Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, January 12, 2019

نوشاد مونس اعظمی کا تعارف خود انھیں کی زبانی۔

صدائے وقت/ نوشاد مونس اعظمی کی فیس بک وال سے / بذریعہ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . .  .  
السلام علیکم !!
میرا یہ تعارف  دو برس قبل  پرسوں fb پر گھوم کر آگیا. دیکھا تو موبائل بار بار ہونے کے سبب تحریر کے الفاظ اور جملے کہیں غائب ہیں تو کہیں نشست چھوڑ، کہیں کٹے ہیں تو کہیں پٹے ہیں. اب سب صحیح راستے لاکر بیٹھا دیا. موبائل بدل گیا تو یہ بھی آئیت میں آ گئے. اب آپ کو ٹوٹی پھوٹی شعری تخلیق  کی طرح نثری تخلیق پر قدرے اطمینان ہو جائے گا، ان شاءاللہ.

"میں نے ١٨ فروری ١٩٥٠ء گھر، خاندان، گاؤں (بندول، ضلع اعظم گڈھ، اُتّر پردیش) کے علمی و ادبی ماحول میں آنکھیں کھولیں. بہن سسرال میں،١٦ برس بڑے بھائی شمشاد صاحب شہر میں ملازم، اور ابّا کانپور میں سروس کرتے تھے. میں تنہا ماں کی آغوش، آنچل، سرپرستی میں تھا تو گانوں کی کُھلی فضا میں مانندِ شُتر بے مہار، فِیل بے عنان اور اسپ بے زمام آزاد تھا....... بس سنیچر کی شام تا پیر کی صبح تک بھیّا گاؤں میں رہتے تو میں قصائی کے بکرے کی طرح سہما مکان میں بند. جب وہ اُدھر گئے تو میں اِدھر پنکھ کھولتا، تولتا پھر پرواز کا کیا کہنا.

        پرائمری تعلیم گاؤں کے اسکول میں، بقیہ تعلیمات بھیا کی معیت اور سرپرستی میں، ١٥، کلومیٹر دور شہر اعظم گڈھ کے اپنے جد امجد شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمت اللہ کی علمی درسگاہ شبلی نیشنل اسکول اور ڈگری کالج سے ایم. اے، بی. ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں.
شہر اور کالج چھوڑنے کا دل ہی نہیں کرتا تھا مگر دورانِ تعلیم والدین نے شادی کردی، تو سوچا کہ والد صاحب کی مذید کفالت میں پڑھنے اور بوجھ بننے سے بہتر ہے کہ روزی روٹی کا خود انتظام کروں......

          تلاشِ معاش میں تقدیر نے ١٨ سو کلومیٹر دور مہاراشٹر کے خطہِ کون کے ضلع رائے گڈھ کے گاؤں تُوڑیل کے ہائی اسکول انٹر کالج میں پہنچا دیا..... اور پھر درس و تدریس کے فرائض  سے، ٢٠٠٨ء میں سبکدوش ہونے کے بعد ممبئی سے متصل ضلع تھانہ کے قصبہ ممبرا کوسہ میں منتقل ہو گیا..... . بعد از گاؤں سے مزید تعلق بڑھا لیا، سال میں دو تین بار جاتا رہتا ہوں.

          لوگ کہتے اور میں بھی محسوس کرتا ہوں کہ بچپن سے شرارتی، چلبلا، مسخرہ، قلندر اور کھلنڈرا تھا،اور آج بھی شاید وہی روش برقرار ہے...... .. آج بھی گاؤں میں بچوں کو گلّی ڈنڈا، گولی گوٹی اور کیرم کھیلتے دیکھتا ہوں تو حصہ ضرور لیتا ہوں، بڑا مزہ آتا ہے بچپن سوچ کر ... دوست و احباب اور بزرگ ٹوکتے ، منع کرتے، سمجھاتے ہیں کہ سنجیدہ ہو جاؤں. مگر کاہے کو، بَیل کبھی ہرائ بھولتا ہے، جو میں اپنی خصلت سے ہٹ جاؤں ......کھیل کود سے وابستگی برقرار ہے.... . کمرے میں بند ہو کر صرف لکھنا پڑھنا پسند نہیں تھا. اپنا تو یہی نظریہ تھا کہ زندگی میں لڑکپن، جوانی اور طالب علمی کا دور دو بارہ نہیں آتا تو کیوں نہ اس خوبصورت ایّام سے لطف اندوز ہوا جائے.

         شعری اور نثری تخلیقات پڑھنے کا شوق دورانِ طالب علمی بہت کم تھا.تاہم آٹھویں جماعت سے مرحوم ابن صفی کی جاسوسی ناولوں کے پڑھنے کا جو چسکا لگا تو تمام (شاید ٢٥٢) ناولوں کو پڑھ ڈالا، اور درجنوں کو دہرایا اور تہرایا بھی.... دورانِ ملازمت ادبی (نثری اور شعری) مذہبی، سماجی، سیاسی، فلمی وغیرہ جیسی بھی تحریر میسر ہوئیں علم میں اضافے کے لئے مطالعہ میں رکھا.... اگر ہمارا حافظہ بہت ہی ناقص اور کمزور نہ ہوتا (تحریر کی حد تک) تو جتنا پڑھا ہے اگر بیس فیصد بھی الفاظ و تراکیب یاد رہتے تو آج میرے اشعار میں لفظوں کی خوشبو، رعنائی اور غنائی بکثرت ہوتی. جملوں میں عمدہ خیالات وتراکیب کی گہرائی اور گیرائی بھی خوب ہوتی. اتنا گنجلک اور پیچیدہ اشعار کہتا کہ لوگ لاکھ غوطہ لگاتے مطلب نہیں ملتا،شاید مجھے بھی  نہیں ملتا.... . تب شاید نامی گرامی ادیب وشاعر بھی کہلاتا.... چلو، یہ بھی اچھا ہوا، متکبر اور مغرور ہونے سے بچ گیا. بہر حال ہم جہاں بھی جیسے ہیں، تھوڑے میں خوش، مست اور مطمئن ہیں..سیدھے سادے آزاد منش کے اشعار بھی سیدھےاور آسان ہیں ..کوئی گھماو نہیں.
ہاں جب سے ٹیلی ویژن آیا ہے لکھنے پڑھنے سے بہت دور اور معذور کر دیا کم بخت نے. مگر جنرل نالج بڑھا دیا.

          یقین کیجئے کمزور یاد داشت، کے سبب بمشکل  دس اشعار یاد ہوں گے اور غزل با خدا ایک بھی ازبر نہیں.... کوئی میرا ہی شعر سناتا ہے تو کہتا ہوں کہ سنا ہوا شعر ہے...... بچپن سے یہی حال بدستور ہے. پرائمری اسکول کے ٹیچر کہتے اس جواب کو کل یاد کر کے آنا. رٹنا آتا نہیں تھا اس لئے روز مرغا بنتے یا چھڑی کھاتے. ویسے تو شرارتوں کے صدقے دسویں جماعت تک چھڑی کی مار کا لطف بھر پور اُٹھایا ہے.

          یہاں اپنی خامیوں کی ذکر اپنے مُنہ سے ضرورت نہیں ہے. پھر بھی ہماری  دو عدد چلبلی حرکتوں اور لفظی شرارتوں سے ہمارے ماضی اور جبلت کا اندازہ لگائیے........اگر تحریر گراں گذرے تو بصرہ خراشی کی معذرت چاہتا ہوں ، تو عرض ہے
ہم نے اپنی شادی کی دعوت دوستوں اور اساتذہ کو بھی دیا. ہمارے سائیکالوجی کے استاد پروفیسر جمال انصاری صاحب (انصاری صاحب بہت محنتی، ذہین، نیک اور وضع قطع کے انسان تھے.  علیک سلیک بڑے خلوص سے جھک کر کرتے. اسٹوڈنٹ یا کسی سے بھی راہ چلتے بات نہیں کر تے. گھر پر یا کالج کے  ڈپارٹمنٹ میں ملتے، بات کرتے.... . سر، دوسرے اساتذہ سے زیادہ مجھے پیار کرتے اور صرف مجھے ہی مُنّا کہتے. اس لئے میں احترام کے ساتھ منہ لگّو بھی تھا) کو دعوت دینے ان کے ڈپارٹمنٹ میں گیا.... تو سر نے فرمایا
" مُنّا اتنی جلدی شادی کر رہے ہو ؟ "
" کیا کریں سر بھیا اور والدین کم ہیں جو ایک مہاوت بھی ہم پر مسلط کر رہے ہیں. ہمارا معاشرہ بچوں کے بگڑنے کے خوف سے دوران تعلیم ہی شادی کردیتا ہے . آپ ہی بتائیے ہمارے چہرے پر ہمیشہ ہونق برستی ہے. شریف لڑکا ہوں کیا بگڑ سکتا ہوں،؟ "
ہنستے ہوئے بولے." نہیں بالکل نہیں  "
" تو پھر والدین اتنے خطرناک کیوں ہو جاتے ہیں، "
" نہیں، والدین بچوں کا اچھا ہی سوچتے ہیں "
" تو پھر آپ کے والدین کیوں خطرناک نہیں ہوئے. کیوں اچھا نہیں سوچتے  ؟" جمال سر ہم سے آٹھ دس برس بڑے تھے اور ان کی شادی ابھی تک نہیں ہوئ تھی .
"مطلب، ایسا کیوں کہتے ہو ؟ "
" تو پھر آپ کی شادی کیوں نہیں کرتے  "
ہنستے ہوئے " ارے نہیں منا، یہ سب قسمت کی بات ہے "
" نہیں سر یہ قسمت کی نہیں ہمت کی بات ہے جو میں سُولی پر چڑھنے جارہا ہوں "
سر بہت ہی کِھلکھلا کر ہنسے.

       ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ نکاح کے وقت دولھا گردن جھکائے قاضی کے تابع رہتا ہے. قاضی نے کہا اِدھر کھسکو، اُدھر بیٹھو. قاضی کی اجازت پر ہوں، ہاں، کہتا، قبول کرتا ہے......... ہمارے گاؤں کے تمام نکاح سید بدرالدین قاضی صاحب ہی پڑھاتے تھے .
ہمارا نکاح بھی وہی پڑھانا شروع کئیے.......
"آپ کا نکاح حماد صاحب کی دختر محترمہ............. صاحبہ سے دو گواہوں کی موجودگی میں پڑھایا جارہا ہے قبول ہے. "
میری شادی اپنے ہی گاؤں کی لڑکی سے ہوئ ہے... تو پھر گھوڑا بھی ہمارا میدان بھی ہمارا ہم کہاں چپ رہتے، تو پوچھ ہی لیا. " قاضی صاحب گواہوں کے نام نہیں بتائیں گے. "
محفل ہنس پڑی. کوئی ڈانٹ رہا ہے، کوئی چپ رہنے کی تنبیہ کر رہا ہے. پھر قاضی نے گواہوں کا نام لیکر جملہ دہرایا.
اب تیسری بار ایک لاکھ روپے مہر کے ساتھ قبول کرنے بات کی.... تو کسی باراتی نے فقرہ کسا کہ،" کیا تاج محل بنوائیں گے قاضی صاحب...." . اور اِدھر ہم نے کہا
" اتنی بڑی مہر ہمیں منظور نہیں. بھیا کو بلائیے. "
اُدھر لوگ ہنس رہے ہیں، کوئی چپ رہنے کی تلقین کر رہا ہے. بڑے ڈانٹ رہے ہیں . ایک دوست کی آواز کو ہم پہچان گئے تو جواباً کہہ دیا، ' مہر مجھے دینی ہے تجھے نہیں' .......... . تب تک بھیا آگئے. اور فرمایا کہ ان کی مہر کے برابر ایک ہزار روپے اور ایک اشرفی پر پڑھا دیں. اشرفی بند ہو چکی تھی اس لئے ایک ہزار ایک روپیہ پر قاضی نے نکاح پڑھایا تو میں نے پوچھا
"مہرِ معجل ہے کہ مہرِ موجل ہے"
قاضی صاحب ان لفظوں کی افتاد پر گھبرا گئے.  معنی مطلب نہیں جانتے تھے ہمارا سوال داغنا تھا کہ ہمارے بی. ایڈ کے پروفیسر نیاز صاحب زور سے بولے
"واہ میرے شاگرد، شاباش  "
اُدھرمحفل میں ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا. اِدھر قاضی صاحب ہکلا کر بولے
" آپ کیا چاہتے ہیں. "
ہم نے کہا،" ہم ابھی پڑھ رہے ہیں. نقد نہیں دے سکتے. اُدھار والا مہرِ موجل پڑھائیے. "
خیر نکاح ایک ہزار ایک روپیہ مہر موجل سے پڑھایا گیا...... بھلا بتائیے ہم نہ جاگتے تو قاضی نے ہمیں سُلا ہی دیا تھا. اُس وقت خالص سونا 170 روپے تولہ (آج کے سوا گیا رہ گرام کے برابر ) تھا............ ہفتوں ہمارے نکاح کا چرچا گاؤں اور کالج میں رہا. زمانہ بدلا، اب تو شادی طے کرتے وقت مہر طے ہو جاتی ہے......

       میں نے بچپن، لڑکپن، جوانی، اسکول اور کالج کی زندگی کا بھر لطف اٹھایا. میرے مزاج و خیال کے دوستوں کا اچھا ساتھ رہا ہے. خوشیاں اتنی ملیں کہ اُس زندگی سے کوئی شکایت نہیں.

       اب آئیے شاعری سے متعلق بات کریں. جب ہم بارہویں  میں تھے تو دو تین دوستوں کو شاعری کا شوق چرّایا. میں مزاحیہ تکبندی کرنے لگا. دوستوں نے  'سراسر ' تلخص تجویز کیا. شری مان سراسر کا ایک بھی شعر میری  بُھس بھری یادداشت میں ہے نہ ڈائری میں.......

         ..بی. اے سال اول (1968)میں کالج کی سالانہ میگزین کے لئے ایک سنجیدہ روایتی نظریہ کی غزل کہہ دی جو اتفاق سے شائع ہو گئی. خوشی کی انتہا نہ تھی. اُس غزل کا مطلع ہی زندگی کا پہلا شعر قرار دیتا ہوں.

یہ فصلِ گُل ہے مجھے اِس کا اعتبار نہیں
کہ ایک پھول بھی آئینہِ بہار نہیں

گھر میں بھیا کی نظر میگزین میں غزل پر پڑی، تو بگڑے،........ " خبر دار، شاعری واعری بالکل نہیں. شعر کہنے والا وقت پڑھائی میں لگاؤ. کسی برس فیل ہوئے تو ٹانگیں  توڑ دوں گا. بندروں سی اوجھل کود کرنے والے شاعر نہیں بن سکتے.".... حکم حاکم مرگِ مفاجات.
ہم نے دل میں جواب دیا کہ ہم سے فرسٹ کلاس کی امید تو مت ہی رکھیے. اور انشاءاللہ ہم فیل بھی نہیں ہوں گے...اور نہ ہی ہم جوانی اور طالب علمی کے خوبصورت ایام سے تعلق منقطع کر سکتے ہیں....
        بندر گُلاٹی مارنا کیسے بھولے گا. دوسرے برس بھی ڈرے سہمے ایک غزل کہی. میگزین میں چھپ گئی مگر بھیا کو بھنک تک نہیں پڑنے دی ورنہ دو چار تھپڑوں کی سوغات حسبِ سابقہ عطا کر دیتے....
. مطلع عرض ہے.

         یاد نے اُن کی کیا ہے بیکل
  دل میں ہے جذبات کی ہلچل

دورانِ ملازمت 1976 میں، علاقے کی سرسبز وادیوں، پہاڑیوں، ہریالی، جھرنے اور ندیوں نے سرکش شعری کیڑے کو اکسایا تو تیسری غزل ہو گئی. مطلع ہے

ستم کی لاکھ گریں بجلیاں زمانے میں
کبھی کمی نہیں ہو گی مرے فسانے میں

          ملازمت اور گھر  کی ذمہ داری اورفرض پر شاعری کے آسیب کو کبھی حاوی نہیں ہونے دیا. سچائی یہ ہے کہ شاعری میں نے شوقیہ کی ہے . اس میں ڈوبنے، مرنے سے، دیوانہ بننے سے خود کو اور وقت کو بچائے رکھا.

       اب ہمارا  ایک المیہ بھی سُن(پڑھ) لیں.
دس برس قبل ہمارے ایک دوست نے ناموں کی لسٹ میرا سامنے پیش کی، پڑھ کر ہم نے سوال کیا
"یہ کس کا خاندانی شجرہ ہے "
" یہ میرے خآندان کے کچھ نام ہیں. تمھیں ایک سہرا لکھنا، اور اس میں ناموں کوشامل کرناہے  "
" یعنی منظوم شجرہ لکھنا ہے "
" سہرا لکھنا ہے بے " تڑک کر بولے
" لیکن میں نے شاعری چھوڑ دی. صحرا سے سہرا کی امید مت کر "
" کیسا شاعر ہے سہرا نہیں لکھ سکتا"
"شوقیہ شاعر ہوں، تکبندیا، مبتدی،اور کاہل بھی ہوں. کسی کی مرضی، مشورے، خیال اور عنوان پر شاعری نہیں کرتا. بس جدھر سینگ سمائ اُدھر چل پڑا"
"ہوں ں ں ں تبھی تو میں سوچوں، تمھارا مزاج اور شاعری،! تمھارے اچھے اشعار ضرور سرقہ اور توارد کے ہوں گے "
"  ہائیں، یار مجھے بھی  ایسا وہم اکثر ہو جاتا ہے . کبھی ثبوت مل جائے تو خبر کرنا، احسان ہو گا"
وہ جلی کٹی سنا کر چلے گئے.
جان بچی لاکھوں پایا، الجھن کو گھر سے ٹر خایا.بتائے ٹیڑھے میڑھے، چھوٹے بڑے ناموں کے لیے کون سی بحر ہوتی، کتنی مدح سرائی کرتا. ویسے مجھے سہرا، مرثیہ اور قصیدہ کہنا با لکل پسند نہیں.

       میں نے دس پندرہ برس سے شعر کہنا تقریباً بند کردیا.
بس  تھوڑا سا بیاض پر لکھے ہوئے ابتک کا یہ شعری اثاثہ؛ تقریباً  چار سو عزلیں، پچاس تک نظمیں، دو سو تک قطعات اور پچاس  دوہے ہوں گے. پُھٹکر اشعار نہ یاد ہیں نا محفوظ ہیں..........
      ہاں نثر میں بھی آڑی ترچھی طبع آزمائی سے گزرا ہوں . کچھ افسانے، ڈرامے، انشائیہ وغیرہ لکھا ہوں. اور کچھ کو سنبھال کر رکھا بھی ہوں .
ایک 287 صفحات کا شعری مجموعہ "دھوپ کے ٹکڑے" غزلوں، نظموں، قطعات اور دو ہے پرمشتمل شائع ہو چکا ہے. دوسرا اردو شعری مجموعہ "ہائے رے ساون" لوگوں کی فرمائش پر ہندی( دیو ناگری )لیپی ( رسم الخط) میں چھپنے کے لئے بھیجا ہے. وہ آئے تو نثری انشائیہ کی اشاعت پر توجہ دوں.... اِن شاءاللہ .

میرے اشعار (شعری تخلیقات) ہلکے یا وزنی ہیں ، ادنا یا اعلیٰ ہیں ، واضح یا غیر واضح ہیں، معیاری یا غیر معیاری ہیں. میں خوش ہوں کہ یہ میری تخلیقات ہیں ، یہ میرے ہیں، کیونکہ،،

' سرکش ، بُرے ، عیبی و نکمّے ہوں یا ناقص
اولاد تو ہیں لختِ جگر دل میں رہیں گے
اشعار بھی تو ہوتے ہیں آوال کی طرح
کوئی نہ کرے، ہم تو مگر ناز کریں گے'....
مونس اعظمی

اب میں اس تذبذب کا شکار ہو ں کہ کون سی غزل پیش کروں. انتخاب جاں گُسل . موبائل بار بار ہنگ ہو رہا ہے، لکھنا دشوار ہے. اس لئے بڑی محنت سے اب دو غزلیں حاضر ہیں....... قارئین کا تبصرہ سر آنکھوں پر.
ہاں اب صدق دل سے یہ کہنا ضروری ہے،
" بزم سراج الادب "نے جو مجھے عزت بخشی، اعزاز سے نوازا، صمیمِ قلب سے ممنون و مشکور ہوں. مجھ سے جو مختصر تعارف اور چند غزلوں کی فرمائش کی ہے، تو حاضر ہے. سراج الادب کی اردو خدمات کی قدر کو میں  سلام کرتا ہوں. خدا اس محفل کو مقبولیت کا بامِ عروج بخشے.. آمین.
.. .....نیاز مند
.. ............ احقر
...... نوشاد مونس اعظمی

******* غزلیں  *******
1_
دن کی آہوں سے نہ تو رات کے نالوں سے اُلجھ
دلِ بیتاب  سکوں لُوٹنے  والوں سے اُلجھ

فہم و ادراک کی باتوں کو سمجھنا ہے اگر
تو کتابوں سے صحیفوں سے رسالوں سے اُلجھ

سانس رکتے ہی سمٹ جائے گی دُنیا تیری
زندگی پیاری ہے تو موت کے جالوں سے اُلجھ

پہلے دشواریِ منزل سے گذر جا راہی
بعد ازاں پاؤں کے پھوٹے ہوئے چھالوں سے الجھ

رات تو اپنے اندھیروں میں ہے سہمی  سہمی
تجھ میں ہے زور تو پھر دن کے اجالوں سے الجھ

جانے کس وقت پلٹ جائے سیاست کی بساط
اُس پہ مُہرے نہ  بِٹھا اُس کی نہ  چالوں سے الجھ

مکتبِ دل سے محبت کا سبق لے مونس
تُو نہ مندر  نہ کلیسا نہ شوالوں سے الجھَ

2_
زندگی کو بے کسی  کا خواب دے جائے گا وہ
رات میں روتا ہوا  مہتاب دے جائے گا وہ

دیدہء نادار بڑھ کر غم کا دامن تھام لے
آنسوؤں کے گوہرِ نایاب دے جائے گا وہ

چوس کر میری تمنّاؤں کی رگ رگ سے لہو
خشک  آنکھوں کو مری سیلاب دے جائے گا وہ

مندمل ہونے نہ پائیں گے یہ زخمِ دل مرے
یاد کے نشتر پہ پھر سے آب دے جائے گا وہ

زندگی میں مفلسی دیکھی نہ ہو جس نے کبھی
کیا کسی کو لقمہ ء نایاب دے جائے گا وہ

سالِ نو کا ہم کریں اے دوست استقبال کیوں
کیا سکوں کا عالم ِ شاداب دے  جائے گا وہ

ساقیِ دوراں کے فیضِ عام پر مونس نہ جا
زندگی کو ساغرِ زہرآب دے  جائے گا وہ

(نوشاد مونس اعظمی)

منتظمین  ادب  براٸے  ادب