Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, January 12, 2019

آلوک ورما سے مودی کیوں ڈر رہے ہیں۔؟؟؟؟


از/شکیل رشید/ صدائے وقت۔
_____________________
اگر۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن میںپھر ’بھگوادھاری‘کامیاب ہوئے تو؟
اس سوال کا جواب’حال‘کے واقعات میں دیکھا جاسکتا ہے۔گذشتہ ڈیڑھ ہفتے میں مرکز کی بی جے پی ومودی سرکارکے جو’کارنامے‘رہےہیں یاباالفاظ دیگر ’بھگوا دھاریوں ‘ کی’حال‘کی جو سرگرمیاں رہی ہیں ان میں ہندوستان کے ’مستقبل‘کی تصویرنظرآتی  ہے۔گذشتہ دنوں تین واقعات ایسے ہوئے ہیں جو‘اگرپھر سے مودی سرکار بنی،تو ہندوستان کی جمہوری اورسیکولر تصویر کو پوری طرح سے بدل کر رکھ دیں گے۔ایک واقعہ سی بی آئی کی سربراہی سے آلوک ورما کا ہٹایا جانا ہے۔دوسرا لوک سبھا اورراجیہ سبھا، ان دونوں ایوانوں میں ’کوٹہ بِل‘کا منظورکیاجانا ہے ۔اورتیسرا ایوانِ زیریں میں ’شہریت بِل‘کی منظوری ہے۔اگرآلوک ورما کی برخاستگی اوردونوں بِلوں کا ایک ایک لفظ میں تجزیہ کرنا ہوتوآلوک ورما کی برخاستگی کو’ناانصافی‘اوردونوں بلوں کی منظوری کوبالترتیب ’دھوکہ‘اور’غیرآئینی ‘کہا جاسکتا ہے۔دونوں بلِوں کی منظوری کوآئین کی روح سے کھلواڑ اورآئین کے ذریعے ا س ملک کے تمام مذاہب کو دئیے گئے حقوق کو ’ردّ ‘کرنے کی سمت ایک قدم بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
بات آلوک ورما سے شرو ع کریں گے۔آلوک ورما کو سی بی آئی کے چیف کے عہدے سے ہٹائے جانے کو’ناانصافی‘کے سوا کچھ اورنہیں کہاجاسکتا۔وزیراعظم نریندرموی کایہ فیصلہ کن بنیادوں پر انصاف کے خلاف ہے‘اس سوال کا جواب توسی وی سی (سینٹرل ویجلنس کمیشن)کی رپورٹ کی جانچ کرنے والے جسٹس پٹنائک کے اس بیان سے ہی مل جاتا ہے کہ’’آلوک ورما کے خلاف بدعنوانی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔‘‘وہ تین رکنی کمیٹی،جسے سی بی آئی ڈائریکٹر کو ہٹانے کااختیارتھا‘وزیر اعظم نریندرمودی،حزبِ اختلاف کے قائدملکاارجن کھڑگے اورچیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی پر مشتمل ہے،پرگگوئی نے اس میٹنگ میں ‘جس میں آلوک ورما کے سلسلے میں’فیصلہ‘لیا جاناتھا خودنہ جاتے ہوئے جسٹس اے کے سیکری کو بھیجاتھا۔مودی اورسیکری نے یہ فیصلہ کیاکہ سی وی سی کی رپورٹ کی بنیادپر آلوک ورما کو عہدے سے ہٹایاجاناچاہیے پرکھڑگے اس فیصلہ کے خلاف تھے۔تین رکنی کمیٹی میں ’دو‘ایک‘کی بنیادپر فیصلہ آلوک ورما  کے خلاف گیااورانہیں سی بی آئی کی سربراہی سے ہٹا کر فائر سروسس،سول ڈیفننس اورہوم گارڈس کے ڈائریکٹر کے عہدے پر جانے کاحکم دیاگیا،ورمانے اس عہدے کو قبول کرنے سے صرف انکارہی نہیں کیا‘انہوں نے باقاعدہ ’سروس‘سے استعفیٰ دے دیا۔
یہ سوال اٹھ رہاہے کہ آلوک ورما کو’صفائی‘کاموقعہ دئیے بغیرسی بی آئی کی سربراہی سے ہٹانے کی عجلت کے پسِ پشت کیا وجہ ہے؟یہ سوال بھی اٹھ رہاہے کہ وزیر اعظم مودی کو کس بات کا ڈرتھا؟یہ سوال بھی اٹھ رہاہے کہ ورماکو۳۱؍جنوری کو ریٹائر ہوناتھا،دس دن کے لیے بھی انہیں مودی سرکار نے سی بی آئی کی سربراہی دینے سے کیو ںانکارکیا؟سہ رکنی کمیٹی کے دواراکین،مودی اورسیکری کی اگربات مانی جائے توورما کو سی بی آئی کی سربراہی سے اس لیے ہٹاگیاکہ سی وی سی نے ان پر سنگین الزامات لگائے ہیں۔ان پر ایک گوشت تاجر معین قریشی کے’حوالہ معاملات‘کی’جانچ‘کی سنگینی کوکم سے کم کرنے کے لیے ’رشوت ‘کاالزام ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آلوک ورما پر جو دس الزامات لگے ہیں ان میں سے چھ کوسی وی سی نے خود ہی’بے بنیاد‘قرا ردے دیاہے....اورچار دیگرالزامات میں سےایک کے تعلق سے سی وی سی رپورٹ میں صاف لفظوں میں کہہ دیاگیا ہے کہ’’رشوت کے لین دین کاکوئی ثبوت نہیں ہے اورشواہدات کی تصدیق کے لیے مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔‘‘جب بدعنوانی اوررشوت کےلین دین کاکوئی ثبوت نہیں ہے توپھر سی وی سی کی رپورٹ کا حوالہ دے کر کیوں مودی نے......سیکری کی حمایت کے ساتھ .....آلوک ورما کو ہٹانے کافیصلہ کرلیا؟ملکاارجن کھڑگے نے آلوک ورما کوہٹانے کی شدید مخالفت کی‘انہوں نے کہاکہ 77دنوں کے لیے،واضح رہے کہ اتنی مدت تک ورماجبری چھٹی پرتھے،ان کی سروس کی مدت بڑھائی جانی چاہیے۔جب میٹنگ کے دوران سیکری نے کہاکہ’ورما کے خلاف کچھ الزامات ہیں‘توکھڑگے نے سوال کیاکہ ’الزامات کہاں ہیں‘؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب جسٹس پٹنائک نے بہت ہی صاف لفظوں میں دے دیاہے:’’بدعنوانی کے معاملے میں آلوک ورما کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا،پوری جانچ سی بی آئی کے اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانہ کی شکایت پر کی گئی تھی،سی وی سی رپور ٹ میں کوئی بھی فیصلہ یانتیجہ میرانہیں ہے،سی وی سی نے مجھے9؍نومبر2018کوراکیش استھانہ کے ذریعے مبینہ طور پر دستخط کردہ ایک بیان بھیجاتھا،میراکہناہے کہ استھانہ کے ذریعے دستخط کردہ بیان میری موجودگی میں نہیں تیارکیاگیاتھا‘آلوک ورما پر مودی کی صدارت والی سلیکٹ کمیٹی نے جلد بازی میں فیصلہ لیا۔‘‘ایک بڑا سوال یہ ہے کہ راکیش استھانہ کے الزامات کو ‘جن پر بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں اوردہلی ہائی کورٹ نے جن کی جانچ کے احکامات دئیے ہیں،کیسے’سچ‘مان لیاگیااورکیوں ورماکو’صفائی‘کی اجازت نہیں دی گئی؟
آلوک ورما نے سروس سے استعفےٰ کے اپنے مکتوب میں واضح لفظوں میں کہاہے کہ انہیں سی وی سی کی رپورٹ پر موقف رکھنے نہیں دیاگیا۔انہوں نے انصاف کے سارے عمل پرسوالیہ نشان کھڑا کرتے ہوئے کہاہےکہ عدالتی عمل میں مداخلت کی گئی تھی اورپورے عمل کوالٹ دیاگیاتاکہ انہیں سی بی آئی ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹایاجاسکے۔انہوں نے ’’اجتماعی غوروفکر‘‘کی ضرورت پرزوردیتے ہوئے کہاکہ کوئی بھی حکومت سی وی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر سی بی آئی کے ساتھ کیاسلوک کر سکتی ہے،یہ اجتماعی غوروفکر کالمحہ ہے.....سوال یہ ہے کہ ورماکیوں ہٹائے گئے؟کیاواقعی وہ کسی’بڑےکیس‘کی جانچ شروع کرنے والے تھے؟کیا یہ بڑا کیس ’رافل‘تھا جیسا کہ صدرکانگریس راہل گاندھی نے دعویٰ کیاہے؟کوئی بات توہے کہ36دنوںتک سی بی آئی ہیڈکوارٹرمیں ہلچل مچی رہی۔ورماراتوںرات ہٹائے گئے،سپریم کورٹ نے پھر تقرری کی اورپھر دودن بعدہی ہٹادئیے گئے!یہ وہ سوال ہیںجن کے جواب سامنے ہیںبھی اورنہیں بھی ہیں لیکن یہ بات توبالکل واضح ہے کہ مودی سرکارنے آئی پی ایس اورآئی اے ایس افسران کواپنے اس عمل سے بہت ہی صاف پیغام دے دیا ہے کہ اگرسرکارکی مرضی کے خلاف کسی نے بھی کام کیا اسے پیس کررکھ دیا جائے گا۔اگرمودی سرکارپھر بنتی ہےتویہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی آئی پی ایس افسریاآئی اے ایس افسرسرکارکے’کاموں‘پر نہ انگلی اٹھانے کی ہمت کرسکے گا اورنہ ہی جانچ کی۔سرکاراپنی مرضی کی مالک ہوگی،وہ چاہے سیاہ کرےچاہے سفید۔یعنی جمہوری قدروں پرمکمل طورپر پانی پھر جائے گااور’انصاف‘بس فقط لغت میں لکھا ہوا ایک لفظ رہ جائے گا حقیقت میں اس کے کوئی معنی نہیں ہوں گے۔آلوک ورما کی’چھٹی‘نے عدلیہ پر بھی بہت سارے سوالات کھڑے کردئیے ہیں۔معروف کالم نویس بھانو پرتاپ مہتاکی مانیں تو اس سارے معاملے میں سپریم کورٹ کی اتھارٹی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
رہی بات اُن دوبلوں کی جن میں سے ایک لوک سبھا میں اوردوسرا دونوںایوانوں میں منظورہوا ہے توانہیں اس ملک کے سیکولر جمہوری ڈھانچے پر ایک حملے کے سوااورکیا کہا جاسکتا ہے۔’کوٹہ بِل‘کی بات کریں تویہ اس ملک کے لوگوں کے ساتھ ایک’دھوکہ‘ہے۔یہ ایک ’جملہ‘ہے کہ اب اشرافیہ میں جواقتصادی طورپرپچھڑے ہوئے ہیں انہیں بھی اعلیٰ تعلیم اورسرکاری ملازمتوں میں ’کوٹہ‘کافائدہ حاصل ہوگا۔یہ اشرافیہ کی ’جنرل کٹیگری‘ہوگی،اس میںمسلمانوں کو بھی شامل رکھا گیاہے۔سوال یہ پیدا ہورہاہے کہ وہ ’زعفرانی ٹولہ‘جو ہر طرح کے ’کوٹے‘یا’ریزرویشن‘کاخاتمہ چاہتاتھااچانک کیسے’کوٹہ‘یا’ریزرویشن‘کاحامی ہوگیا؟حزبِ اختلاف کی مانیں تویہ ’کوٹہ پریم‘لوک سبھاالیکشن کے مدنظرہے جو بس آیا ہی چاہتاہے۔خیر‘یہ ’کوٹہ بل‘دونوں ایوانوں میں منظورہونے کے بعدبھی کیا’عدلیہ‘کے ’ترازو‘پرکھراّاترے گا؟کہا جاتاہے کہ 124ویں آئینی ترمیمات کے ذریعے اسے منظورکیاگیا ہے اس لیے عدلیہ سے اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔پرسچ یہ ہے کہ اس ملک میں عدلیہ نے آئینی ترمیمات کے تحت کیے گئے فیصلے بھی رد کیے ہیں۔سپریم کورٹ میں اس’کوٹہ‘کوچیلنج کربھی دیاگیاہے۔چلئے مان لیں کہ سپریم کورٹ اس قانون کورد نہیں کرتا تب بھی اشرافیہ یاجنرل کٹیگری میں کتنے افراد کو اس کافائدہ پہنچ سکتا ہے؟اس قانون کے تحت جن کی سالانہ آمدنی آٹھ لاکھ روپئے تک ہوگی‘یا جن کے پاس پانچ ایکڑکھیتی یاگھرکے لیے نووارزمین یامیونسپل علاقے میں سوگززمین ہوگی وہ’کوٹہ‘کے حقدار ہونگے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تواس ملک کاہر شخص اس’کوٹہ‘کے تحت آجائے گا۔اچھی نوکری والابھی اورتاجر بھی کہ وہ آٹھ لاکھ ٹیکس دکھاتا ہی نہیں ہے!لہٰذا یہ ملک کی عوام سے دھوکہ ہے۔مزید یہ کہ یہ پچھڑوں،دلتوں اورآدی واسیوں کے’کوٹے‘کودرکنارکرنے کاایک’قدم ‘بھی ہوسکتا ہے۔اس خدشے یاخطرے کااظہارکیا جارہاہے کہ’جنرل کٹیگری‘کودلتوں اورپچھڑوں تک وسیع کردیا جائے گااورپچھڑوں ودلتوں کے ’کوٹے‘کوختم کردیاجائے گا۔آرایس ایس عرصے سے اس کے لیے شورمچارہاہے۔ ’کوٹہ بِل‘کی منظوری سی ایک نئے طرح کے ریزرویشن کی شروعات ہوئی ہے،اس کاتجربہ ریزرویشن کے پرانے قانون کو بدلنے کے لیے کیاجاسکتا ہے ۔ایسا ہواتوملک میں ایک شدید قسم کی’بدامنی‘پھیل سکتی ہے۔مودی کی سرکاراگرپھر آگئی توریزرویشن کے قانون میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ممکن ہیں،ایسی تبدیلیاں آئین جن کی اجازت نہیں دیتا۔
رہا’شہریت بل‘تویہ بانیٔ پاکستان کے’دوقومی نظرئیے‘کودرست قراردینے کی سمت ایک قدم ہے۔یہ مذہب کے نام پر ’شہریت‘طے کرنے کی سمت سبھی ایک قدم ہے۔’شہریت بل‘لوک سبھامیں منظورہو چکاہے۔اس کے تحت غیرملکی ہندوؤں کو(اورعیسائیوں،سکھوں وغیرہ کوبھی)ہندوستان کی شہریت مل سکتی ہے مگرمسلمانوںکونہیں مل سکتی!بھلاکیوں؟آئین میں مذاہب کی بنیادپرشہریت دنیا یاشہریت کا چھیننا توہےہی نہیں!مجاہدین آزادی اورآئین سازو ں نے جب اس ملک کو سیکولربنیادوں پر کھڑا کیاتھا توان کے خواب وخیال میں بھی نہیں رہا ہوگا کہ ایک دن اس ملک میں مذاہب کی بنیادپر’شہریت ‘کاقانون منظورکیا جائے گا!ہندوستان ’کثرت میں وحدت‘کی بنیادپر کھڑا ہےویرساورکرکے’صرف ہندوؤں کاراشٹر‘کی بنیادپر نہیں۔جناح نے ہندوؤں اورمسلمانوںکو دوالگ الگ قوم قرار دے کر پاکستان کی بنیادرکھی تھی،مجاہدین آزادی نے اس کی مخالفت کی تھی،جناح کانظریہ قیام بنگلہ دیش کے بعدہی ’ڈھے ‘گیاتھا لیکن اب ہندوستان میں’شہریت قانون‘کی منظوری کے بعد یہ اندازہ ہورہاہے کہ ان کے نظرئیے کے ماننے والے آرایس ایس میںموجودہیں۔’شہریت بل‘ملک کے آئین سے‘ملک کے سیکولرازم سے،جمہوریت اور’کثرت میں وحدت‘کے نظریہ سے کھلواڑہے۔یہ جناح کے نظریے کی تصدیق ہے۔یہ’ہندوراشٹر‘کے قیام کی سمت ایک بڑا قدم ہے اوراگرمودی سرکار پھر آگئی تویہ قدم مزید آگے بڑھے گا۔میں یوگیندریادوکے’دی وائر‘میں اس موضوع پر شائع مضمون کی ان آخری سوالیہ سطروں پر اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا’’اب جب کہ ساورکر کاپورٹریٹ لگ چکا ہے ،جو کہ دوقومی نظریہ کے کٹّرحامی تھے،توکیا وزیر داخلہ کوپارلیمنٹ کے مرکزی ہال میں محمدعلی جناح کاپورٹر یٹ لگانے پر بھی غورنہیں کرناچاہیے....؟‘‘