Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, February 13, 2019

معروف شاعر " فیض احمد فیض" کے یوم ولادت 13فروری کے موقع پر خصوصی پیشکش۔

از/محمد عباس دھالیوال مالیر کوٹلہ پنجاب
صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
 .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  
اردوادب میں جب ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعراء کا تذکرہ ہوتا ہے تو فیض احمد فیضؔ کا نام سرِ فہرست ابھر کرسامنے آتا ہے۔فیض کی پیدائیش ہندوستان کی تقسیم سے قبل سیالکوٹ موجودہ پاکستان میں 13 فروری 1911ء کو ایک معزز گھرانہ میںہوئی ،آپ کے والدچودھری سلطان محمد خان اپنے وقت کے ایک نامی بیرسٹر تھے۔فیض نے ابتدائی مذہبی تعلیم مولوی محمدابراہیم میر سیالکوٹی سے حاصل کی۔اسکے بعد 1921ء میں آپ نے اسکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں ایڈمیشن لیا اور 1927ء میں میٹرک کا امتحان پہلے درجہ کے ساتھ پاس کیا ،ساتھ ہی آپ نے عربی اور فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی اور ایف ۔اے کا امتحان بھی وہیں سے پاس کیا ۔یہاں قابل ذکر ہے کہ شمس الحق جنھوں نے کبھی علامہ اقبال کو پڑھایا تھا ،اسی قابل استاد کی ذات سے فیض احمد فیض بھی مستفیض ہوئے .۔بی ۔اے اور ایم ۔اے انگلش کا امتحان اس وقت کے نامی ادارہ گورمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا ۔اسکے بعد فیض نے اورینٹل کالج لاہور سے 1932ء میںفارسی میں ایم ۔اے کی۔اسی بیچ آپ کی ملاقا ت ڈاکٹردین محمد تاثیر کی لندن نزاد بہن ایلسا سے ہوئی ،ایلساجو کہ کیمونسٹ پارٹی ایک فعال رکن تھیں ۔اسکے بعد آگے چل کر ایلسا سے ہی 1941میںآپ کی شادی ہوئی اور دو بیٹیاں سلیمہ اورمنیزہ پیدا ہوئیں۔
فیض کی 1942ء میں بطور کیپٹن فوج میں تقرری ہوئی اور اس فیلڈ میں بھی آپ نے اپنی قابل قدر خدمات دیتے ہوئے لیفیٹینٹ کے عہدے تک ترقی پائی ۔چنانچہ 1947ء میں آپ فوج سے مستعفی ہو کر واپس لاہو ر تشر یف لے آئے ۔فیض نے ایک مدت تک جلاوطنی کی زندگی بھی گزاری، 9 مارچ 1951 ء کو آپ کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں حکومتِ پاکستان نے گرفتار کر لیا۔اِس دوران فیض نے اپنی زندگی کے چار سال سرگودھا ،ساہیوال،حیدرآباد اور کراچی کی جیل میں کاٹے۔’’ زنداں نامہ‘‘ کی بیشتر نظمیں فیض کی جیل کے دنوں کی ہی سر گزشت بیان کرتی ہیں اسکے بعد آخر کار انھیں 12اپریل 1955 ء کو جیل سے رہا کر دیا گیا ۔
1959ء سے 1962تک فیض نے پاکستان آرٹس کونسل میں بطور سیکریٹری اپنی خدمات دیں ۔پھر لندن چلے گئے اور واپسی پر 1964میںعبداللہ ہارون کالج کراچی میںبطور پرنسپل اپنی خدمات بحسنِ خوبی انجام دیں۔
ادبی حلقوں میں فیض کے تعلق سے یہ بات مشہور ہے کہ وہ آزادی کے شاعر تھے۔انھیں مزاحمت کا شاعر گردانا جاتا ہے۔فیض نے جہاں ویت نام میں امریکہ کے خلاف مزاحمت کی حمایت کی وہیں انھوں نے فلسطین کی تحریک ِ مزاحمت کی بھی بھرپور حمایت کی اور اسکے لیے گیت بھی لکھے،اسکی شاید بڑی وجہ یہ تھی کہ فلسطین کی تحریکِ آزادی کے قائد یاسر عرافات بھی ایک سوشلسٹ تھے اور انکی شہرت ایک روس نواز رہنما کی تھی۔بے شک فیض نے مظلوم کے حق میں اور ظالم کے خلاف اپنے قلم کا خوب استعمال کیا ۔لیکن اکثر ناقدین کی طرف سے فیض کے اس پہلو کولیکر نشانہ بھی بنایا جاتا رہاہے کہ جب سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی تو فیض کی زبان و قلم خاموش رہے یعنی افغانستان کی جدو جہد آزادی کے لیے انھوں نے نہ کوئی نظم لکھی ،نہ مضمون تحریر کیا،نہ ہی کوئی بیان جاری کیا۔
اس سے پہلے کہ ہم فیض کی شاعری کو مطالعہ میں لائیں۔ خود فیض شاعرو شاعری کی تعریف کرتے ہوئے کیا کہتے ہیں اس خیال کو دیکھتے ہیں کہ’’ شاعر کا کام محض مشاہدہ ہی نہیں،مجاہدہ بھی اس پر فرض ہے،گردو پیش کے مضطرب قطروں میںزندگی کے دجلہ کا مشاہدہ،اسکی بینائی پر ہے،اسے دوسروں کو دکھانا اس کی فنی دسترس پر،اس کے بہائو میں دخل انداز ہونا اس کے شوق کی صلاحیت اور لہوکی حرارت پر۔اور یہ تینوں کام مسلسل کاوش و جدو جہد چاہتے ہیں‘‘
آئیے اب ہم فیض کے کلام کو دیکھتے ہیںجس کلام کی بدولت وہ اپنے ہم عصر شعراء کے بیچ موجود ہوتے ہوئے بھی اپنے فن میں ا
ن سے بالکل منفرد و جدا نظر آتے ہیں۔
خزاں وبہار کو کس خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آتے آتے یوں ہی دم بھر کو رکی ہوگی بہار
جاتے جاتے یوں ہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
ایک اور جگہ فیض کا دلکش ومنفرد رنگ دیکھیں کہ
کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
اگر شرر ہے تو بھڑکے،جو پھول ہے تو کھلے
طرح طرح کی طلب ، تیرے رنگ ِ لب سے ہے
کہاں گئے شب فرقت کے جاگنے والے
ستارہء سحری ہم کلام کب سے ہے
ایک جگہ کچھ اس انداز میں اپنے محبوب سے ہم کلام ہیں کہ
شرح ِ فراق،مدحِ لبِ مشکبو کریں
غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں
یار آشنا نہیں کوئی ٹکرائیں کس سے جام
کس دلربا کے نام پہ خالی سبو کریں
سینے پہ ہاتھ ہے ، نہ نظر کو تلاشِ جام
دل ساتھ دے تو آج غمِ آرزو کریں
کب تک سنے گی رات،کہاں تک سنائیں ہم
شکوے گلے سب آج ترے روبرو کریں
’’تر دامنی پہ شیخ ،ہماری ن