Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 10, 2019

بابا رام دیو مایوس نہ ہوں !


از / شکیل رشید / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . . 
بابارام دیو کا ایک بیان آیا ہے ، گھٹیا اور گھناونا بیان!

بابارام دیو کو یوگا گرو کہا جاتا ہے ، وہ آیورویدک دوائیاں بھی بیچتے ہیں اور سیاست میں بھی ان کا عمل دخل ہے۔کبھی وہ ایک معمولی سے یوگا گروتھے لیکن آج وہ اربوں میں کھیلتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ یوروپ میں انہوں نے ایک پورا جزیرہ خریدرکھا ہے ! بڑی آمدنی ہے ۔ یہ سوال پہلے بھی اٹھا ہے اور آئندہ بھی اٹھتا رہے گا کہ بھلا بابارام دیو اتنی ساری دولت کے مالک بنے تو کیسے بنے ؟ ان پر انگرزی میں ایک خاتون صحافی پرینکا پاٹھک نارائی کی ایک تہلکہ خیز کتاب ’جگرنٹ پبلشرز‘ نے شائع کی تھی’ گاڈمین ٹوٹائکون‘ ۔ یعنی  ایک  بابا سے ایک بہت  بڑے دھنّا سیٹھ تک ۔ اس کتاب میں عجیب وغریب انکشافات تھے ۔ بابارام دیو نے کوشش کرکے اس کتاب کی اشاعت پر اسٹے حاصل کیا ، پھر اسٹے ہٹامگر معاملہ ابھی قانونی پیچیدگیوں میں الجھا ہوا ہے اس لئے یہ کتاب ہر جگہ نہیں پہنچ سکی ہے ۔  یہ بابارام دیو ہی ہیں جنہوں نے مرکز کی مودی سرکار کو کچھ اس طرح سے ’ رام‘ کیا کہ وہ ’ یوگادوس‘ منانے پر راضی ہوگئے ۔۔۔ واضح  رہے کہ ’یوگادوس‘ متنازعہ ہے کیونکہ یوگا کے دوران خاص منتروں کے جاپ پر اور سوریہ نمسکار پر زور دیا جاتا ہے ، مسلمان چونکہ ایک اللہ کی ذات پر ایمان رکھتے ہیں اس لئے یوگا کے دوران منتروں کا جاپ اور سوریہ نمسکار انہیں منظور نہیں ہے ۔۔۔بابارام دیو یوں تو کئی وجوہ سے خبروں میں رہے  ہیں، ایک وجہ تو بڑی دلچسپ ہے ، انہوں نے دہلی کے ’ رام لیلا میدان‘ میں کرپشن کے خلاف دھرنا دیا تھا اور جب پولس نے چھاپہ مارا تو وہ کسی خاتون کی شلوار پہن کر وہاں سے سرپر پیر رکھ کر  بھاگے تھے ۔ اب وہ پھر خبروں میں ہیں ۔ اس بار اپنے ایک گھٹیا اور گھناونے بیان کے لئے ۔ انہیں گجرات کے شہر ناڈیاڈ ایک تقریب میں بلایا گیا تھا جہاں انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایودھیا میں رام مندر کے قیام کی پرزور حمایت کی ۔  بات کرتے ہوئے انہوں نے ایک بات مزید کہی کہ ’ بھگوان رام صرف ہندوؤں کے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے بھی آباواجداد ہیں ۔ ‘ وہ  پہلے بھی اس طری کی باتیں کرچکے ہیں اور مسلمان ان کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا چکے ہیں ۔ اور یہی  بہتر طریقہ ہے  کہ  بابارام دیو کو نظرانداز کردیا جائے ، ان کی بات کا کوئی جواب نہ دیا جائے ۔ لیکن بعض اوقات جواب دینا ضروری ہوجاتا ہے ۔ بالخصوص جب کوئی ایسی بات کہی جائے جو جذبات کو ٹھیس پہنچائے ، جذبات ضروری نہیں کہ مذہبی ہی ہوں ۔ بابارام دیو نے مزید ایک بات کہی کہ ’’رام مندر ایودھیا میں نہیں بنے گا تو کوئی  مکہ،مدینہ اور ویٹکن سٹی میں بنانے والا تو نہیں ہے ۔ ‘‘ اول اعتراض تویہ ہے کہ بھگوان رام کو ہر ہندوستانی کیوں اپنے آباواجداد میں سے مانے!  یہ تو خالص اعتقادی معاملہ ہے ، بابارام دیو انہیں بھگوان سمجھتے ہونگے ، مسلمان انہیں بھگوان نہیں سمجھ سکتے کیونکہ یہ اللہ کی وحدانیت میں کسی کو شریک کرنا ہوگا ۔۔۔ اور یہ ممکن نہیں ہے ۔ رہی بات مکہ اور مدینہ میں رام مندر بنانے کی تو یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کی سعودی حکومت اجازت نہیں دے گی ، نہ ہی ویٹکن سٹی کے ذمے داران اس کی اجازت دیں گے ۔ مکہ اور مدینہ شہر خالص مسلمانوں کے لئے ہیں ۔ اور ویٹکن سٹی خالص عیسائیوں کے لئے ۔۔۔ اور رہا ایودھیا کا معاملہ تو وہ عدالت میں ہے ۔ لیکن بابارام دیو کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ! ان کے پاس آشرموں کے لئے بڑی بڑی زمینیں پڑی ہیں کیوں نہیں وہ اپنے آشرم کی کوئی  زمین رام مندر کی تعمیر کے لئے دے دیتے ! ایک بڑا مسئلہ حل بھی ہوجائے گا اور بابارام دیو سب سے بڑے ’رام بھگت‘ بھی بن جائیں گے