Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, February 8, 2019

مشاعرے کے کامیاب معروف شاعر وسیم بریلوی کے یوم پیدائش 8 فروری کے موقع پر۔‎



فیچر/ صدائ وقت۔
 .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  
*مشاعرے کے کامیاب شاعر، منفرد لب و لہجہ کے لیے مشہور اور معروف شاعر” وسیمؔ بریلوی “...*

نام *زاہد حسن* اور تخلص *وسیمؔ* ہے۔ *۸؍فروری ۱۹۴۰ء کو بریلی ( یو پی ) * میں پیدا ہوئے۔ آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا۔ابتدائی درجات سے ایم اے تک انھوں نے امتیازی پوزیشن حاصل کی۔دہلی یونیورسٹی سے ملازمت کا سلسلہ شروع ہواپھربریلی کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوگئے۔انھوں نے روہیل کھنڈ یونیورسٹی میں ڈین آف فیکلٹی آرٹس ہونے کا بھی اعزاز حاصل کیا۔ پروفیسر *وسیم بریلوی* کے فن اور شخصیت پر *ڈاکٹر جاوید نسیمی* نے تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ *وسیمؔ بریلوی* کی ادبی زندگی کا آغاز۱۹۵۹ء سے ہوا۔ جب انھوں نے باقاعدہ شاعری شروع کی تو سب سے پہلے اپنے والد صاحب کو غزلیں دکھائیں۔ بعد میں *منتقم حیدری * سے باقاعدہ اصلاح لی۔ ان کا ترنم بہت اچھا ہے اور یہ مشاعرے کے کامیاب شاعر ہیں۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
*’’تبسّمِ غم‘‘، ’’آنسو میرے دامن میں‘‘* (شعری مجموعہ۔، *’’مزاج‘‘، ’’آنسو آنکھ ہوئی‘‘، ’’پھرکیا ہوا‘‘* (مجموعہ کلام)۔ *’’مزاج‘‘* پر اردو اکیڈمی لکھنؤ کا اعلیٰ تحقیقی ایوارڈ ملا۔ میراکادمی کی جانب سے *’’امتیازِ میر‘‘* ملا۔ ان کے علاوہ انھیں اورکئی ایوارڈ اور اعزازات عطا کیے گئے۔

 *بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ 346۔
 .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .    *مشہور شاعر وسیمؔ بریلوی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت...*  
 .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  
آج پی لینے دے ساقی مجھے جی لینے دے 
کل مری رات خدا جانے کہاں گزرے گی
---
آسماں اتنی بلندی پے جو اتراتا ہے 
بھول جاتا ہے زمیں سے ہی نظر آتا ہے
---
*اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے* 
*تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے*
---
اسی خیال سے پلکوں پہ رک گئے آنسو 
تری نگاہ کو شاید ثبوتِ غم نہ ملے
---
*ان سے کہہ دو مجھے خاموش ہی رہنے دے وسیمؔ* 
*لب پہ آئے گی تو ہر بات گراں گزرے گی*
---
بھرے مکاں کا بھی اپنا نشہ ہے کیا جانے 
شراب خانے میں راتیں گزارنے والا
---
*پھول تو پھول ہیں آنکھوں سے گھرے رہتے ہیں* 
*کانٹے بیکار حفاظت میں لگے رہتے ہیں*
---
تجھے پانے کی کوشش میں کچھ اتنا کھو چکا ہوں میں 
کہ تو مل بھی اگر جائے تو اب ملنے کا غم ہوگا
---
*تحریر سے ورنہ مری کیا ہو نہیں سکتا* 
*اک تو ہے جو لفظوں میں ادا ہو نہیں سکتا*
---
تم میری طرف دیکھنا چھوڑو تو بتاؤں 
ہر شخص تمہاری ہی طرف دیکھ رہا ہے
---
جسم کی چاہ لکیروں سے ادا کرتا ہے 
خاک سمجھے گا مصور تری انگڑائی کو
---
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا 
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
---
دکھ اپنا اگر ہم کو بتانا نہیں آتا 
تم کو بھی تو اندازہ لگانا نہیں آتا
---
شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں 
اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
---
*شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ* 
*کیجے مجھے قبول مری ہر کمی کے ساتھ*
---
*لہو نہ ہو تو قلم ترجماں نہیں ہوتا* 
*ہمارے دور میں آنسو زباں نہیں ہوتا*
---
محبت میں بچھڑنے کا ہنر سب کو نہیں آتا 
کسی کو چھوڑنا ہو تو ملاقاتیں بڑی کرنا
---
ہم یہ تو نہیں کہتے کہ ہم تجھ سے بڑے ہیں 
لیکن یہ بہت ہے کہ ترے ساتھ کھڑے ہیں
---

*اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا*
*اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا*
---
میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا 
اب اس کے بعد مرا امتحان کیا لے گا
---
*کیا دکھ ہے سمندر کو بتا بھی نہیں سکتا* 
*آنسو کی طرح آنکھ تک آ بھی نہیں سکتا*
---
اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے 
تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے
---
*وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے*
*میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا*
---
ذرا سا قطرہ کہیں آج اگر ابھرتا ہے 
سمندروں ہی کے لہجے میں بات کرتا ہے
---
*ہم تو بے نام ارادوں کے مسافر ہیں وسیمؔ* 
*کچھ پتہ ہو تو بتائیں کہ کدھر جاتے ہیں*۔