Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 18, 2019

پھر بنے گی بابری مسجد، پھر بنے گا ہندوستان۔


ایس ڈی پی آئی کی دو ماہی ملک گیر مہم کے ایک حصہ کے طور پر نئی دہلی میں بابری مسجد کی تاریخ پر مشتمل نمائش کا افتتاح۔

نئی دہلی۔ ( پریس ریلیز)۔صدائے وقت
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
۔سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کی جانب سے جنوری اور فروری 2019، "پھر بنے گی بابری مسجد ، پھر بنے گا ہندوستان "کے عنوان کے تحت دو ماہی ملک گیر مہم کے تحت ملک کے متعدد ریاستوں کے کئی بڑے اہم شہروں میں مختلف پروگرام، سمینار، مشاعرے، نکڑ ناٹک، عوامی اجلاس، پوسٹر مہم، ہینڈبلس کی تقسیم،ثقافتی پروگرام وغیرہ کے علاوہ بابری مسجد کی تاریخ پر مشتمل نمائش لگائی جارہی ہے تاکہ آنے والی نسلیں بابری مسجد کے تعلق سے حقیقت سے واقف ہوسکیں۔کیونکہ فسطائی طاقتیں اور چند میڈیا ہاؤسس بابری مسجد کے تعلق سے من گھڑت کہانیاں بنا کر ملک کے عوام کے سامنے پیش کررہی ہیں۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا مذکورہ پراگراموں کے ذریعے ملک کے عوام تک بابری مسجد کی حقیقی تاریخ پہنچانے کی کوشش کررہی ہے جس سے ملک کے مسلمان اور برادران وطن بابری مسجد کے تعلق سے سچائی سے آشناس ہوسکیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر نئی دہلی میں کربس اسپتال کے نزدیک ، شاہین باغ میں 18،19اور 20جنوری تین دنوں تک بابری مسجد کے تاریخ کے تعلق سے نمائش گاہ لگایا گیا ہے۔ مذکورہ نمائش گاہ کا افتتاح 18جنوری 2019کو ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد کے ہاتھوں افتتاح ہواجس میں کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کی ۔اس موقع پر ایس ڈی پی آئی قومی جنرل سکریٹری ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی،دہلی صوبائی کنوینر ڈاکٹر نظام الدین خان، ایس ڈی پی آئی قومی ورکنگ کمیٹی رکن محترمہ شاہین کوثر ، پاپولرفرنٹ آف انڈیا کے زونل سکریٹری انیس انصاری اور د ہلی پردیش صدر پرویز احمد،موجود رہے۔  نمائش کا افتتاح کرنے کے بعد ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 2019میں ہونے والی لوک سبھا انتخابات کے تناظر میں بی جے پی نے پھر ایک بار فر قہ وارانہ کارڈ کھیلنے کیلئے تیار ہے تاکہ بدعنوانی اور کارپوریٹ کے کنٹرول پر چلنے والی نریندر مودی حکومت کی ناکامیوں کو چھپایا جاسکے۔ہندوتوا کے ماسٹر مائنڈاب اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ اگر دوبارہ اقتدار پر قبضہ جمانا ہو اور عوام جن مشکلات سے گذررہے ہیں ان پر سے ان کا توجہ ہٹانا ہوتو اس کا واحد طریقہ ہندؤں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہندوؤں کے تئیں فکرمند ہیں اور ہندؤں سے محبت کرتے ہیں بلکہ یہ سب ملک کے عوام کو دھوکہ دینے کی ایک سیاسی چال ہے۔ ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے بابری مسجد کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد سن 1528میں تعمیر کی گئی تھی۔مسلمان اس مسجد میں اس وقت تک نماز پڑھ رہے تھے جب تک کہ 22دسمبر 1949کی رات کو کچھ ہندو مذہبی جنونیوں کے گروپوں کی طرف سے بتوں کو مسجد کے اندر زبردستی نصب کیا گیا تھا۔ جس کے بعد منظم سازشوں کے تحت مسلمانوں کو مسجد تک رسائی حاصل کرنے سے محروم کردیا گیا تھا ۔6دسمبر 1992 کو صدیوں پرانی بابری مسجدکو منہدم کرنے کے بعد سنگھ پریوار نے نہ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ کو تباہ کیابلکہ متعدد فسادات بھی کروائے اور ہمارے ملک کے نظریات ،اقدار اور آئین کو نقصان پہنچایا ہے۔ بابری مسجد کا انہدام آزاد بھارت میں گاندھی جی کے قتل کے بعد سب سے بڑا سنگین جرم تھا۔اس گھناؤنے جرم کیلئے انہوں نے جس دن کو منتخب کیا تھاوہ دن ہندوستان کے آئین کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی موت کی برسی تھی۔بابری مسجد کا انہدام ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ تھی جو ایک طویل عرصے کے مہمات اور تیاریوں کے بعد انجام دیا گیا۔مرکزی حکومت، ریاستی حکومت، پولیس اور فوج بابری مسجد کے تحفظ اور عارضی رام مندر کی تعمیرکو روکنے میں بری طرح ناکام رہے۔
بابری مسجد منہدم کرنے کے شیطانی کارروائی کے 26سال گذرجانے کے بعد بھی بابری مسجد معاملے میں گرچہ دھوکہ تو نہیں ہوا مگر انصاف میں تاخیر ہوئی ہے۔سب کی نظریں سپریم کورٹ میں زیر التوا بابری مسجد ملکیت مقدمہ کے حتمی فیصلے اور مسجد مسمار کرنے والے مجرموں کے خلاف درج مجرمانہ مقدمات پر ٹکی ہوئی ہیں۔ اس سانحہ کے بعد ملک نے مجموعی طور پر سختی سے رام مندر کے نام پر بابری مسجد پر کئے گئے حملہ کی مذمت کی تھی اور تجویز پیش کی تھی کہ ایک قومی ازالہ کے طور پر مسجد کو دوبارہ تعمیر کرکے دیا جائے گا۔مسلمانوں کو اس بات کا بھی یقین دلا یا گیا تھا کہ منہدم کی گئی بابری مسجد کو دوبارہ اسی مقام پر تعمیر کیا جائے گا۔
بابری مسجد کو منہدم کئے ایک چوتھائی صدی کا عرصہ گذر گیا ہے۔قومی میڈیا،دانشوران اور سیکولر پارٹیوں کے لیڈران بابری مسجد کی تعمیر نوکے ایجنڈے کو سرے سے بھول چکے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف سنگھ پریوار نے مسمار کردہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کو ایک واحد مسئلہ کے طور پر تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ کیا یہ قدرتی انصاف کی خلاف ورزی کے مترادف نہیں ہے،کیا یہ اکثریتی سیاست کے خاطر ایک مذہبی اقلیت کے خلاف فرقہ وارانہ تعصب اور امتیازی سلوک کی جیت نہیں ہے؟۔ اس موقع پر ایس ڈی پی آئی نئی دہلی صوبائی کنوینر ڈاکٹر نظام الدین خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ بابری مسجد۔ رام مندر مسئلہ بھارت کے جمہوریت،سیکولرازم ، عدلیہ اور قانون کی حکمرانی کا امتحان ہے۔ بابری مسجد معاملے میں انصاف کا انکار تو دور کی بات ہے اس معاملے میں تاخیر بھی ہمارے قومی اقدار کے خلاف ہے۔ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ اقلیتی طبقہ کے ایک عبادت گاہ کو تباہ کرنے اور دوبارہ تعمیر کرنے کے اس قومی مسئلے کو سیکولر پارٹیوں نے محض اکثریتی طبقہ کے ووٹوں کے خاطراس مسئلے سے کنارہ کشی اختیار کرلیا ہے۔ ایسے سیاسی صورتحال سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ سیکولر پارٹیوں پر ہندوتوا ایجنڈے کا کس قدر اثر رسوخ ہوا ہے۔ ڈاکٹر نظام الدین خان نے کہا کہ بابری مسجد کی تعمیر نو سے ہی بھارت کی سیکولرازم بحال ہوگی۔یاد رکھنا بھی ایک دفاع ہے۔ ہم بابری مسجد کی یاد کو ہمارے دلوں میں سموئے ہوئے بابری مسجد کیلئے انصاف کا انتظار کررہے ہیں۔ ڈاکٹر نظام الدین خان نے نئی دہلی کے عوام الناس سے اپیل کیا  ہے کہ وہ بابری مسجد کے تعلق سے لگائے گئے نمائش گاہ میں اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ تشریف لائیں۔