Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 14, 2019

ایس آئی ایم، ذاکر نائک، پاپولر فرنٹ آف انڈیا، اگلا نشانہ کون؟؟؟؟؟

تحریر/ محمد اسامہ فلاحی۔/ صدائے وقت۔
     . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .    
تقسیم ہند کے بعد بھارت کو بھلے ہی قانونی طور پر سیکولر قرار دیا گیا لیکن عملی طور پر بھارت کے کرتا دھرتا برہمن ہی رہے،چنانچہ اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور دیگر اقلیتوں کو ہمیشہ تباہ و برباد کرنے کی کوشش رہی ہے،جس میں سب سے زیادہ مسلمانوں کو تباہ کرنے کی کوشش ہوئی۔انکے تجارتی مراکز کو فسادات کے ذریعے ختم کیا گیا،منظم طریقے سے تعلیم اور دیگر شعبوں سے کلی طور پر خاتمے کی کوشش ہوئی۔
حکومتی جبر و استحصال اور ہندوتوا کے ناپاک عزائم کے مقابلہ کرنے اور مسلمانوں کو مایوسی سے نکال کر تعمیر کے راستے پر لانے کے لیے مختلف جماعتوں نے انتھک محنت کی جس کے اثرات ملکی پیمانے پر ہوئے ہیں،چنانچہ مسلمانوں کو اٹھانے اور حوصلہ دینے والی تقریبا ہر جماعت بھارتی حکومت کے عتاب کا شکار ہوتی رہی ہے،چونکہ دشمن انتہائی مکار اور ہوشیار ہے،اور اسے ہمارے اندرونی اختلافات کا بھی علم ہے جس کا فائدہ اٹھا کر ملت کے جسم سے اس کا بہترین حصے کا شکار کرلیتا ہے۔
تقسیم کے بعد سب سے پہلے بھارتی سیکولرزم کا شکار جماعت اسلامی ہوئی،جس کو پنڈت نہرو نے ایک عسکری جماعت قرار دے دیا تھا،بعد میں یہ الزام ختم تو ہو گیا لیکن ایمرجنسی اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد پابندیاں لگائی گئیں،کچھ سالوں پہلے ریاست کیرلہ میں انکے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔
بھارت میں اسلامی تنظیموں پر ظلم و جبر کی سب سے بڑی مثال ایس آئی ایم ہے۔اعلی تعلیم یافتہ بھارتی مسلم نوجوانوں کا سب سے بڑا اور منظم گروپ تھا،حکومتی جبر و استحصال کے خلاف جدو جہد اور مسلم نوجوانوں کو مایوسی سے نکال کر اس کو تعمیری رخ دینا اس کی پہچان تھی۔2001میں نام نہاد سیکولر حکومت کے ذریعے اس پر پابندی عائد کردی گئی،اس کے کارکنوں کو جیل کی کال کوٹھریوں میں ڈال دیا گیا، اس تنظیم نے انصاف کے لئے عدالت کا رخ کیا جہاں اسکو 2008میں دہلی ہائی کورٹ نے تمام الزامات سے بری قرار دے دیا،لیکن سیکولر حکومت خاموش کیسے رہ سکتی تھی،اس شکست کو اپنے طاقت کا استعمال کرکے سپریم کورٹ سے اسٹے لے لیا اور 24گھنٹے کے اندر دوبارہ پابندی عائد کردی گئی جس کے بعد پچھلے دس سالوں میں کورٹ کے پاس سماعت کے لیے وقت نہیں ہے،اور بھارتی حکومت کے ذریعے 31جنوری2019میں مزید پانچ سال کی پابندی لگا کر اپنی مشرکانہ ذہنیت کو واضح کردیا۔
      
بھارتی حکومت کے ظلم و استحصال کی دوسری بڑی مثال عالمی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور انکا ادارہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن ہے۔بھارتی دستور کے مطابق مذہب کی تبلیغ کا ہر ایک کو حق ہے۔اس حق کا استعمال نہایت ہی پرامن طریقے سے کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے اسلام کی حقانیت کا لوہا ہر مناظرے میں منوایا اور ڈبل شری جیسے کئی لوگوں کو شکست کھانی پڑی،بھارتی سیکولرزم کے پردے میں چھپا زعفرانی بریگیڈیئر اس کو کیسے برداشت کرسکتا تھا،چنانچہ جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کے تحت پابندی لگا دی گئی،انکے اثاثے منجمد کردیے گئے اور دہشتگردی کا لیبل بھی لگ گیا۔بہتر ہوا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے اثاثوں کا نقصان برداشت کرکے یہاں سے نکل گئے اور عدالت کے چکروں میں نہ پڑ کر اپنے مشن کو مقدم رکھا۔
       
حکومتی جبر و استحصال کی تیسری مثال پاپولر فرنٹ آف انڈیا بن رہی ہے۔بنیادی طور یہ ایک سماجی رفاہی تنظیم ہے،یہ تنظیم اپنے کیڈرس کو جسمانی طور پر مظبوط بنانے پر خصوصی توجہ دیتی ہے،جنوبی بھارت میں اس کے اثرات کافی زیادہ ہیں اور اب دھیرے دھیرے شمالی ریاستوں میں بھی اس کا نفوذ بڑھ رہا ہے۔ریاست کیرلہ نے اس پر پابندی کی مانگ کردی ہے۔جھارکھنڈ حکومت نے دو سال قبل اس پر پابندی عائد کی جسکو عدالت نے رد کردیا لیکن دوبارہ پھر مسلم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے جھارکھنڈ حکومت نے پی ایف آئی پر پابندی لگا دی۔
مذکورہ بالا تنظیموں کے نام بھارتی حکومت کی براہ راست ظلم جبر کی کچھ مثالیں ہیں،ایک کے بعد ایک مسلم تنظیمیں حکومتی دہشتگردی کا شکار ہورہی ہیں،جس پر کینڈل مارچ نکالنے والا طبقہ بھی خاموش ہے اور امت مسلمہ ہند کی دوسری تنظیمیں اور جماعتیں شاید اس وہم میں خاموش ہیں کہ ابھی وہ محفوظ ہیں، حالانکہ ہر ایک کی باری آنی ہے۔جماعت، اسلامی وحدت اسلامی،فیو،جمیعت اہل حدیث،تبلیغی جماعت،جمیعۃ العلماء وغیرہ سب شکار ہونگے،کیونکہ یہ تو دراصل اسلام اور کفر کی لڑائی ہے جس کو قرآن نے بہت پہلے واضح کردیا ہے۔بھارتی مشرکین اس وقت مادی طور پر واضح طاقت رکھتے ہیں چنانچہ اہل ایمان لازمی طور پر نشانہ بنیں گے،اب اس کے مقابلے کے لیے جتنا جلد ہم بیدار ہونگے اتنا کم نقصان ہوگا ورنہ سب کی باری آنی ہے۔
محمد اسامہ فلاحی
                         14/2/19