح پر مسلم پرسنل لاء کی تفہیم کے لئے کمیٹیاں تشکیل دے کر کام کرنا ہوگا،اکیڈمک طریقہ پر مختلف زبانوں میں لیٹریچرز تیار کرکے ہر مسلم خاتون تک پہونچانا ہوگا،خواتین ونگ میں مختلف مسالک و مشارب کی باصلاحیت فاضلات کی تقرری کرکے انہیں زمینی سطح پر استعمال کرنا ہوگا. بورڈ کے سوشل میڈیا ڈیسک میں بھی خواتین کی واجب نمائندگی ہونی چاہئے نیز کیڈرس میں شریعت کی پاسداری،پردہ کی رعایت اور کردار و گفتار سے مثالی خاتون بننے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا.
سردست یہی چند نگارشات ہیں،گزشتہ تین سالوں کی کارگزاری سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ملت کی شیرازہ بندی کے لئے قائم ملت کے نمائندہ وفاق آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ پر ملت کو پورا اعتماد و اطمینان ہے ملت نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ مایوسی کا شکار نہیں ہے بلکہ دفاع شریعت کی ہر مہم میں اپنی دینی قیادت کے شانہ بشانہ ہے ملت مرحومہ کا یہی جذبہ اور حوصلہ دینی جماعتوں کی اسپرٹ اور طاقت ہے جس کا درست استعمال متاع گمشدہ کو دوبارہ واپس لاسکتا ہے انشاءاللہ