Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, January 22, 2019

۔۔۔۔بتان رنگ و خوں کو چھوڑ!!!!!!!

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئیے۔
نیل کے ساحل سے لیکر تا بہ خاک کاشغر۔

از/عبد المالک بلند شہری۔/ صدائے وقت/
مولانا اکرم خان قاسمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . 
. . . . .  دین اسلام ایک ایسا ابدی و آفاقی مذہب  ہے جو اپنے متبعین کو ایک خوبصورت ہار میں پرو کر انہیں ایک دوسرے سے ایسے وابستہ کردیتا کہ اس انسلاک کے بغیر ان کی زندگی بد مزہ اور پھیکی ہوکر رہ جاتی ہے ۔ اس ہار میں ہر موتی کی جداگانہ اہمیت اور الگ قیمت ہوتی ہے ۔۔  یہ بات خیال رکھنے کی ہے کہ اسلام نے  عالمی مسلمانوں کو جو رشتہ دیا ہے وہ تمام جسمانی و مادی تعلقات سے اعلی و ارفع ہے ۔۔ایک طرف المسلم اخو المسلم کے ذریعہ عرب و عجم کے مابین روحانی لا زوال رشتہ قائم کردیا  وہیں دوسری طرف لایخونہ و لایظلمہ کے ذریعہ جانبین کے لئے ایک دسرے کی عزت و احترام کو لازم قرار دیا ۔۔چایے  کوئی دنیا کے کسی بھی خطہ سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ صاحب ایمان ہے اور توحید و رسالت کا مقر ہے تو وہ تمام مسلمانوں کے لئے قریبی عزیز کی طرح ہے بلکہ ان کا دینی بھائی ہے ۔۔۔ہر کسی کو چاہئے کہ وہ اس رشتہ کو مستحکم اور مضبوط کرنے کے لئے مخلصانہ تگ و دو اور محتسبانہ جدوجہد کرے ۔۔دور حاضر میں علاقائیت، وطنیت اور برادریت کے بتوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوکر وحدت کی مثال پیش کرنا  تمام مسلمانوں کا دینی و ایمانی فریضہ ہے ۔۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ جہاں آج اسلام کی دیگر تعلیمات کو فراموش کردیا گیا ہے اور  اس کے پیغام حق کو بھلا دیا گیا ہے وہیں اس اسلامی رشتہ کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔۔ہندو تہذیب و دیومالائی معاشرت کا مسلمانوں  پر اتنا گہرا اثر پڑا ہے کہ ان کے ذہنوں سے مذکورہ حقیقت محو ہو کر رہ گئی ہے ۔۔ عصبیت ، گروہ پسندی و اقرباء پروری کے عفریتوں نے قوم کے بہترین دماغوں کو گوشہ خمول میں پھینک دیا ہے ۔۔اقرباء پروری اور مفاد پرستی نے نا اہلوں، تملق پسندوں ، چالبازوں  اور مکاروں کے ہاتھوں میں زمام قیادت تھما دی ہے اور ان کو قومی و ملی  اعلی مناصب پر فائز کردیا ہے جس کی وجہ سے امت مسلمہ بجائے ترقی و رفعت حاصل کرنے کے مسلسل روبہ زوال اور برابر انحطاط کی کھائی میں گرتی جارہی ہے ۔۔  آپسی چپقلش و  انتشار، باہمی رسہ کشی ، اندرونی تنازعات ، داخلی اختلافات نے امت محمدیہ کو ابھرنے ، پھلنے پھولنے اور ترقی و رفعت کے بام عروج پر پہونچنے سے روک رکھا ہے ۔۔آج کے اس پر آشوب و نا مساعد ماحول میں ہمیں ایک مرتبہ پھر اسی رشتہ کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ صالح جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا  چاہئے کہ سارے مسلمان خواہ وہ کسی بھی قریہ ، برادری ، ادارہ ، تنظیم اور مسلک  سے تعلق رکھتے ہوں ہمارے  رشتہ دار ، قریبی اور بھائی ہیں ۔۔دارالعلوم دیوبند بھی ہمارا ہے اور مظاہر علوم بھی اپنا، جماعت اسلامی ہند بھی اپنی ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی ، جامعة الفلاح بلریا گنج بھی اپنا ہے اور ندوة العلماء بھی اپنا ۔۔اترپردیش کے مسلمان بھی ہمارے عزیز ہیں اور بہار کے مومنین سے بھی ہمارا تعلق ہے ۔۔۔یقینا علمی و فکری اختلافات اپنی جگہ۔۔ اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ۔ہم اختلافات کو وجہ اننشار کے بجائے باعث رحمت سمجھتے ہیں ۔نہ ہم دیگر مسلک کو چھیڑیں گے اور نہ اپنے مسلک کو چھوڑیں گے ۔ہم اختلافی باتوں کو درسگاہوں اور دانش کدوں تک محدود رکھیں گے اور بر سر منبر محض محبت ،رافت اور اتحاد کا نعرہ بلند کریں گے ۔۔عوامی اجتماعات میں حتی الامکان اختلافی موضوعات کو زیر بحث لانے سے بچیں گے اور ایک دوسرے کو تقویت دینے کی طرف متوجہ کریں گے۔  آج کے دگرگوں حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اپنا اخلاقی و ایمانی فریضہ سمجھتے ہوئے تمام مسالک والوں سے زبانی بھی اتحاد کی درخواست کریں گے اور حسن سلوک ، بلند اخلاقی ، محبت وشفقت اور کردار کے ذریعہ بھی انہیں اپنائیت اور اخوت کا احساس دلائیں گے ۔۔ہم  بلا تفریق لون و نسل،بلا امتیاز طبقہ و گروہ سب کو قریب کرنے کی کوشش کریں گے اور بحیثیت مسلمان دوسرے مسلمانوں کے ساتھ نرمی ، رافت و رحمت اور محبت کا معاملہ کرکے باطل کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ مسلمان متعدد نظریاتی اور علمی اختلافات کے باوجود اتحاد کی مضبوط طاقت رکھتے ہیں اور ہزاروں آپسی اختلافات کے باوصف  ان کی جمعیت کو کوئی منتشر و  اتحاد کو  پارہ پارہ نہیں کرسکتا۔۔ یقینا آج ملکی سطح پر  جس طرح ہندوستان کی سیکولرزم اور جمہوریت کو ختم کرنے کی ناپاک سازش ہورہی ہے، ملک عزیز  کو ہندوراشٹر بنانے کی مجرمانہ کوشش ہورہی ہے ،حق کی آواز کو دبانے اور انصاف پسند حلقہ پر زمین تنگ کرنے کی ظالمانہ کوشش ہورہی ہے اور عالمی منظرنامہ پر مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے، نیست و نامود کرکے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا کر قصہ پارینہ بنانے کی ابلیسی سازش ہورہی ہے ان  نامساعد حالات اور ناسازگار فضا   میں ہمیں اس پہلو کی طرف خوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ، اتحاد و یکجہتی اور باہمی تعاون سے ہی مسلمان اپنی عظمت رفتہ بحال کرسکتے ہیں اور عالمی سطح پر انہی اسلحہ کے ذریعہ   ہر اعتبار سے (سیاسی، سماجی، مادی ، علمی اور رفاہی) کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے وگرنہ ٹوٹے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے ہے ۔

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے