Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, January 16, 2019

پو پی میں سپا بسپا اتحاد اور مسلمان۔؟؟؟؟مسلم قائدین کی آرا و تبصرے۔

از / ڈاکٹر شر ف الدین اعظمی۔چیف ایڈیٹر  ۔۔صدائے وقت نیوز پورٹل۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
گزشتہ ایک روز قبل میں نے "اکھیلش یادو اور مایاوتی کا انتخابی اتحاد اور مسلمان " کے عنوان کے تحت ایک مضمون تحریر کیا تھا۔میں نے اعداد و شمار پیش کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ ان دو پارٹیوں کے اتحاد نے مسلمانوں کو درکنار کیا ہے ، حالانکہ اس اتحاد کی فتح کا انحصار  مسلم ووٹوں پر ہی ہے۔یہ پارٹیاں اپنے مسلم کارکنان کو خاطر خواہ ٹکٹ بھی دیں گی اور اس میں سے بیشتر فتحیاب بھی ہوں گے۔مگر جو سوال میں نے اٹھایا ہے کہ وہ سیاسی پارٹیاں جن کے قائد مسلمان ہیں ان کو اس اتحاد میں شامل کیوں نہیں کیا گیا ؟ جبکہ 20 فیصد مسلم ووٹوں پر اتحاد کا انحصار ہے۔حیثیت کے مطابق ان دو پارٹیوں کو ایک ایک/ دو دو سیٹیں دے کر ان کی نمائندگی کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔میری تحریر پر کافی لوگوں نے اپنی تائید کی مہر لگائی ، کچھ نے اپنے تبصرے بھی کئیے۔جو پرپوزل میں نے رکھا ہے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دہلی سے ڈاکٹر ادریس قریشی کا کہنا ہے کہ اس " عظیم اتحاد" میں کانگریس کو بھی شامل کیا جائے۔! مولانا سراج ہاشمی سلطان پور کی  تعلیمی و سماجی شخصیت ہیں انھوں نے کہا کہ جب تک مظبوط مسلم لیڈر شپ نہیں ابھرے گی اس طرح کی اتھل پتھل جاری رہے گی۔پہلے مسلمان یکجہتی کا مظاہرہ کریں پھر تناسب سے حساب سے مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔
اعظم گڑھ کی فعال نوجوان شخصیت ڈاکڑ شہنواز خان کا بھی رد عمل یہی ہے کہ مسلم قوم میں اتحاد کی سخت ضرورت ہے ۔بغیر اتحاد کے قوم اس غلامی کی زنجیروں سے نہیں نکل سکتی۔
یہ تو رہی میری تحریر پر ردعمل کی بات مگر اسی طرح کے خیالات کئی ایک سیاسی پارٹیوں کے نمائندے اور دانشوران ملت رکھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔۔۔
معروف صحافی و دانشور ڈاکٹر عزیز برنی نے اپنے فیس بک پر لکھا ہے کہ " کانگریس، شیوپال، اجیت سنگھ، ڈاکٹر ایوب، مولانا عامر رشادی، مولانا توقیر رضا اور ایک دلت چہرہ۔۔یو پی فتح""(اس میں اویسی، بھیم سینا ، بھارتیہ رکشا دل وغیرہ کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے)۔ایک اور جگہ لکھتے ہیں " لو بی جے پی کو ہرانے والا اتحاد بن گیا جو اس اتحاد میں نہیں ہیں وہ سب ایک ہوجائیں۔"
راشٹریہ علماء کونسل نے گزشتہ اسمبلی الیکشن میں بی ایس پی کی بلا شرط تائید کی تھی۔(اندرونی کوئی معاہدہ ہوا ہو تو الگ بات ہے)۔اور کئی سیٹوں پر بی ایس پی کو فتح دلانے میں کامیاب بھی ہوئی مگر اس اتحاد کے لئیے مایاوتی نے درکنار کردیا۔کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی نے ایک پریس کانفرنس کرکے اس اتحاد کی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ  کہ یہ " ٹھگ اتحاد " ہے اور مسلمانوں کو ٹھگا  گیا ہے ، مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیوں کو ختم کرنے کی سازش ہے۔اس طرح سے انھوں نے بھی اس اتحاد سے نا خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیوں کے مابین اتحاد کا عندیہ دیا ہے۔
وقت کم ہے ، مگر ابھی ہے۔ضرورت ہے کسی ایک قائد کی جو اس مہم کو آگے بڑھا سکتا ہے۔نگاہ ڈاکٹر عزیز برنی، مولانا عامر رشادی ، مولانا توقیر رضا پر ٹھر جاتی ہے ۔اگر ان میں سے کوئی آگے بڑھ کر ایک میٹنگ لکھنئو میں بلا لے تو شاید کچھ کام آگے بڑھ سکتا ہے۔
میرا مقصد سپا بسپا اتحاد سے مخالفت نہیں ہے مگر جس طرح سے مایاوتی اور اکھیلیش نے مسلم قائد سیاسی جماعتوں کو درکنار کیا ہے اس سے تکلیف ضرور ہے۔اب اگر ایسا اتحاد قائم ہوجاتا جس سے مسلم ووٹ یکجا ہو جاتے اور یا تو یہ لوگ اتحاد میں شامل کرکے مسلم قیادت کو مناسب نمائندگی دیں گے یا پھر شکست کا منھ دیکھیں گے ۔بی جے پی کا خوف دل سے نکالنا ہوگا۔اگر اس طرح کا کوئی اتحاد بنا اور قائم رہا تو اس کا زبردست فائدہ اسمبلی الیکشن میں بھی ہوگا۔اکھلیش یادو اور مایاوتی کو چاہیے تھا کہ 30/ 30 سیٹوں پر وہ لوگ لڑتے اور 20 سیٹوں پر اپنے چھوٹے چھوٹے اتحادیوں کو دیتے جس میں مسلم قیادت والی پارٹیاں بھی شامل ہوتیں۔مگر مسلمانوں کو درکنار کرنے کا مطلب ان کے سامنے ان کی کوئی وقعت نہیں مسلمان مجبوری میں ان کو ووٹ دیگا ہی۔؟ یہی بات ان لوگوں کو بتانے کا وقت آگیا ہے کہ مسلمان مجبور نہیں ہے۔بلکہ تم مجبور ہو مسلمان کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئیے۔یہ وقت بلکل پرفکٹ ہے مسلم قائدین اور دانشوران کو یتھوڑا مار لینا چاہئیے۔
ایک خبر ابھی حاصل ہوئی ہے کہ کانگریس و شیوپال کے مابین اتحاد کی باتیں چل رہی ہیں اوراور اس مسلے پر دونوں پارٹیوں کے نمائندے 22/23 جنوری کو لکھنئو میں میٹنگ کرنے والے ہیں۔

ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔
رابطہ۔۔۔۔9415315155۔
ای۔میل۔۔۔dr.sazmi@gmail.com