Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, January 20, 2019

سوریہ نگری کا سفر۔دل سے دل تک۔


*ارقم (المعلم بمدینۃ العلوم گاگریا)کے قلم سے*/ صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
رات کے آخری پہرکال ٹون سے میں ہڑ بڑاکر اٹھ بیٹھا، کال سنی عزیزم یوسف کہنے لگے وقت بس ہوا چاہتا ہے،  جلد تیار ہوجائیں۔ بیگ اٹھایا، ضروری سامان پیک کیا اور چل پڑا، بحمداللہ وقت پر بس بھی مل گئی۔

سیٹ بیٹھتے ہیں طنز ومزاح کے سرکل جاپہنچا، ادب ومزاح، طنز تضحیک سے بھری تحریرات میں مگن ہی تھا۔ ارے! یہ کیا? سوز و ساز، اثر و کشش بھری ذکر اللہ کی آواز کہاں سے آرہی? مڑکر جو دیکھا تو حضرت الاستاذ نائب صدر جمعیت علماء ہند حفظہ اللہ ذکر اللہ میں بے خود ہیں۔ تب یاد آیا کہ آپ سفر وحضر مرض وعافیت یعنی کسی بھی حال میں معمولات کو ناغہ نہیں فرماتے۔ تب ضمیر کچوکے لگانے لگا اور کہنے لگا ہٹے کٹے اور فارغ ہونے کے باوجود یہ تساہل? صحبت صالح نے خوابیدہ ایمانی حرارت کو بیدار کیا میں اپنے معمولات میں جٹ گیا۔ کیاہی سچ کہا کسی نے صحبت صالح ترا صالح کند

ٹھنڈی اور یخ بستہ ہوائیں زوروں پر تھی، ہر طرف بس اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔گرم کپڑوں اور بند بس کی نوازش سے ہم فرحاں وشاداں تھے اور فطرت سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ اب روشنی بھی بڑھنے اور پھیلنے لگی ہے۔ دیوہیکل پہاڑوں کی چوٹیاں ودامن صاف دکھنے لگے ہیں۔ سورج نے بھی تانکا جھانکی شروع کردی ہے، کبھی اس چوٹی کے پیچھے سے کبھی اس پہاڑ کی اوٹ سے۔ آفتاب کی سنہریں کرنیں ریت کے رنگین ٹیلوں پر قیامت ڈھارہی، بھاگتے دوڑتے اکے دکے درخت، پیچھے رہتا پہاڑی سلسلہ دور دور تک پھیلا نشیب وفراز لیے ریتیلا ریگستان۔ اس پر بکھرے پودے وپتھر اور زبان پر ذکر یار۔ یا خدا یہ لمحے زندگی میں باربار آئیں۔
یار رہے یارب تو میرا میں تیرا یار رہوں۔
مجھ کو ہو فقط تجھ سے محبت خلق سے میں بیزار رہوں۔

بس باڑمیر سے نکل چکی تھی، سورج بھی چلمن پھینک کر، شرماہٹ چھوڑ کر مسکان بکھیررہا تھا۔ بیابان میں سانپ کی طرح لہراتی، زلف یار کی طرح خم دار، صاف ستھری، چوڑی چکلی موٹر وے اور اس پر دوڑتی، بھاگتی، ڈنگ مارتی اور ہچکولے کھاتی نئی نویلی بس۔ میں نے پردہ ہٹاکر باہر جھانکا، دیکھا کہ اب اوبڑ کھابڑ ٹیلوں کے بجائے قدرے ہموار علاقہ شروع ہوچکا تھا، جس میں رنگ برنگیں نیل گائے بھاگ رہی تھی، مور چنگا چنگ رہے تھے، گاہے بگاہے کبوتروں کی ٹکڑیاں فضا میں منڈلا رہی تھی۔ درختوں کے جھنڈ میں فروکش ہرن ہمیں گھور رہے تھے، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ بکھرے پڑے تھے، گاہے بگاہے بلبل، مینا اور تیتر بھی اپنے وجود کا ثبوت دے رہے تھے۔

ٹھیک گیارہ بجے جامع العلوم سوتلہ جودھپور پہنچے، جمعیت کی میٹنگ جاری تھی، بابائے قوم قاری امین صاحب، قائد تھار حضرت مہتمم صاحب، مولانا عبدالواحد کھتری، مولانا ارشد صاحب گومٹوی، مولانا عمرصاحب، مولانا اکبر صاحب امینی، مولانا ایوب صاحب وغیرہم جلوہ افروز تھے، یہ لائحہ عمل بنانے میں مصروف تھے کہ جمعیت کو کس طرح فعال کیا جائے? مولانا مدنی حفظہ اللہ کو راجستھان کے دورے کی دعوت دی جائے، اس کی کیاترتیب ہو?  وہ خدام جمعیت جو دار بقاکو سدھار گئے کس طرح ان کے روشن تابناک نقوش کو مقالات میں ڈھال کر عوام کے سامنے پیش کیے جائیں?

ظہرانہ کے بعد فلاح دارین نئی سڑک میں مجلس تھی، جس میں عبدالواحد کھتری صاحب نے تقریر کی، خطاب کیا تھا! سیاسی بصیرت کا جیتا جاگتا ثبوت۔ کانگریس کی پالیسیوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افسوس اس بات پر ہے کہ مسلمانوں میں کانگریس کے ووٹ زیادہ اور مسلمانوں کے کم ہیں، اس بات پر زور دیا کہ جہاں ہمیں نظر انداز کیاجائے وہاں اپنے وجود کا ثبوت دو چاہے کسی کو ہراکر ہی کیوں نہ دینا پڑے۔

بعد نماز مغرب سوتلہ لوٹا میری خوش قسمتی کہ پہلے حضرت الاستاذ مولانا حبیب اللہ حفظہ اللہ کی رفاقت،۔پھر نئی سڑک تک کی آمد و رفت میں قاری صاحب مولانا ارشد،  مفتی فضل اور مولانا امین صاحب ساتھ رہے، پھر بحمداللہ واپسی پر ماموں عبدالحکیم القاسمی شریک سفر رہے۔ والحمدللہ علی ذلک۔ جامع العوم میں مولانا عمران ولی القاسمی اور مولانا نورمحمد ہمیرانی سے طویل گفتگوں کا سلسلہ چلتارہا۔ شیخ ندوی جی اور دادو سے ملاقات کی حسرت دل میں لیے صبح واپس چل پڑا۔ یارخاص امام الدین تاملیاری کے یہاں ظہرانہ سے فارغ ہوکر ۳ بجے مدرسہ پہنچ گیا۔