Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, January 14, 2019

مجربات شفاء الملک از ڈاکٹر شمیم ارشاد۔


 جنوری 14, 2019  0 تبصرے  30 مناظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمیم ارشاد اعظمی
جامعہ طبیہ دیوبند، اتر پردیش ،انڈیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
شفاء الملک حکیم عبد اللطیف فلسفی کا شمار بیسویں صدی کے مشہور طبی اسکالر ،مصنف ،مترجم ،محقق،ماہر تعلیم اور معالج کے طور پر ہوتا ہے۔قدیم طبی کتب پر آپ کی نظر بہت گہری تھی۔طب کے بنیادی علوم منطق، فلسفہ ، ہیئت ، موسیقی، اور قدیم سائنسی موضوعات پر آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔آپ کا مطب مرجع خلائق تھا۔سستی ، کم اجزا والی اور آسانی سے دستیاب ہونے والی ادویہ سے علاج کرتے تھے۔خاندانی روایت کے مطابق علاج و معالجہ کو ترجیح دیتے تھے۔ حسن معالجہ، حذاقت فن اور دست شفا کی وجہ سے آپ کو شہرت و امتیاز حاصل تھا۔ مرکبات کے بالمقابل مفردات کے ذریعہ علاج ومعالجہ کوفوقیت دیتے تھے، کبھی کبھی دہلوی مکتب فکر کے مطابق مرکبات کے ذریعہ بھی علاج کرتے تھے۔ تصنیف و تالیف کا بلند ذوق رکھتے تھے۔ التحقیق المطلوب فی الماء المشروب، تحقیق المقال فی تعریف الاعتدال، تاریخ طب، ہماری سائنٹفک طب یونانی، ہماری طب میں ہندؤں کا ساجھا ،طب اور سائنس،مختصر تاریخ تشریح و منافع و جراحت،کتاب النبض اور ترجمہ کتاب الادویہ القلبیہ آپ کے علمی مفاخر میں شمار کئے جاتے ہیں۔آپ کے مضامین کے دو مجموعے تجد طب (1972) اور مقالات شفاء الملک( 2002) میں پروفیسر حکیم سید ظل الرحمن نے ترتیب دے کر علیگڈھ مسلم یونیورسٹی سے شائع کرایا ہے۔
حکیم عبد للطیف فلسفی 19اپریل 1900کو خاندان عزیزی ،لکھنؤمیں آنکھیں کھولیں۔ والدمحترم نے اپنے مشہور عالم دوست مفتی عبد اللطیف کے نام پر آپ کا نام عبد اللطیف رکھا۔ عربی درسیات سے فراغت کے بعد 1917 میں طب کی تعلیم کے لئے تکمیل الطب کالج میں داخلہ لیا اور1921 میں سند فراغت حاصل کی ۔ طب سے فراغت کے بعد مادر علمی تکمیل الطب میں درس وتدریس کے فرائض انجام دینے لگے، یہ سلسلہ 1927 تک جاری رہا۔
13اکتوبر 1927 کوشفاء الملک بحیثیت لکچرر طبیہ کالج ،علیگڈھ سے وابستہ ہوئے۔اس سلیکشن کمیٹی میں حاذقِ فن مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے علاوہ حکیم غلام کبریا خاں، شفاء الملک حکیم عبد الحمید اور شفاء الملک حکیم عبد الحسیب دریابادی بھی شامل تھے۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد آپ کو اجمل خاں طبیہ کالج کا وائس پرنسپل اورپھر 1949 میں ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ کی سبکدوشی کے بعدکالج کا پرنسپل مقرر کیا گیا۔شفاء الملک کالج کے پرنسپل کے علاوہ معالجات کے پروفیسر ،ڈین فیکلٹی آف میڈیسن اور ڈائریکٹرآف ریسرچ ان یو نانی ادویات، علیگڈھ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہیں ۔ 3ستمبر1961 کو اجمل خاں طبیہ کالج سے سبکدوش ہوئے۔شفاء الملک صاحب نے علیگڈھ میں کم وبیش 34 سال گزارے ہیں۔ حکیم عبد اللطیف فلسفی ؒکی مجموعی طبی خدمات کے اعتراف کے طور پر برطانوی حکومت نے1940میں شفاء الملک کا خطاب سے نوازا تھا۔ بعد میںیہ خطاب آپ کے نام کا لاحقہ بن گیا۔
شفاء الملک حکیم عبد اللطیف فلسفی علاج و معالجہ میں اجتہادی شان رکھتے تھے۔ بیاضی نسخہ جات کو زیادہ پسند نہیں فر ماتے تھے۔ امراض کے علاج میں اصول علاج کو مقدم فرما تے تھے۔ مفرد اور مرکب دونوں طریقوں سے علاج کرتے تھے مگر مفرد ادویہ کو ترجیح دیتے تھے۔ نسخے مختصر اور آسانی سے دستیاب ہوا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ صبح، دوپہر ،سہ پہر اور شام دوائیں اس حالت میں استعمال کرائی جاتی ہیں جب مرض کی تشخیص ہو پاتی ہے۔ شفاء الملک خالص خدمت خلق کی غرض سے مطب فرماتے تھے۔ شفاء الملک کا مطب مرجع خلائق تھا۔ غریب و امیر ،ہندو مسلم ،یونیورسٹی کے پروفیسر اور بیرے سبھی علاج کے لئے آیا کرتے تھے۔ شفا الملک بلا تفریق مذہب و ملت مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے۔ آپ کو صدر جمہوریہ ہند جناب ذاکر حسین خاں(1967 -1969 ) اور آنجہانی وی۔وی۔گری (1969-1974) کے اعزازی طبیب رہنے کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔ اس کے علاوہ آپ نادار اور پریشان حال مریضوں کا علاج مفت کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ مطب کے علاوہ ان کے گھر پر بھی مریضوں کاہجوم رہا کرتا تھا۔ دور دراز سے مریض شفاء الملک کی خد مت میں حاضر ہوتے اور بحمد اللہ شفا یاب ہو کر جاتے تھے۔ شفاء الملک کے نسخے عام اطبا سے بالکل مختلف ہوا کرتے تھے۔ وجع المفاصل میں گرم ادویات کا استعمال عام اطبا کا معمول ہے لیکن شفا الملک کا خیال تھا کہ مفصل کی غشا میں خالص بلغم ورم نہیں پیدا کر سکتا ہے بلغم کے ساتھ صفرا کی آمیزش کثیر مقدار میں ضروری ہے چنانچہ شفاء الملک کے معمول میں برگ شاہترہ، سورنجان، آلو بخارا، مکو خشک، تخم کاسنی ،تخم خیارین، تمر ہندی، خار خسک برگ سداب جیسے اجزاء حسب ضرورت اضافات کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ گھٹنے کے ورم میں عام معمول کے مخالف مرمکی، چاء خطائی، گل کھریا، گل ارمنی، برگ حناسبز میں پسوا کر ضماد کرواتے تھے۔ جریان منی اور کثرت احتلام میں مغلظات اور حابسات کے بجائے اصلاح ہضم پر زیادہ زور دیا کرتے تھے۔ لبوب اور معجون ثعلب کا استعمال شدت مرض میں کرتے تھے۔ اسی طرح کثرت حیض کی مریضہ کو ہلکے مفتحات کے سا تھ مدر حیض ادویہ تجویز فرماتے تھے۔ شفاء الملک قبض اور سوء ہضم کو بہت اہمیت دیا کرتے تھے۔ ایسے مریض جو ریاح کی کثرت ،کبھی دست کبھی قبض،ماحول سے بیزاری، مالیخولیائی کیفیت، شکم میں جگہ جگہ درد کا ذکر کرتے شفاء الملک ایسے حالات کے مریض کی تشخیص ریح البواسیر کرتے تھے۔ اس کے لئے حکیم صاحب برگ سداب ،صعتر فارسی، بادیان، کشنیز خشک، آلو بخارا کے جو شاندہ میں شربت آلو بالو (آلو بخارہ) اور ورد مکرر کے اضافہ کے ساتھ استعمال کراتے تھے اور سوتے وقت مقل،رسوت اور ست پودینہ کی گولیاں کھلاتے تھے۔یہ نسخہ ریح البواسیر کے لئے نہایت کار گر تھا۔
حکیم محمد اسلم صدیقی کا شمار شفاء الملک کے اہم شاگردوں میں ہوتا ہے، آپ نے اپنی کتاب ’’شفاء الملک:نقوش و تاثرات‘‘ میں استاد محترم کے مطب کا اس طرح نقشہ کھینچا ہے۔ لکھتے ہیں۔
’’بیک وقت کئی کئی مریضوں کو دیکھتے، ان کے احوال سنتے اور اسی کے ساتھ طلبا کو کئی کئی مریضو ں کے ایک ساتھ نسخے لکھواتے جاتے تھے۔ طلبہ نسخے لکھ کر پیش کرتے، موصوف جہت نسخہ، ترکیب استعمال اور پرہیز وغیرہ پر ایک نظر ڈال کر واپس کر دیتے۔ یہ مشغولیت مسلسل کئی گھنٹے جاری رہتی اس درمیان غلطی کرنے والوں کی گرفت، فنی سوالات، اور علمی بحث بھی جاری رہتی جس سے بہت اہم فنی اور معالجاتی نکات حل ہوتے رہتے تھے۔ مطب کی یہ تعلیم و تربیت اور مشق بے انتہا فوائد پر مشتمل تھی۔‘‘
حکیم محمد مختار اصلاحی شفاء الملک کے خاص شاگردوں میں تھے۔ علمی اور عملی دونوں اعتبار سے اصلاحی صاحب شفاء الملک کے جانشیں تھے۔ آج ممبئی میں یونانی طریقہ علاج کو جو مقام اور مقبولیت حاصل ہے،اس کا سہرا حکیم محمد مختار اصلاحی صاحب کے سر جاتا ہے۔استاد کے لئے شاگرد سے زیادہ مستند الفاظ کس کے ہو سکتے ہیں۔اصلاحی صاحب اپنی کتاب ’’اطبا اور ان کی مسیحائی‘‘ میں اپنی طالب علمی کے زمانہ کی کچھ یادیں اور شفاء الملک کے مطب سے متعلق بعض واقعات نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’۔۔۔۔ان سب میں حکیم عبد اللطیف فلسفی لکھنؤی کی شخصیت کئی لحاظ سے نمایاں اور ممتاز تھی۔ وہ اپنے خاندانی روایات کے حامل اور لکھنؤ و علی گڑھ دونوں جگہ کی اچھی قدروں کے سنگم تھے۔ ہم نے جب اپنے عملی سال میں قدم رکھا اور مسلسل ان کے مطب میں حاضر ہونے کا موقع ملا تو ان کی علمی لیاقت اور علاج میں مجتہدانہ صلاحیت کا صحیح اندازہ ہوا۔ ایک اچھے معالج کے تمام اوصاف ان میں موجود تھے۔ان کا مطب منفرد اور طرحدار تھا۔ ہر طالب علم اپنی استعداد وصلاحیت کے مطابق اس مخزن علم و حکمت سے فیض حاصل کرتا رہا۔
بلاشبہ علی گڑھ میں ان کا مطب مرجع خاص وعام تھا۔ ہمارا آخری سال تھا، ایک نواب صاحب کی اکلوتی صاحبزادی مطب میں آئیں، ان کے پیر میں ایک سفید داغ تھا۔ حکیم صاحب نے برص تشخیص فرما کر حسب ذیل نسخہ لکھوایا۔
نسخہ: بابچی، سر پھوکہ، ہلیلہ سیاہ، گل حنا، گل نیم، چوب چینی، ہر ایک چھ ماشہ کوٹ کر رات کو گرم پانی میں بھگو دیں اور صبح مل چھان کر شہد خالص دو تولہ ملا کر پلائیں۔
نسخہ ضماد: بابچی، ڈنڈی ہار سنگھار، سرمہ اصفہانی، تخم پنواڑ، کبریت، عقرقرحا ۔تمام ادویہ ہم وزن باریک کرکے سرکہ خالص میں پیس کر ضماد تیار کریں اور داغ پر کئی بار ملیں۔ تقریبا ً دو اڑھائی مہینہ یہی نسخہ استعمال میں رہا، پھر مریضہ نے مطب میں آکر بتایا کہ اب طبیعت میں بوجھ اور کسل نہیں ہے اور سفید داغ مٹ کر جلد کے مشابہ ہو گیا ہے۔
ایک مرتبہ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب اپنے پانچ سالہ ہونہار بچے کو لے کر حکیم صاحب کے مطب میںآئے جس کے لوزتین بہت زیادہ بڑھے ہوئے تھے۔ انھوں نے یہ بتایا کہ وہ بچہ کو فلاں ماہر خصوصی کے پاس لے کرگئے تھے۔ انھوں نے آپریشن کی رائے دی ہے۔حکیم صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں آپ کے پاس بڑی امید لے کر آیا ہوں۔ اگر بچہ بغیر آپریشن کے ٹھیک ہوجائے تو آپ کا بڑا کرم و احسان ہوگا۔ بچہ کی ماں آپریشن سن کر ہی ہراساں و پریشاں ہے۔ حکیم صاحب نے ہدایت فرمائی کہ ہم لوگ لوزتین کا معائنہ کریں۔ بار باری سب نے معائنہ کیا بے شک وہ بہت زیادہ متورم تھا۔ استاد محترم نے پروفیسر صاحب کو امید دلائی کہ انشاء اللہ بچہ جلد ٹھیک ہوجائے گا۔پھر ہم لوگوں سے یہ نسخہ لکھوایا۔
نسخہ: لعوق خیار شنبر 5 ماشہ دن میںکئی بار چٹائیں اور مغز املتاس کو دودھ میں پکا کر صبح و شا م نیم گرم غرغرہ کرائیں۔ ایک ماہ تک برابر یہی دوا جاری رہی اور دھیرے دھیرے یہ بچہ بالکل ٹھیک ہوگیا۔
شفاء الملک کے شاگرد رشید اور حقیقی علمی جانشیں پروفیسر حکیم سید ظل الرحمن نے اپنی کتاب تذکرہ خاندان عزیزی میں شفاء الملک کے علاج و معالجہ سے متعلق کچھ واقعات نقل کئے ہیں جنھیں استفادۂ عام کی غرض سے لکھا جارہا ہے۔
کراچی میں ایک وکیل صاحب کے غدود لوزتین کافی بڑھ گئے تھے اور تمام علاج ہو چکے تھے۔ آپریشن کے علاوہ اور کوئی چارۂ کار نہیں رہا تھا۔ حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے آپریشن کی شدید مخالفت کی اور مغز املتاس چھ گرام اڑھائی سو ملی لیٹردودھ میں جوش دے کر صاف کر کے صبح و شام پلانے کی ہدایت فرمائی۔ ایک ماہ کے مسلسل استعمال سے تکلیف جاتی رہی اورپندرہ سال سے زیادہ ہوگئے ہیں دوبارہ تکلیف نہیں ہوئی۔
حکیم نثار احمد علوی(کراچی) کا بیان ہے کہ لکھنؤ کے ایک تعلقہ دار کے صاحبزادے ہیضہ میں مبتلا ہوئے۔ اطبائے لکھنؤ اور ممتاز ڈاکٹر جمع تھے،کوئی تدبیر کارگر نہ ہوتی تھی۔ شفاء الملک مرحوم نے لیموں کی آئس کریم جموا کر قدرے قدرے دینے کی ہدایت کی۔ ایک گھنٹہ کے اندر ہی افاقہ شروع ہوگیا۔ اور چار گھنٹہ بعد مرض دور ہوگیا۔
ایک بچہ بعمر چار برس مطب طبیہ کالج علی گڑھ میں لایا گیا۔ چاردن سے چیچک میں مبتلا تھا۔ خاکسی والا مشہور نسخہ دیا جارہا تھا۔ ضعف قلب بڑھ رہا تھا۔ حکیم صاحب نے انجیر کا اضافہ کیا۔ مطب میں حاضر طلبہ نے کہا کہ انجیر کے استعمال سے اسہال شروع ہوجانے کا خطرہ ہے۔ حکیم صاحب نے صورت حال کی مفصل وضاحت کرتے ہوئے فرمایا، ضعفِ قلب پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ اگر قلب کے نظم میں زیادہ خلل ہوتا گیا تو اسے سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔ اسہال کا تدارک آسان ہے۔
شفاء الملک کا نمو نہ مطب
قلاع: زر ِورد کات سفید دانہ ہیل خرد کباب چینی باریک پیس کر منہ میں چھڑکیں۔
درد دندا ں: عقر قرحا، فلفل سیاہ خردل قرنفل نمک طعام باریک کر کے بطور منجن استعمال کریں۔
لثہ دامیہ: مصطگی جفت بلوط ہیرا کسیس اقا قیا کندر مازو ہموزن باریک پیس کر دانتوں پر ملیں۔
خفقان: زہر مہرہ طباشیر انار دانہ سماق جدوار زرِ ورد کہرباء شمعی یشب سبز ہموزن باریک کر کے ۳گرام، خمیرہ گائوزباں عنبری جواہر والا ۳گرام کے ساتھ کھائیں۔
شفاء الملک نے دواخانہ طبیہ کالج کی ترقی اور استحکام کے لیے اپنے اور خاندان کے بیشتر مجربات دواخانہ کو عنایت کردیئے۔آج یہ نسخے دوا خانہ طبیہ کالج کے مشہور پروڈکٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دماغین ، فواکہین ،ذہبی ،عنبری ،حب مقل جدید ،خون صفا ،نسوانی اور بہارنو جیسی مشہور دواؤں کے نسخے حکیم صاحب کی فراخ دلی اورطب سے حقیقی تعلق کا نتیجہ ہیں۔

امراض و علاج سے سے متعلق شفاء الملک کے تجربات

شفاء الملک حکیم عبد اللطیف فلسفی نے اپنی طبی ڈائری میں امراض اور علاج سے متعلق کچھ بنیادی باتیں لکھی ہیں۔ یہ باتیں برس ہا برس مطب کے تجربات کا نچوڑ ہیں۔یہ وہ معالجاتی اسرار و رموز ہیں جن کاجاننا ایک معالج کے لئے نہایت ضروری ہے ،ان کے بغیر کامیاب اور نفع بخش علاج و معالجہ کا تصور بے کار ہے۔قارئین کی دلچسپی کے لئے یہ نکات پیش خدمت ہیں۔
دائیں اور بائیں نبض کا اختلاف اکثر احشا ء کے زخموں کی خبر دیتا ہے ۔نبض کا زیادہ عظیم اور متمدد ہونا بغیر کسی خاص مرض کے بواسیر کی دلیل ہے۔
قارورہ میں سفید دھاگے یا ایسے رسوب آنا سوزاک مزمن کی دلیل ہے۔قارورے کے حرکت دینے سے رسوب کا اوپر کی جانب متفرق طور پر حرکت کرنا درد سر اور بیداری کی دلیل ہے۔قارورے میں ابر ،ایسے ٹکڑے سوء ہضم کی دلیل ہیں ۔قارورے کا غلیظ و شفاف ہونا البیومن (رطوبت بیضہ) کی خبر دیتا ہے۔
بواسیر کے نتیجہ میں ان امراض کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ دوار،ضعف بصر،درد سر،قبض،اختلاج قلب، نسیان، وجع الفواد، لثہ دامیہ ،قلاع ،رعاف ،وجع الصدر، قولنج،سکوت شہوت ،حمی حادہ ،حبس بول ،زحیر سدی، مالیخولیا۔
میں سات برس کے بچے سے لے کر ستر برس کے بوڑھے کومرض آتشک میں مبتلا دیکھا ہے ۔آتشک کے نتیجہ میں مختلف امراض ہو سکتے ہیں۔اور آتشک کا علاج ان سب امراض میں مفید ثابت ہوا ہے۔وہ امراض یہ ہیں۔وجع المفاصل،قلاع، جرب ،بہق اسود، خنازیری گلٹیاں ، مالیخولیا، پیٹ میں گلٹیاں اور اس کے ساتھ بخار ،جریان، ضعف باہ، وجع الورک ،قروح مفاصل، نزلہ،بواسیر رحم، ورم خصیۃ الرحم، فالج، قبض دائمی، حدبہ، اختلاج قلب، سوزاک، سرعت انزال، بواسیر ،چیچک کی طرح کے دانے، اسقاط حمل، سیلان الرحم، حکۃ الرحم،ہڈیوں کے ابھار۔
سوزاک کے نتیجہ میں دیگر امراض دیکھے ہیں ۔سرعت انزال، نطفہ کا قرار نہ پانا ،اس کا قبل یا بعید ہونا،ضعف باہ ،ورم خصیتین،جریان ، غدہ مذی کے متورم ہوجانے کی وجہ سے پیشاب کا بند ہوجانا،عنق مثانہ کے تشنج کی وجہ سے پیشاب کابند ہوجانا، وجع المفاصل ،عورتوں میں خصیۃ الرحم کا متورم ہوجانا، ورم حالبین، تحت السرۃ گلٹیوں کا نمودار ہوجانا،مرض دق کا پیدا ہوجانا، آنکھوں میں رمد حار یا قرحہ مزمنہ کا پیدا ہونا۔
ادویہ سمیہ کے استعمال کے نتیجہ میں یہ امراض میرے تجربے میں آئے ہیں۔حمی دق، جرب، ضعف باہ، جریان، سوازاک، نقرس، صداع، اختلاج قلب، مالیخولیا، جنون، فالج،رعشہ، استرخا، خدر کلف، حکہ، صداع تبخیر۔
درد سر یا شقیقہ کا مستقل رہنا نزول الماء کا مقدمہ ہے۔
چہرہ کا اکثر پھڑکنا لقوہ کی خبر دیتا ہے۔
شدید درد سر، آنکھوں کی سرخی ،چہرہ کی تمتماہٹ ،آنکھوں سے آنسو سرسام کی پیش خبری ہے۔
سر کی بے حسی فالج کا پیش خیمہ ہے۔
بلا سبب مغموم رہنا ،بدگمانی ،تنہا پسندی مالیخولیا کی نشاندہی کرتی ہے۔
نزلہ و زکام میں اکثر مبتلا رہنا دق و دمہ کا اندیشہ ہے۔(اطبا اور ان کی مسیحائی :164 )
برگ حنا سبز کو پیس کر اس کی ٹکیہ معدہ پر چپکانا آشوب چشم اور درد چشم کے لئے خاص طور پر مفید ہے۔
گل مچکن کا ضماد ہر قسم کے صداع میں بالخاصہ مفید ہے ۔
اسطوخودوس کو دماغ سے مواد جذب کرنے میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔
گل بنفشہ کشمیری کو نزلہ کے لئے ایک خاص خصوصیت حاصل ہے۔
عود صلیب کا استعمال مرض صرع میں داخلا و خارجا ہر طرح بالخاصۃ مفید ہے۔
اطریفل کشنیزی کا استعمال اکثر امراض چشم میں مفید ہے ۔
منڈی اور اسطوخودوس کا جوشاندہ عرق مکو میں شہد کے ساتھ ابتدائی موتیا بند میں بہت زیادہ مفید ہے۔
لعاب بہدانہ نزلہ حار اور بارد دونوں کے لئے یکساں مفید ہے ۔بچوں اور بوڑھوں میں اس کے 
استعمال سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
ابہل کو روغن زیتون میں جوش دے کر کان میں قطور کرنا بہرے پن کے لئے اکثر مفید پایا گیا ہے۔
برگ توت سبز کا غرغرہ یا شربت توت کا چاٹنا حلق کی تمام تکالیف کے لئے ایک خاص چیز ہے۔
ستاور اور زیرہ سیاہ کا سفوف بہ کثرت دودھ پیدا کرنے کے لئے ایک عجیب چیز ہے۔
ریشہ برگد کو نفث الدم کے لئے ایک خاص خصوصیت حاصل ہے۔
موم خام وجع الصدر کے لئے ایک خاص چیز ہے۔
صرف شہد خالص اور عرق مکو کا استعمال استرخاء اور فالج میں اکثر مفید پایا گیا ہے۔
کاسنی اور مکو کو جگر کے ساتھ ایک خاص خصوصیت حاصل ہے۔
برگ جھاؤ ورم طحال کے لئے بہت مفید چیز ہے۔
گردے کے ورم حار میں مغز فلوس خیار شنبر کا استعمال بہت زیادہ مفید ہے۔
گل گڑھل اور گولر کو سمیات کا اثر زائل کرنے میں ایک خصوصیت حاصل ہے۔
سریشم ماہی اور شادنج عدسی قرحہ ریہ کے لئے ایک خاص چیز ہے۔شیرہ گولر خام قرحہ ریہ ، سعال اور نفث الدم میں بہت زیادہ مفید ہے۔
گل ٹیسو کو امراض خصیہ کے ساتھ ایک خاص خصوصیت حاصل ہے۔
باؤ کھمبا بواسیر الرحم کے لئے ایک خاص چیز ہے۔
بابچی اور سرمہ اصفہانی کا ضماد بہق و برص میں بہت زیادہ مفید پایا گیا ہے۔
ماء الجبن کا استعمال شہد خالص کے ساتھ ترطیب کے لئے بہترین چیز ہے۔
افتیمون ولایتی ہمراہ ماء الجبن شیر بز وشربت عناب مالیخولیا مراقی کے لئے بہترین چیز ہے۔
عاقرقرحا کو شہد خالص میں خوب باریک پیس کر قضیب پر طلا کرنا طرفین کے لئے بہت زیادہ ملذذ ہے۔
نانخواہ ہر قسم کے درد کو تسکین دیتی ہے ۔درد ریحی کے ساتھ البتہ ایک خاص خصوصیت ہے۔
عطر موتیا حشفے پر لگا کر جماع کرنا بہت زیادہ ملذذ ہے اور عورت کو بہت جلد منزل کردیتا ہے۔
روغن بیضہ مرغ میں قضیب گھڑیال بہ خوبی حل کرکے قضیب پر تیس روز تک متواتر طلا کر عضو کو بہت زیادہ سخت اور ناقابل برداشت قوت باہ پیدا کرتا ہے۔
اسبغول مسلم کو جو خصوصیت آنتوں کے ساتھ حاصل ہے دوسری دواؤں کو نہیں ہے۔
شیرہ کنجد سیاہ سلسل البول کے لئے بہت زیادہ مفید ہے۔
باؤبڑنگ کو کدو دانوں کو اور کیچوؤں کو خارج کرنے میں ایک خاص اہمیت ہے۔
شیرہ مغز پنبہ دانہ ہمراہ شہد خالص وجع القطن کے واسطے بہترین چیز ہے۔
عاقر قرحا کا چبانا لکنت کے لئے بے حد مفید پایا گیا ہے۔
مغز فلوس خیار شنبر ہمراہ عرق عنب الثعلب میں فرزجہ بنا کر حمول کرنا ورم رحم حار میں بے حد مفید ہے۔
تخم قرطم انجیر کے ساتھ بہترین ملین ہے ۔عرق بادیان و شہد خالص کا استعمال اکثر امراض میں مفید ہے ۔اس سکے مسلسل استعمال سے قبض رفع ہو جاتا ہے۔
مرض اختناق الرحم میں دورے کے وقت نوشادر و چونا سفوف کرکے سنگھاناجلد ورہ مرض کو رفع کرتا ہے۔
عود غرقی اسہال کبدی کے لئے ایک خاص چیز ہے۔
دار فلفل دودھ میں جوش دے کر ہمراہ شہد استعمال کرنا ،یہ دم خالص بکثرت پیدا کرتا ہے۔
شیرہ مغز بادام،شیرہ فلفل سیاہ کا شربت تیار کرکے روز آنہ بوقت صبح استعمال کرنابہت زیادہ مقوی دماغ ہے۔
کشنیز خشک کو تبخیر کے رفع کرنے میں ایک خاص خصوصیت حاصل ہے۔
تازہ موسلی ،سینبھل کا سفوف ہمراہ نبات سفید تغلیظ منی کے لئے بہترین علاج ہے۔
زردی بیضہ مرغ ،شہد خالص ،روغن گاہ،عرق پیاز سفید مساوی الوزن سے حلوہ بنا کر روزآنہ استعمال کرنا ناقابل برداشت قوت باہ پیدا کرتا ہے۔
زلو دریائی(سمندری جونک) کا تیل بال اگانے کے لئے بالخاصہ مفید ہے۔کھٹمل ملنا بھی مفیدہے۔
اگر احتباس الطمث اور عسرۃ الطمث کی مریضہ گرم پانی سے دوران ایام غسل کرلیا کرے تو بغیر کسی دوا کے یہ شکایت رفتہ رفتہ رفع ہو جاتی ہے۔
سم الفار اور شنگرف ،اس قسم کی زہریلی چیزیں صفراوی مزاج حضرات میں نفث الدم اور ورحہ ریہ پیدا کردیتی ہیں۔
لک مغسول کا نہار منھ استعمال سمن مفرط کے لئے ایک خاص چیز ہے۔
مروارید ناشفتہ کو حمی تیفودیہ کے ساتھ تفریح قلب میں ایک خاص خصوصیت حاصل ہے۔
ترنجبین خراسانی کا استعمال ہمراہ عرق گاؤزباں یا شیر گاؤخالص احتلام روکنے کے لئے ایک عجیب چیز ہے۔
شیرہ انار خام ابتدا ذیابطیس میں نہایت مفید ہے۔
مبردات باردہ پیشاب کے رد عمل کو الکلائن کر دیتی ہے۔
زرشک،بہدانہ اور گردسماق اسہال صفراوی کے لئے بہت زیادہ مناسب ہے۔
گیاہ چینی ہمراہ شیر بز سل کے مریض کے لئے ایک بہترین غذا ہے ۔یہ پھیپھڑے کے لئے مقوی اور دافع سعال ہے۔
زردی بیضہ مرغ ہمراہ لعوق سپستاں سرشتہ ضیق النفس میں بوڑھوں کے لئے خصوصیت کے ساتھ بہت زیادہ مفید ہے۔
بورہ ارمنی اور تیرہ تیزک کا جوشاندہ شہد کے ساتھ ضیق النفس کے لئے بہترین چیز ہے۔
پوٹاشیم پر میگنیٹ اور ست لیمو بچھو کا زہر فوراً جذب کر لیتا ہے۔یہ اس کے لئے ایک نایاب چیز ہے۔
مکھن کا زیادہ استعمال معدہ میں ارخا پیدا کرتا ہے۔
سرکہ خالص ،روغن گل اور عورت کا دودھ باہم ملا کر پاؤں پر رکھنا فورا ً نیند لاتا ہے۔
دہی حار المزاج حضرات کے لئے نعمت عظمیٰ ہے۔
جوہر منقی ٰ تیسرے درجہ کے آتشک کے لئے عجیب چیز ہے۔
آب برگ ککروندہ سبز استسقاء کے واسطے بہت مفید ہے۔
آب بارتنگ سبز اسہال کے واسطے اکسیر ہے۔
برگ دودھی خورد اسہال کے واسطے نافع ہے۔
دار فلفل ،زنجبیل شہد کے ساتھ مقوی حافظہ ہے۔
آب برگ پودینہ میں کپڑا تر کرکے مجامعت سے پندرہ منٹ پہلے فرج میں رکھنا مانع حمل ہے۔
دارچینی،نانخواہ،تخم کرفس کا سفوف شہد کے ساتھ معجون بنا کر کھانا مقوی باہ ہے۔
آب ٹماٹر سات تولہ ،روغن ماہی ایک تولہ دق الامعا کی بہترین دوا ہے۔
مرزنجوش کا استعمال قطورا اور خارجا طنین الاذن کی بہترین دوا ہے۔
مغز پستہ ضعف گردہ کے لئے نفع بخش ہے۔
مغض پنبہ دانہ درد کمر کے لئے بہترین ہے۔