Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, January 1, 2019

ایسے تھے مولانا اسرارالحق قاسمی!!!

ایسے تھے مولانااسرارالحق قاسمی
_______ قسط1___________
ایم ودود ساجد۔/صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
یہ 1984کی بات ہے۔بھری گرمیوں کے دن تھے۔میں اپنے وطن اصلی سہارنپورسے کسی کام سے دہلی وارد ہواتھا۔والد صاحب نے بتایا تھا کہ’’ دہلی میں میرے ایک شناسا رہتے ہیں ان سے ضرور مل کر آنا‘‘۔ان دنوں ٹیلی فون پر بات کرنا آسان نہ تھا۔موبائل تو تھے ہی نہیں۔ایر کنڈیشنڈ ہوتے ہوں گے۔مگر عام نہیں تھے۔۔

میرے پاس صرف دوپہر کا وقت تھا۔شام کو واپسی تھی۔لہذا آئی ٹی اوپر واقع مسجد عبدالنبی بھری دوپہر میں پہنچا۔ظہر کی نماز ہوچکی تھی۔استقبالیہ پر پوچھا کہ فلاں صاحب سے ملنا ہے ‘کہاں ملیں گے؟ایک صاحب نے بتایا کہ وہ تو اس وقت آرام فرمارہے ہیں۔عصر کے وقت ملیں گے۔میں نے کہا کہ شام کو تو میری واپسی ہے۔سہارنپور سے آیا ہوں۔بتایا گیا کہ مسجد میں بائیں طرف ایک حجرہ ہے‘اس کی کنڈی ہلادیجئے‘ہوسکتا ہے کہ اٹھ جائیں۔میں نے یہی کیا۔اور میرے والد صاحب کے شناسانے ہلکا سا دورازہ کھولتے ہوئے پوچھا‘کون؟ میں نے سلام کیا اور اپنا نام بتاکر کہا کہ سہارنپور سے آیا ہوں اور قاری عبدالغفور مظاہری میرے والد ہیں۔اتنا سنتے ہی وہ خود باہر آگئے۔اپنے مخصوص انداز میں بولے ’اے بھائی میرا حجرہ آپ کے لایق نہیں ہے۔آئیے مسجد میں بیٹھتے ہیں۔دوتین مرتبہ گلے لگایا۔پورے گھر کی خیریت دریافت کی۔اتنی گرمی میں چائے کانام بھی کاٹتا ہے۔وہ افسوس کرتے رہ گئے کہ نہ چائے نہ پانی۔میں نے کہا کہ والد صاحب کے حکم پر آپ سے ملاقات کرنی تھی سو کرلی۔

اس مختصر سی ملاقات میں اس نابغہ روزگار ہستی نے مجھ پر جو اثر چھوڑا وہ ان کی حیات تک قائم رہا۔رخصت ہوکر میں اُدھر مڑا اور وہ اپنے حجرہ کی طرف۔بس یہی وہ وقت تھا جب مولانا کے بہت سے رازہائے سربستہ مجھ پر کھل گئے۔مولانا نے جو بنیان پہن رکھا تھا اس میں کئی جھیریاں (پھٹی ہوئی لکیریں) پڑی ہوئی تھیں۔ان جھیریوں سے مولانا کی کمر پر پڑے ہوئے چٹائی کے نشانات جھانک کریہ بتارہے تھے کہ انہیں دری یا کوئی موٹا کپڑا تک نصیب نہیں ہے اور وہ ننگی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔۔مجھے حیرت ہوئی کہ جو عظیم انسان اتنی بڑی جماعت‘ جمعیت علما ء ہند کا ایک عرصہ سے سیکریٹری ہے اسے نیچے بچھاکر لیٹنے کے لئے ایک موٹا کپڑا میسر نہیں ہے۔بلاشبہ جمعیت علماء ہند کو ایسے ہی عظیم انسانوں نے اپنے خون پسینہ سے سینچا تھا۔

مولانااسرارالحق قاسمی نے جمعیت علماء ہند کے ساتھ کم وبیش تین دہائیاں گزاریں۔ یہ بات نئی نسل کے بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ مولانا نے جمعیت علماء کے ایک پروجیکٹ کے تحت ملک بھر کے ایک لاکھ بیس ہزار دیہات کا دورہ کیا تھا۔شاید جمعیت علماء میں ایسا کوئی ہوجس نے ہندوستانی مسلمانوں کے احوال جاننے کے لئے اتنی بڑی تعداد میں دورے کئے ہوں۔مولانا ان اسفار کے بارے میں جب بتایا کرتے تھے تو جذباتی ہوجاتے تھے۔ان اسفار میں انہوں نے جو پریشانیاں اور صعوبتیں برداشت کیں انہیں برداشت کرنا ایر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھنے اور ہوائی جہازوں کے سفر کرنے والوں کے بس کا نہیں تھا۔ مولانا کہتے تھے کہ اگر میں دوران سفر پیش آنے والے حالات لکھنے بیٹھ جاؤں تو ایک نہیں کئی کتابیں تیار ہوجائیں۔جمعیت علماء میں مولانا کے ساتھ کیا حسنِ سلوک ہوا نہیں معلوم۔لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ 90کی دہائی کے اوائل میں جس وقت جمعیت علماء سے چار ستون الگ ہوئے تو ان میں ایک مولانا بھی تھے۔ان کے باقی ساتھیوں میں مولانا صدرالدین انصاری اور مولانا فضیل احمد قاسمی کے نام شامل ہیں۔الگ ہونے کے بعد اخبارات میں تو خبریں آئیں مگر یہ حضرات کئی دنوں تک منظر عام پر نہیں آئے تو میں نے انہیں تلاش کیا۔

ان دنوں میں دہلی کے مشہور زمانہ ہفت روزہ نئی دنیا میں برسرکار تھا۔ایڈیٹرشاہد صدیقی کی اجازت سے میں نے ان حضرات کو آخر کاردہلی میں کوچہ رحمان میں واقع عطاؤاللہ شاہ بخاری کے مکان میں دریافت کرلیا۔۔۔مولانافضیل قاسمی مرحوم اس گروپ کے سرخیل تھے۔انہیں میڈیا سے بات کرنے میں کچھ تکلف تھا لیکن مولانا اسرارالحق قاسمی نے انہیں آمادہ کرلیا۔اس گروپ کا یہ پہلا اتنا تفصیلی انٹرویو تھا جو میں نے نئی دنیامیں درمیان کے دوصفحات پر شائع کیا۔اس کے بعد یہ لوگ منظر عام پر آئے اور کام شروع کردیا۔

مولانانے جلد ہی اس گروپ سے الگ ہوکر آل انڈیا ملی کونسل میں شمولیت اختیارکرلی۔کہنے کو وہ اس کونسل کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل تھے لیکن فی الواقع وہ اس کے ملازم تھے۔انہیں 6 ہزار روپیہ ماہانہ ملتے تھے۔ کہتے ہیں کہ کاغذات پرطے شدہ تنخواہ تو کچھ اورتھی۔مگر مولانا خاموشی کے ساتھ اسی کو قبول کرلیتے تھے۔مولانا کے پاس جو ٹوٹاپھوٹاہینڈ بیگ تھا وہ ان کے احوال زار کا منادی تھا۔اوپر سے ان کا سادہ لباس رہی سہی کسر پوری کردیتا تھا۔

اِس دوران میں نے بھی اپنی رہائش ذاکر نگر میں اختیار کرلی۔یہاں کبھی کبھی مولانا کی کرایہ کی رہائش گاہ میں جانا ہوتا تو مولانا کی بود و باش دیکھ کرتکلیف ہوتی تھی۔مولانا میری اہلیہ کواپنی حقیقی بیٹیوں کی طرح ہی اپنی بیٹی سمجھتے تھے۔میری اہلیہ کو جب اس  کا علم ہوا کہ مولانا کچی پکی روٹی اور نمک مرچ بھرا سالن کھاتے ہیں توبہت ناراض ہوئیں اور مولانا کو ہرروز شام کا کھاناقبول کرنے پر آمادہ کرلیا۔میں نے ایک روز مولانا سے کہا کہ آپ کوئی اچھا کھانا بنانے والی کا انتظام کیوں نہیں کرلیتے تو مولانا نے جو کچھ کہا اس کو کہنے کی ہمت میں نے بہت کم علماء میں دیکھی۔انہوں نے بتایا کہ ’ساجد صاحب‘میں تو اس سے کچھ بہتر کھانے کا متحمل ہوسکتا ہوں لیکن میرے ساتھ دوتین کارکن اور رہتے ہیں جو سب آپس میں پیسہ جمع کرکے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔اگر اس سے بہتر کچھ بھی کیا تومیرے کم آمدنی والے ساتھیوں کا خرچ بڑھ جائے گا۔

مولانا ہفتہ دوہفتہ میں ضرور گھر تشریف لاتے تھے۔گھنٹوں بس علمی گفتگو ہوتی رہتی تھی۔اکثر واقعات تو ان بزرگوں کے ہی بتاتے تھے جن کی وجہ سے آج ہم آزاد ہیں اور جن کی وجہ سے آج ہندوستان میں مدارس اور اسلام زندہ ہے۔میرے والد مرحوم اور مولانا دونوں زمانہ طالب علمی میں مولانا حسین احمد مدنی کی خدمت میں حاضر ہواکرتے تھے۔وہیں دونوں کی شناسائی ہوئی تھی۔۔مولانا اکثر حضرت مدنی کے ایمان افروز واقعات سناتے تھے۔۔۔مولانا نے ایک واقعہ سنایا۔۔۔"حضرت مدنی صاحب فراش تھے۔آنکھیں بند کئے لیٹے تھے۔اتنے میں کوئی نیا مہمان آیا۔۔۔حضرت مدنی نے آنکھیں کھولے بغیر پوچھا کہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟مہمان نے اپنا نام بتاکر کہا کہ دہلی سے آیا ہوں۔آپ نے پھر پوچھا کہ دہلی میں کہاں سے ؟مہمان نے کہا کہ نظام الدین سے۔اتنا سننا تھا کہ مولانا مدنی کا چہرہ غصہ سے تمتماگیا۔آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر بیٹھ گئے۔مہمان سے گرجدار آواز میں پوچھا: آپ کے منہ سے حضرت نظام الدین نہیں نکلتا؟‘‘۔اس موقع پر میں نے بھی اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ مولانا کو سنایا۔سہارنپورکے مضافات میں ایک گاؤں نانکہ ہے۔وہاں ایک ولی کامل اور حضرت رائے پوری کے خلیفہ حافظ عبدالستارنانکوی بہت مشہور بزرگ تھے۔میں کبھی کبھی ان سے ملاقات کیلئے جایاکرتا تھا۔ایک روز دوپہر میں پہنچا تو دیکھا کہ حافظ عبدالستارنانکوی آرام فرمارہے ہیں اور ایک خادم پاؤں دبا رہا ہے۔میں بھی جاکر آہستہ سے سلام کرکے بیٹھ گیا۔حافظ صاحب نے اپنے مخصوص اندازاور باریک آواز میں بہت آہستگی سے پوچھا: بھئی کون صاحب ہیں اورکہاں سے تشریف لائے ہیں؟ میں نے اپنا نام بتاکر کہا کہ سہارنپورسے آیاہوں۔پھر پوچھا بھئی سہارنپور میں کہاں سے ؟ میں نے کہا کہ محلہ گوٹے شاہ سے۔حافظ صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے۔کچھ ناراض نہیں ہوئے۔مسکراتے ہوئے کہا کہ اچھاحضرت گوٹے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں سے آئے ہیں۔

مولانا اسرارالحق قاسمی کی قناعت پسندی کے یوں تو میں نے بہت سے مشاہدے کئے لیکن ایک واقعہ ان سے ایسا سنا کہ اس کی مثال اس دور میں ملنی مشکل ہے۔مولانا نے بتایا کہ جمعیت علماء کی عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا توکچھ ممبران نے مہنگائی کے پیش نظر کارندوں کی تنخواہوں میں اضافہ کی سفارش کی۔حسب مراتب کارکنوں کی تنخواہوں میں اضافہ کی شرح تجویز ہوگئی۔میری تنخواہ اس وقت ایک ہزار روپیہ تھی۔لہذا میری تنخواہ میں ایک سو روپیہ کا اضافہ کیا گیا۔یعنی گیارہ سو روپیہ کردی گئی۔جب حتمی فیصلہ کیلئے ساری تفصیلات صدر مولانا اسعد مدنی کے سامنے رکھی گئی تو انہوں نے سب سے پہلے میری طرف دیکھ کراپنے مخصوص اندازاور بلند آٰواز میں مجھ سے ہی پوچھا: کیوں مولانا کیا آپ کو اس اضافہ کی ضرورت ہے؟ میں نے فوراً کہہ دیا کہ نہیں میراکام ایک ہزار میں ہی چل جائے گا۔اور اس طرح میری تنخواہ کا اضافہ رک گیا۔

واقعہ یہ ہے کہ مولانا جہاں بھی رہے اپنا استحصال ہی کراتے رہے۔اس دور میں کون بھلا اپنا استحصال کرانے کو تیار ہوگا۔پھر مولانا کی اہلیت اور صلاحیت ایسی تھی کہ متمول جماعتوں اور اہل ثروت علماء کو انہیں اتنی رقم دینے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے تھا کہ جس سے وہ کچھ معمولی سی فراخی کے ساتھ زندگی گزارلیتے۔ دکھ ہوتا ہے کہ جب پردہ کے پیچھے رہ کر مزدوروں کی طرح اصل کام کرنے والے' زندگی گزارنے کیلئے مطلوب بنیادی ضروری سہولیات سے بھی محروم رہ جائیں۔

آل انڈیا ملی کونسل کے دفتر میں مولانا کسی مزدور کی طرح ہی کام کرتے رہے۔لیکن جب استحصال عروج کو پہنچ جاتا ہے تو پھر اپنے نیک بندوں پر اللہ رحم فرماتا ہے۔ایسے واقعات تو بہت سنے ہیں کہ جب اسکولوں کی انتظامی کمیٹیاں اپنی خاتون ٹیچرس کو تنخواہ کچھ دیتی ہیں اور دستخط دوسرے اعداد پر کراتی ہیں۔لیکن علماء کے استحصال کی اس طرح کی میرے لئے یہ پہلی خبر تھی۔مولانا سے اس خبر کی تصدیق کیلئے میں نے کئی بار پوچھا لیکن مولانا یہ کہہ کرخاموشی اختیار کرگئے کہ ’’استغفراللہ ۔۔اے بھائی چھوڑئے نا‘‘۔ بہر حال یہاں سے مولانا کے استحصال کے خاتمہ کا آغاز ہوا اور اللہ نے ان کی خدمت میں تیز طراراوربرق رفتارحافظ نوشیر کلکتوی کی شکل میں ایک خادم بھیج دیا۔نوشیر سے میری پہلی ملاقات مولانا کے ساتھ ہی ہوئی تھی جب وہ میرے غریب خانہ پر ایک پتلے دبلے لڑکے کے ساتھ تشریف لائے تھے۔میں اس وقت نئی دنیا میں تھا۔نوشیر نے مختلف مواقع پر مولانا کے آزادانہ بیانات شائع کرانے شروع کئے۔اس کا وصف یہ تھا کہ جس مدیر سے خبر شائع کرنے کی درخواست کرنی ہے اسی سے وہ خبر تیار کرالیتا تھا۔اور حیرت یہ ہے کہ وہ اس طرح گزارش کرتا تھا کہ کوئی انکار کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتا تھا۔نوشیر نے اس طرح میڈیا میں بہت دوست بنالئے تھے۔

مولانا کا خیال تھا کہ نوشیر ہرموقع پر بیان جاری کرادیتا ہے۔ایک واقعہ کا بیان خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔میں مولانا کے پاس ان کے دفتر میں بیٹھا تھا۔ایک روز قبل اردو کے ایک معروف صحافی کا انتقال ہوا تھا۔مولانا نے آواز دی: نوشیر دیکھو کل ----فلاں صاحب کا انتقال ہوا ہے۔ابھی مولانا اتنے ہی پر پہنچے تھے کہ نوشیر نے جھٹ سے پوچھا : بیان جاری کردیں؟ مولانا کو یہ سنتے ہی وہ غصہ آیا کہ الاماں والحفیظ۔مولانا نے کہا کہ ان کے گھر کا پتہ کرو‘ان کے گھر تعزیت کے لئے جانا ہے۔ہر وقت اور ہر موقع پر بیان جاری نہیں ہوتا۔۔۔بہر حال باوجود اس کے کہ مولانا کی بہت شہرت تھی اور وہ ایک نشست میں ایک کتاب لکھ سکتے تھے' اخبارات کے ذریعہ اگر کوئی انہیں خاموش خدمات کی تاریکی سے نکال کرمیڈیا کے ذریعہ منظر عام پر لایااس دیوانے کا نام نوشیر ہی ہے۔

نوشیر کا دماغ موٹر کی طرح چلتا ہے۔سو مولانا نے اس کی تحریک پر 1990 کی دہائی کے اواخر میں ایک تنظیم آل انڈیا ملی وتعلیمی فاؤنڈیشن کی بنیاد ڈالی۔اس ضمن میں اس نے میرے علاوہ میرے دوست سید ظفر حسن سے بھی مددلی۔اس فاؤنڈیشن کے قیام پر نوشیر کو’سرکار عالی مقام‘کی ناراضگی بھی جھیلنی پڑی۔اور آخر کار مولانا نے ایک عرصہ تک کام کرنے کے بعد آل انڈیا ملی کونسل کو خیر باد کہہ دیا۔اب ان کی توجہ پوری طرح اپنی تنظیم پر لگ گئی۔انہوں نے ذاکر نگر میں ہی اس کا دفتر قائم کیا اور بہت ہی خستہ حالی میں کام کرنا شروع کیا۔مولانا نے مجھے بتایا کہ میں چھوٹے چھوٹے مکاتب کے قیام پر کام کرنا چاہتا ہوں۔ان کا خیال تھا کہ اگر دین اسلام کوبچوں کی رگ رگ میں داخل کرنا ہے تو مکاتب کا قیام بہت ضروری ہے۔انہوں نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا تھا کہ مجموعی حالات ایسے بننے والے ہیں کہ مسلمان اپنی مادی ترقی کی خاطر دین کے بنیادی احکام ومسائل کی اہمیت کا احساس ہی کھودیں گے۔۔۔مولانا نے اس سلسلہ میں بیرون ملک کے بھی کئی دشوار گزار سفر کئے اور بہت جلد انہوں نے 160سے زیادہ مکاتب قائم کردئے۔انہوں نے دہلی اور یوپی کی سرحد پر لونی میں اپنا ایک مدرسہ الفلاح بھی قائم کیا اور نوشیر نے کلکتہ میں اپنا مدرسہ قائم کیا۔

جاری۔۔۔۔۔