Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, January 22, 2019

افغانستان میں قیام امن کی کوشش اور دوھنس و دھمکی کی روش


عمیر کوٹی ندوی/ صدائے وقت
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
براعظم ایشیا کے بیشتر ممالک ہی نہیں دنیا کی بڑی طاقتوں اور حکومتوں  کے درمیان اس وقت  توجہ طلب ایشوز میں  سے اہم ترین مسئلہ افغان طالبان سے مذاکرات کا بھی  ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ بات چیت   ہوا  سے نہیں کی جاتی  ہے بلکہ اسی سے ہوتی ہے جس کا کوئی وجود ہوتا ہے۔ افغان طالبان کے تعلق سے دنیا کی آراء،  امریکہ کی خواہش اور مرضی کے پیش نظر اس کے زیر اثر ممالک  کےپل پل بنتے بگڑتے نظریہ  اور اس میں نشیب وفراز کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اس تاریخ کو رقم کرنے کے لئے روشنائی کی جگہ بے قصور افغانیوں کا خون استعمال کیا گیا ہے۔ افغانستان میں کشت وخوں کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس میں ہر ایک نے اپنا حصہ وصول کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ،جس کو جتنا موقع ملا اس نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ لیکن قدرت کا نظام اور حالات کے بدلتے ہوئے رخ کو دیکھئے کہ کل تک جنہیں نیست ونابود کرنے کی بات کی جاتی تھی آج نوبت ان سے مذاکرات کی خواہش ہی نہیں اس کی شدید ضرورت تک آپہنچی ہے۔ حالیہ دنوں میں جو ہوا اور جو ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ امریکہ نے زلمے خلیل زاد کو افغان مفاہمتی عمل کے لئے اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کیا ہے۔ زلمے خلیل زاد اپنی تقرری کے وقت سے تسلسل کے ساتھ اس سلسلہ میں کوششوں میں مصروف ہیں اور اس مسئلہ سے دلچسپی رکھنے والے تقریبا سبھی طبقوں اور ممالک سے رابطہ قائم کر رہے ہیں، ان سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔

زلمے خلیل زاد کا ہندوستان، چین، افغانستان اور پاکستان کا حالیہ دورہ بھی اسی تعلق سے ہے، وہ چاروں ممالک کے دورہ  کے دوران مسئلہ افغانستان کے سیاسی حل کے لئے مشاورت کر رہے ہیں۔ لیکن مشاورت کے ساتھ ہی امریکہ اپنی اس پرانی روش کو بھی برقرار رکھے ہوئے  ہےجس کے  لئےوہ جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ یہی وہ روش ہے جس نے دنیا کو آزمائشوں ہی نہیں تباہی اور کشت وخوں سے دوچار کیا ہے۔ اسی روش کے نتیجہ میں افغانستان ایک طویل عرصہ سے خون سے نہا رہا ہے۔ امریکہ کی اس روش کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان کا وجود نہ صرف باقی ہے بلکہ خود مغربی میڈیا اور مغربی ممالک بھی اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ افغان طالبان افغانستان کے صدر اشرف غنی کی حکومت کے لئے  ایک بڑا خطرہ  ہی نہیں ہیں بلکہ  وہ  ملک کے بیشترعلاقوں کا کنٹرول  بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ افغان طالبان نے ابھی تک افغان حکومت سے براہ راست بات کرنے سے انکار کیا ہے، ان کا ماننا ہے کہ افغان حکومت کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے وہ اب تک صرف امریکی عہدے داران سے  ہی ملاقات کر رہے ہیں۔ جب کہ امریکہ چاہتا ہے کہ  افغان حکومت کو بھی اہمیت دی جائے اور اسے بھی مذاکرات میں شامل کیا جائے۔ اب جب کہ افغان طالبان امریکہ کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں ، ساتھ ہی وہ کسی اور طاقت کو تسلیم کرنے یا کسی کے دباؤ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو مذاکرات کے شدید تقاضہ کے باوجود دھونس ودھمکی  اور دباؤ ڈالنےکی راہ کو اختیار کیا جارہا ہے۔

افغان مفاہمتی عمل کے لئے امریکہ کےخصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد نے مسئلہ افغانستان کے سیاسی حل کے لئے مشاورت  کے تعلق سے ہندوستان، چین، افغانستان اور پاکستان کےاپنے حالیہ دورہ کے دوران افغانستان کی راجدھانی  کابل میں امریکہ کے سفارت خانے میں منعقدہ پریس کانفرنس  میں کہا ہے کہ" اگر طالبان امن کے موضوع پر بات کرنا چاہیں تو ہم مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن اگر وہ جنگ کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ  جنگ کریں گے"۔ انہوں نے اس موقع پر  یہ بھی کہا ہے کہ" امن مذاکرات کے آغاز کے لئے طالبان تنظیم پر دباو ڈالنا اہمیت کا حامل ہے"۔ساتھ ہی یہ  امید بھی ظاہر کی  ہے کہ" اس معاملے میں جلد از جلد کوئی پیش رفت سامنے آئے گی"۔ دوسری طرف یہ بھی اہم بات ہے کہ مذکورہ چاروں ممالک ہندوستان، چین، افغانستان اور پاکستان کی طرف سے بھی افغان امن مذاکرات کے تعلق سے مثبت رویہ کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود  امریکہ کی یہ عجب روش ہے کہ  ایک طرف تو افغان طالبان کے وجود، طاقت، اثر ورسوخ اور ملک کے بیشتر حصہ پر اس کے  کنٹرول کو تسلیم کر رہا ہے  اور اسی وجہ سے مذکرات کی ناگزیر ضرورت کے پیش نظر اس نے اس سمت باضابطہ پہل کی ہے۔ اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس پہل کو طالبان نے تسلیم کرتے ہوئے امریکہ سے مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے اور اب تک کئی دور کی بات چیت ہوبھی چکی ہے۔ لیکن ان سب کے درمیان دوسری طرف  امریکہ 'طالبان تنظیم پر دباو ڈالنے' کی حکمت عملی پر بھی عمل کر رہا ہے اور  اسے' اہمیت کا حامل' بھی بتا رہا ہے۔

اس درمیان میڈیا میں جو باتیں سامنے آئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ طالبان بھی امریکہ کی دباؤ ڈالنے کی روش سے بے خبر نہیں ہیں۔ طالبان کے اہم لیڈر اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران مذہبی امور کے وزیر رہنے والے حافظ محب اللہ کی زلمے خلیل زاد کے پاکستان کے دورے کے دوران پشاور میں پاکستانی فوج کے ذریعہ گرفتاری کو  وہ اسی سلسلہ کی کڑی تصور کررہے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ حافظ محب اللہ کی گرفتاری اس موقع پر اس لیے عمل میں آئی ہے کیونکہ وہ افغان طالبان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ زلمے خلیل زاد اور ساتھ ساتھ افغان صدر اشرف غنی کے نمائندوں سے ملاقات کریں۔ بی بی سی کے مطابق طالبان کا کہنا ہے کہ "انھوں نے حافظ محب اللہ کو اس لیے گرفتار کیا ہے تاکہ ہمیں پیغام بھیج سکیں"۔ خبروں کے مطابق امریکہ کے اشارے پر پاکستان اور سعودی عرب دونوں پوری کوشش کر رہے ہیں کہ افغان طالبان اپنے موقف میں نرمی پیدا کر لیں۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر دباؤ راست طور پر  نہیں ڈالا جارہا ہے بلکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے راستہ سے ڈالا جارہا ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا  امریکہ کی یہ روش افغانستان اور پورے خطہ میں امن کے قیام کے  لئےسود مند ثابت ہوگی اور کیاواقعی اس سے"افغانوں کے اندرونی سیاسی معاملات کے تصفیہ" میں کوئی  مددمل سکے گی؟۔ بلکہ اندیشہ اس بات کا ہے کہ کہیں یہ جنوبی ایشیا کو ایک نئے انتشار  سےدوچار  نہ کردے ۔