Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, January 15, 2019

سپا بسپا اتحاد مسلم سیاسی قوت کو ختم کرنے کی سازش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا عامر رشادی۔


          اگرسپا بسپا اتحادکو مسلموں کا ووٹ چاہیئے تو انہیں حصہ داری دیں: راشٹریہ علماء کونسل۔

لکھنؤ: اتر پردیش۔پریس ریلیز/ صدائے وقت/ عبد الرحیم صدیقی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
2019 لوک سبھا انتخاب کو لیکر سپا بسپا اتحاد کے اعلان کے بعد اس کی مخالفت بھی ہو رہی ہے۔ خاص طور سے مسلم طبقہ کے دانشوران، سماجک و سیاسی طبقات کی ایک بڑی تعداد اس بات کو لے کر کافی ناراض ہے کہ اس عظیم اتحاد میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی صفر ہے۔ اسی کڑی میں راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی نے لکھنؤ میں ایک پریس کانفرنس کر گٹھ بندھن کو مسلمانوں کے لئے ''ٹھگ بندھن'' قراردیا۔ پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے مولانا عامر رشادی نے کہا کہ سیکولرزم کے نام پر بنے اس نام نہاد اتحاد میں سب سے زیادہ اگر کوئی خود کو ٹھگا محسوس کر رہا ہے تو وہ مسلم سماج ہے کیونکہ کئی دہائیوں سے مسلم سماج نے عام رواج کے مطابق سپا بسپا کو ووٹ دیا ہے اور 70 سالوں سے سیکورزم کی بنیاد کو مظبوط کیا ہے لیکن اس عظیم اتحاد سے مسلم قیادت والی پارٹیوں کو دور رکھنا نہ صرف سپا بسپا کا مسلم قیادت والی پارٹیوں کے تئیں سیاسی زیادتی ہے بلکہ سوشل جسٹس کے بھی خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ 7 فیصد یادو سماج کے لیڈر اکھلیش یادوجی اور 11 فیصد جاٹو سماج کی لیڈر مایاوتی جی آپس میں 38_38 سیٹوں کا بنٹوارا کر رہی ہیں اور 22 فیصد مسلم سماج کے نیتاؤں کو کچھ بھی حصہ داری نہ دیکر مفت میں صرف بھاجپا کا ڈر دکھا انکا ووٹ لینا چاہتی ہیں۔ مسلم سماج اب سیاسی طور پر بیدار ہو چکا ہے اورڈر و خوف کی سیاست سے باہر آکر اپنے سیاسی حقوق کی بازیابی، نمائندگی اور قیادت کے لئے کوشاں ہے۔ مسلمانوں کو اب خیرات میں مسلم نام والے سپا بسپا کے نمائندے (ایم ایل اے و ایم پی) نہیں چاہیئے بلکہ انہیں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے لیڈر چاہیئے جو ان کے سماج کے مسئلوں کو سڑک سے سنسد تک بنا کسی دباؤ کے اٹھا سکے اور انہیں حل کرا سکے ورنہ مسلم ایم پی/ایم ایل اے تو 2012 میں 69 تھے پھر بھی مظفرنگر سمیت سیکڑوں دنگے ہوئے اور سپا بسپا کے پچاسوں مسلم نمائندوں میں کوئی بھی اپنی آواز تک نہیں اٹھا سکا کیونکہ پارٹی قیادت سے اجازت نہیں تھی۔ یہی نہیں بھاجپاحکومت کے ہمارے شرعی معاملوں میں دخل اندازی کرتے ہوئے ٹرپل طلاق پر غیرآئینی بل لانے کی کھل کرمخالفت تک یہ نام نہاد پارٹیاں پارلیمنٹ میں نہ تو خود کرسکیں نہ ان کے مسلم نام والے لوک سبھا و راجیہ سبھا ایم پی کر سکے تو ایسے میں ان میں اور بھاجپا میں کیا فرق رہ گیا کہ بھاجپا نے بل لایا اور سپا بسپا نے اس پر خاموش رہ یہ واک آؤٹ کر اپنی خاموش موافقت دے دی۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کے پاس اپنی آواز اٹھانے کے لئے صرف انکی اپنی قیادت والی سیاسی پارٹیاں ہی متبادل کے طورپے ہیں۔ کیونکہ ملک کی موجودہ سیاست میں ہر سماج کا اپنا ایک سیاسی دل ہے جو اس سماج کی نمائندگی کر رہا ہے اور ان کے مسائل کو اٹھا انکو حل کرانے میں کوشاں ہے۔ ایسے حالات میں آج تیزی سے صوبہ و ملک کا مسلمان بھی اپنی قیادت والی سیاسی پارٹیوں پر اعتماد کررہا ہے اور ایسے میں سپا پسپا کے اس اتحاد کے ذریعہ مسلم قیادت والی پارٹیوں کو سرے سے نکار دینا کہں نہ کہیں ان مسلم قیادت والی پارٹیوں کو ختم کرنے کی سازش نظر آتی ہے۔ظاہری طور پر سپا بسپا نے یہ اتحاد اپنے وجود کو بچانے کے لئے کیا ہے پرکہیں نہ کہیں بھاجپا کو روکنے کے نام پر مسلمانوں کا ووٹ بھاجپا کا ڈر دکھا اک مشت لے کر تیزی سے ابھر رہی مسلم قیادت والی پارٹیوں کو نقصان پہچانے کے لئے کیا گیا ہے؟ اگر یہ صحیح نہیں ہے تو اکھلیش یادوجی اور مایاوتی جی بتائیں کہ سچ کیا ہے؟ آخر اس اتحاد میں مسلمانوں کی جگہ کیوں نہیں ہے؟ جبکہ بنا اتحاد کے دو سیٹ کانگریس کے لئے چھوڑ دی گئی ہے تو وہیں دو سیٹ 1.5 فیصد ووٹ والی دوسرری قیادت کے لئے چھوڑی دی گئی ہے تو پھر اس حساب سے تعداد کے اعتبار سے مسلم قیادت والے دلوں کے لئے سولہ16 سیٹ بنتی تھی پر سولہ نہ سہی 10 ہی چھوڑتے پر یہاں تو 2 سیٹ بھی مسلم سماج کے لیڈروں کے لئے نہیں اعلان کر چھوڑی گیءں؟

انہوں نے سوال کیا کہ مسلم نمائندگی کے لئے اس اتحاد کے پاس کیا منصوبہ ہیں؟ آخر کب تک مسلمان سیکولرزم کا کولی بن اسے ڈھوتا رہے گا اور یہ پارٹیاں اس کے سہارے حکومت کا مزہ لیتے رہیں گی۔ اکھلیش یادوجی نے تو 2017 کے اسمبلی انتخاب سے ہی مسلمانوں کا نام اپنی زبان سے لینا چھوڑ دیا ہے گر کہیں بولنا بھی ہوتا ہے تو الپسنکھیک(اقلیت) لفظ کا استعمال کرتے ہیں اور 12 جنوری کی پریس کانفرنس میں بھی یہ نظر آیا کہ جہاں مایاوتی جی نے تومسلمانوں کا نام اپنی زبان پر لایا بھی مگر اکھلیش یادوجی نے ہر طبقہ کا نام اپنی زبان پر لیا لیکن مسلمانوں کی نام سے پرہیز کیا ایسے میں مسلمان ان سے کیسے اور کیا امید کر سکتا ہے کہ الھلیش یادو مسلمانوں کے مدعہ کو اٹھانے کی ہمت کر سکینگے؟ بسپا 2014 کے عام انتخاب میں ایک بھی سیٹ نا جیت سکی اور اسکے وجود کی بقا کا ڈر مڈلانے لگا۔ ایسے حالات میں دلت لیڈرشپ کو بچائے رکھنے کے لئے ہم نے بابا صاحب امبیڈکر کو پارلیمنٹ میں بھیجنے کے لئے مسلم لیگ کی قربانی کی تاریخ کو دہراتے ہوئے صوبہ و عوام کے حق میں بسپا کو بلا شرط حمایت کا اعلان کیا تاکہ معاشرے کے دبے کچلے طبقے میں دلت مسلم اتحاد کی مثال قائم ہوسکے اور راشٹریہ علماء کونسل کے اعلان پر صوبہ کے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بسپا کے ساتھ کھڑا رہا اور بسپا 19 سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی جس میں خاص طور پر پروانچل کی 11 سیٹوں پر جیت میں راشٹریہ علماء کونسل کا اہم رول رہا تو وہی صوبہ میں دیگر جیتی ہوئی سیٹوں پر بھی کونسل کی اہم شراکت رہی اور 2012 و 2017 ودھان سبھا انتخابات کے اعدادوشمار اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے مگر یہ بات افسوسناک ہے کہ مایاوتی جی نے صوبہ کے مسلمانوں اور ان کی قیادت کی قربانیوں کو بھی نکار دیا اور موجودہ سپا بسپا اتحاد میں مسلم قیادت کو اہمیت نہیں دی ایسے میںیہ شک اور مضبوط ہوتا ہے کہ سپا بسپا نے سوچی سمچھی سازش کے تحت مسلم قیادت والے دلوں کو اس اتحاد سے دور رکھ کر انہیں سیاسی طور پر کمزور کرنے کے ساتھ ہی ایک بار پھر سے مسلم سماج کو پورے طور پر اپنا سیاسی غلام بنا انہیں ووٹ بینک تک محدود رکھنے کی سازش کی ہے۔

اگر ایسا نہیں ہے تو فی الفور سپا بسپا مسلم قیادت والی پارٹیوں کو لے کر اپنا نظریہ واضح کریں اور اور اپنے اس نام نہاد عظیم اتحاد میں راشٹریہ علماء کونسل و دوسرے مسلم قیادت والی پارٹیوں کو نمائندگی دیں۔ ورنہ راشٹریہ علماء کونسل اپنے اور اپنے سماج کی سیاسی پہچان کو بنائے رکھنے کے لئے دوسرے دبے کچلے دلت و پسماندہ سماج کے لئے لڑنے والی پارٹیوں اور ہم خیال دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر ایک نئے اتحاد کو وجود بخشے گی جس کے متعلق کوششیں جاری ہیں اور صوبہ و ملک کو بھاجپا و سپا بسپا کے خلاف ایک نیا متبادل پیش کرے گی۔ ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے راشٹریہ علماء کونسل بھی اس بات کی حامی ہے کہ بھاجپا کو روکا جائے اور اس کے لئے ہونے والی ہر ممکن کوشش کے ساتھ ہم ہیں اور 2014 سے لے کر ابتک ملک و صوبہ میں ہم نے سپا بسپاسے زیادہ موجودہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا ہے اور بھاجپا کو روکنے کے لئے ہی مدھیہ پردیش اور راجستھان میں ہوئے انتخابات میں ہم نے اپنا کوئی نمائندہ نہیں کھڑا کیا لیکن بھاجپا کے روکنے کے نام پر مسلمانوں کو ڈرا کر 22 فیصد آبادی والے پورے طبقہ کی سیاسی قیادت کو ختم نہیں کیا جا سکتا انہیں سیاسی اچھوت بناکر غلام اورووٹ بینک تک محدود نہیں کیا جاسکتا ایسی کسی بھی سازش و کوشش کو راشٹریہ علماء کونسل برداشت نہیں کرے گی۔

(اشرف اصلاحی)
میڈیا انچارج