Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 18, 2019

سنگھ کی خطر ناک کوشش!!!


تحریر/شکیل رشید / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
پریاگ راج میں مہا کمبھ کے آغاز کے ساتھ آر ایس ایس نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی ’رٹ‘ مزید تیز کردی ہے۔ جمعہ کو آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری بھیا جی جوشی نے صاف لفظوں میں یہ کہہ دیا ہے کہ ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ ۲۰۲۵ سے پہلے پہلے رام مندر تعمیر ہوجائے‘‘۔ جوشی نے مرکزی سرکار کا نام تو نہیں لیا لیکن ان کی یہ ’چاہت‘ مرکزی سرکار سے ہی ہے۔ واضح رہے کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیےسب سے زیادہ زور دار آواز اُٹھانے والے سنگھی قائدین میں بھیا جی جوشی سرفہرست ہیں۔ وہ رام مندر کی تعمیر کے وعدے کو پورا نہ کرنے کےلیے مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بھی بنا چکے ہیں۔ یہ بھیا جی جوشی ہی تھے جنہوں نے مرکزی سرکار سے رام مندر کی تعمیر کےلیے قانون بنانے کی مانگ کی تھی۔ اب مہا کمبھ کے آغاز کے ساتھ انہوں نے پھر سے ر ام مندر کا معاملہ گرم کردیا ہے۔ جمعہ کو انہوں نے بہت ہی واضح طو رپر کہا ہے کہ اگر ابھی سے رام مندر بنانے کی شروعات کی گئی تو ۲۰۲۵ آنے تک کام مکمل ہوجائے گا، بالفاظ دیگر یہ  کہ اگر ابھی سے تعمیر کا کام شروع نہیں ہوا تو پھر ۲۰۲۵ تک یہ کام مکمل نہیں ہوسکے گا۔ یہ ایک طرح سے ملک کے بھاجپائی وزیر اعظم نریندر مودی کی سرزنش ہی ہے جنہوں نے حال ہی میں یہ بیان دیا ہے کہ ایودھیا معاملے کا جب تک عدالتی فیصلہ نہیں ہوجاتا رام مندر کےلیے کوئی آرڈیننس نہیں لایاجائے گا۔ آر ایس ایس شروع سے یہ کہتی چلی آرہی ہے کہ جو آج اقتدار میں ہیںانہوں نے رام مندر بنانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے انہیں عام ہندوئوں کی بات سننی چاہئے اور ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے وعدے کو پورا کرناچاہئے۔ لیکن الیکشن کے موسم میں بی جے پی اپنے قدم احتیاط سے رکھ رہی ہے۔
اسے پتہ ہے کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور ذرا سی بے احتیاطی کے نتیجے میں اسے سیاسی محاذ پر منہ کی کھانی پڑسکتی ہے۔ مرکزی سرکار اگر آرڈیننس لاتی ہے تو عدالت اسے رد بھی کرسکتی ہے۔ ایسا ہوا تو بی جے پی عوام سے یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم تو خلوص کے ساتھ آرڈیننس لائے تھےلیکن عدالت نے اسے رد کردیا اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ لیکن حزب اختلاف اسے سیاسی حربہ ثابت کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا سکتاہے اور عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا سکتا ہے کہ بی جے پی کو خوب پتہ تھا کہ آرڈیننس قانون کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترے گا اسی لیے آرڈیننس لایا گیا تھا۔ برسراقتدار جماعت اور حزب اختلاف کی لفظی جنگ کا نتیجہ بی جے پی کےلیے مثبت بھی ہوسکتا ہے او رمنفی بھی، اس لیے مودی سرکار آرڈیننس لانے کا خطرہ مول نہیں لیناچاہتی۔ لیکن آر ایس ایس کا پورا زور ہے کہ قانون بنایاجائے۔ وشو ہندو پریشد بھی قانون بنانے پر زور دے رہا ہے۔ مہا کمبھ میں سادھو سنتوں کی ایک بڑی تعداد رام مندر کے نعرے لگا رہی ہے۔ پریاگ راج میں مہا کمبھ میں رام مندر کی تعمیر پر زور دینے کےلیے بے شمار پوسٹر چسپاں کردئیے گئے ہیں۔ پوسٹروں کی زبان کافی اشتعال انگیز ہے۔ ایک پوسٹر میں تحریر ہے ’’تلسی تیرے دیش میں؍رام کچہری جائے؍سرکاروں کے بیچ میں مندر غوطہ کھائے‘‘۔ ایک دوسرے پوسٹر میں تحریر ہے ’’اگر اب بھی رام مندر نہیں بناپائوگے؍آنے والی پیڑھی (نسل) کو کیا منہ دکھائو گے‘‘۔ ۲۰۱۹ کے لوک سبھا لیکشن سے قبل آر ایس ایس، وی ایچ پی اور سادھو سنتوں کے ذریعے ایودھیا مسئلے کو گرم کرنے کی اس دانستہ کوشش سے مودی سرکار کیسے نمٹے گی یہ تو وہی جانے، ممکن ہے کہ وہ کسی طرح سنگھ کو منالے اور رام مندر کے اس پروپیگنڈے کو بغیر آرڈیننس لائے الیکشن میں اپنے حق میں استعمال کرلے، یا ممکن ہے کہ وہ آرڈیننس لانے کا خطرہ مول لے لے، پر یہ سنگھی کوشش اس ملک کےلیے خطرناک ہے، یہ ملک میں مزید بدامنی اور انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔